غزوہ بدر کے دروس!

محمد رضی الاسلام ندوی

اسلامی تاریخ میں ماہ رمضان المبارک میں جتنے معرکے ہوئے ہیں ان میں سرِ فہرست غزوہ بدر ہے _ یہ 17 رمضان کو ہوا تھا _ اس مناسبت سے SIO کے احباب عزیزی افضل خاں اور عزیزی اسعد فلاحی نے مجھ سے خواہش کی کہ میں ‘غزوہ بدر کا پیغام’ کے عنوان سے کچھ ریکارڈنگ کروادوں _ یہ دونوں نوجوان چوں کہ مجھے بہت عزیز ہیں اس لیے میں نے ان کی خواہش کی تعمیل کی _

میں نے غزوہ بدر کے حوالے سے 5 نکات بیان کیے :

1_فتح و شکست کا تعلق تعداد کی کثرت و قلّت سے نہیں ، بلکہ ایمان ، عزیمت اور جذبہ سے ہے _ بدر میں کفار ایک ہزار تھے اور مسلمان 313 ، کفار عسکری اعتبار سے بہت مضبوط اور مسلمان بہت کم زور تھے ، پھر بھی مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہوئی _
2_ظاہری و مادی تیاری اور اللہ تعالی سے دعا و استمداد میں توازن ہونا چاہیے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ نے پہلے ہر ممکن تدابیر اختیار کیں ، ظاہری اسباب فراہم کیے ، پھر آپ ص بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوگئے اور گڑگڑاکر دعا کی کہ بار الہا! اگر یہ مختصر سی جماعت آج ہلاک ہوگئی تو قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا _ اے اللہ! تو اس کی نصرت فرما _

3_مومن زندگی کے ہر لمحے احکامِ الہی کا پابند ہے _ مسلمان کفار کے ذریعے ستائے جاتے رہے _ وہ بسا اوقات انتقام لینا چاہتے تھے، لیکن انھیں ہاتھ روکے رکھنے کا حکم دیا گیا تو وہ اس کے پابند رہے ، لیکن جب انھیں اس کی اجازت دے دی گئی تو انھوں نے جان و مال کی قربانی پیش کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا _

4_اہل ایمان نے بدر کے قیدیوں کے ساتھ اعلی اخلاق کا مظاہرہ کیا _ انھوں نے ان کے آرام کا خیال رکھا ، خود بھوکے رہے ، انھیں کھانا کھلایا _ ان کے ساتھ کوئی غیر انسانی سلوک نہیں کیا _ جب کہ موجودہ دور میں گوانتانا موبے اور ابو غریب کے قید خانوں میں تہذیب جدید کے علم برداروں نے جو مظالم ڈھائے ہیں وہ انسانیت کو شرم سار کرنے والے ہیں _

5_ بدر کے قیدیوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا عباس بھی تھے اور آپ کے داماد ابو العاص بھی _ دونوں آپ کو بہت عزیز تھے _ لیکن ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا ، بلکہ جو سلوک دوسرے قیدیوں کے ساتھ کیا گیا ، وہی ان کے ساتھ بھی روا رکھا گیا _ دوسرے قیدیوں کو فدیہ لے کے چھوڑا گیا تو ان دونوں سے بھی فدیہ وصول کیا گیا_

تبصرے بند ہیں۔