غزل – یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے

خواجہ حیدر علی آتش

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے

پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

ہمیشہ رنگِ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

یہ کعبے سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخِ یار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رو کرتے

نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

تبصرے بند ہیں۔