غزل

ساغر و پیمانہ خالی میکدہ ویران ہے

جب سے کورونا وائرس کی وبا شروع ہوئی ہے ایک فارسی کلام “شہر خالی” کی ویڈیو بہت وائرل ہورہی ہے.. کلام بھی دل چھو لینے والا ہے اور گائیکی سونے پر سہاگہ ہے… موجودہ حالات میں یہ کلام اپنے سامع پر ایک کیف طاری کر دیتا ہے. اسی کلام کو اپنے والد محترم کی فرمائش پر اردو غزل کا جامہ پہنانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش امید ہے پسند آئے گی… کمنٹس میں حوصلہ افزائی ضرور فرمائیں بہت شکریہ
سعید سعدی

ساغر و پیمانہ خالی میکدہ ویران ہے
شہر کے رستے ہیں خالی ، ہر گلی سنسان ہے

کوچ کرکے جا چکے ہیں بلبلوں کے قافلے
ہو ُ کا عالم ہے وہ چاہے کھیت یا کھلیان ہے

ڈر رہے ہیں یار یاروں سے جدا محبوب ہیں
یہ ہوا کیسی چلی ہے ہر کوئی حیران ہے

ساز، سازندے ہوں چارہ گر ہوں یا بیمار ہوں
خوف طاری ہےنہ کوئی حال کا پرسان ہے

شاعروں کا درد بھی حد سے سوا ہونے لگا
سالِ نو کی ابتداء سے ہر کوئی ہلکان ہے

نالہ و فریاد سے آباد ویرانے کروں
خاک ڈالوں سر پہ اپنے اس قدر ہیجان ہے

گردشِ دوراں کے تھمنے پر بھی آنکھیں بند ہیں
خوابِ غفلت میں ہے انساں اس قدر نادان ہے

خشک چشمے ہوگئے، آبِ رواں سکتے میں ہے
لگ رہا ہے آسماں دشمن یہ کیا بحران ہے

پھول برسیں ، جام چھلکیں ، وقتِ رفتہ لوٹ آ
ہر گرفتہ دل کا سعدی بس یہی ارمان ہے

تبصرے بند ہیں۔