غزوۂ بدر :ایمان افروز معرکہ حق و باطل

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
رمضان المبارک خود ایک عظیم الشان مہینہ ہے ،جس میں بے شمار اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور خصوصی معاملات انسانوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں ،پھر اللہ تعالی نے اس کی عظمت کو مزید بڑھانے کے لئے کئے ایک واقعات کو اس میں رونما فرمایا ،یہ نزولِ قرآن کا بھی مہینہ ہے ، شبِ قدر بھی اسی مہینہ میں رکھی گئی اور اسلامی تاریخ کا عظیم معرکہ ،حق وباطل کے درمیان فیصلہ کن جنگ غزوۂ بد ر بھی اسی مہینہ کی 17 تاریخ کو پیش آیا ،غزوہ بدر کی بہت ساری خصو صیتیں ہیں ،یہ اسلام کے لئے لڑی جانے والی بے سروسامانی کی حالت میں پہلی جنگ ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کے جاں نثاروں کا بڑا عجیب امتحان لیا ،ان کی ایمانی قوت کو جانچا ،اور نبی ﷺ کے لئے ان کی فداکاری کے جذبوں کا پرکھا ،غزوہ بدر تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور ہر دور اور ہرزمانے کے مسلمانوں کے لئے ایک پیغام اور سبق ہے ،ایمان و مادیت کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے ،حق پرستوں کی غیبی تائید کا مظہر ہے ،نافرمانوں اور خدا فراموشوں کے لئے خدائی تہدید ہے کہ اسباب و وسائل کی کثرت ،مال ودولت کی وسعت خدا کی تدبیر اور منصوبے کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور مخلص ایمان والوں کی جد وجہد ، اطاعت و وفا شعاری باطل طاقتوں کی ہو ااکھاڑ کر رکھ دیتی ہے یہ اور اس کے علاوہ بے شمار پیغامات غزوہ بد ر کے اند ر موجود ہیں،اس کا ایک ہلکا سا نقشہ اور اس کا ایمان افروز منظر نگا ہوں میں لانے کے لئے ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
غزوہ بد رکا پس منظر:
نبی کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہ ؓ نے کفار کے مظالم کی وجہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی ،اور یہاں پر اسلام کا دامن دراز ہونے لگا ،مختلف قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے ،کفار مکہ چوں کہ اس ترقی اور سربلندی سے خائف تھے اور مسلمانوں کے خلاف مستقل سازش میں تھے کہ ہجرت کے دوسرے سال ان ہی حالات میں معلوم ہوا کہ مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی سر کردگی میں ملک شام سے واپس ہورہا ہے اور مدینہ کے قریب سے گذرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہونچے گا ،تو نبی کریم ﷺ نے چند اصحاب کو اس قافلہ کے تعاقب کے لئے بھیجا تاکہ وہ سامانِ تجارت کو روک لے ،کیوں کہ مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں میں اس تجارتی مال کو بھی بڑا دخل تھا ،جب ابو سفیان کو اس کی خبر ہوئی تو ا س نے فوراایک قاصد مکہ روانہ کیا اور پیغام بھیجا کہ اپنے سامان کی حفا ظت کے لئے آئیں ۔جب یہ قاصد مکہ پہونچا تو ابوجہل نے ایک زبردست لشکر کو تیار کیا ،آلات و ہتھیار سے لیس اور جنگی سامان سے آراستہ ایک مکمل قافلہ لے کر نکلا،ادھر ابوسفیان نے دوسرے خفیہ راستے سے سامان کو لے کر نکلنے میں کامیاب ہوگیا ،اور کہلا بھیجا کہ اب آنے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ جس کا خوف تھا وہ ختم ہوگیا مگر دشمن اسلام ابوجہل نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کاعزم کرلیا تھا اور اس کے لئے اس نے تمام سردارانِ قریش کو اکھٹا کیا تھا اس نے واپس ہونے سے انکار کیا اور بڑھ گیا۔
رسول اللہ ﷺ کا اعلان :
ان حالات کا علم جب نبی کریم ﷺ کو ہو ا تو آپ نے بھی صحابہ کرام کو جمع فرمایا ،نبی کریم ﷺ کا ارادہ کیوں کہ جنگ اور قتل قتال کا نہیں تھا اس لئے آپ نے بغیر اہتمام کے ہی صحابہ کرام کو قافلۂ تجارت کو روکنے کے لئے بھیجا تھا لیکن اب صورت حال بدل چکی تھا ،دشمن لشکر جرار کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے ارادے کے ساتھ آرہا تھا اس لئے نبی کریم ﷺ نے انصار و مہاجرین کو جمع فرماکر پوری صور ت حال سے آگاہ کیا۔مہاجرین نے آپ کی حمایت اور اور ہر طرح کا ساتھ دینا کا عدہ کیا ، نبی کریم ﷺ نے دوسری مرتبہ فرمایا ،آپ کی خواہش تھی کہ انصار بھی اپنی جانب سے پیش کش کریں جب تین مرتبہ آپ نے فرمایا تو انصار سمجھ گئے کہ اللہ کے نبی ہمارا منشا معلوم کرنا چاہتے ہیں تو حضرت سعدبن معاذؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ :میں انصار کی جانب سے عر ض کرتا ہوں اور ان کی جانب سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آپ ؐ جہاں چاہیں روانہ ہوں جس سے چاہیں تعلق فرمائیں اور جس سے چاہیں ختم کریں ہمارے مال و دولت میں جتنا چاہیں لیں ، اور ہم کو جتنا پسند ہو عطا فرمائیں ،ا س لئے کہ آپ ؐ جو کچھ لیں گے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ محبوب ہو گا جو آ پ چھوڑدیں گے ،آپ کو ئی حکم دیں گے تو ہماری رائے آ پ کی رائے کے تا بع ہوگی ،خدا کی قسم ! اگر آپ چلنا شروع کریں یہاں تک کہ برک الغماد تک پہونچ جائیں تب بھی ہم آپ کے ساتھ چلتے رہیں گے ،اور خدا کی قسم ! اگر آپ اس سمندر میں داخل ہو جائیں گے تو ہم بھی آپ کے ساتھ اس میں کود جائیں گے ۔ابھی حضرت سعد نے یہ ایمان افروز حمایت کااظہار فرمایا ہی تھا کہ انصار ہی میں سے حضر ت مقدادؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ : ہم آپ سے ایسا نہ کہیں گے جیسا کہ موسی ؑ کی قوم نے موسی علیہ السلام سے کہا تھاکہ فاذھب انت و ربک فقا تلا انا ھھنا قاعدون ۔( جاؤ تم اور تمہارا رب دونوں مل کر جنگ کرو ، ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے) ہم تو آ پ کے دائیں لڑیں گے ،بائیں لڑیں گے ، آپ کے سامنے آکر لڑیں گے ، اور آپ کے پیچھے لڑیں گے ۔جب ان وفاشعاروں کی ان محبت اور اطاعت میں ڈوبی ہوئی باتیں نبی کریم ﷺ نے سنی تو خوشی و مسرت سے آ پ کا چہرہ انور چمک اٹھا اور دل کو بڑی راحت نصیب ہوئی آپ نے فرمایا : سیروا و بشروا۔( نبئ رحمت :۲۸۱)
وفا شعاروں کا لشکر:
چوں کہ جنگ کا پہلے سے ارادہ نہیں تھا اور مسلمانوں کے پا س ہتھیا ر وغیرہ کی بھی کثرت نہیں تھی ،اس لئے بڑی ہی بے سرو سامانی کے عالم میں سچے جا ں نثاروں اور اسلام کے فداکاروں کا یہ مٹھی بھر تین سو تیرہ پر مشتمل افراد قافلہ امیر لشکر سید البشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیاد ت میں اس شان سے نکلا کہ مجاہدین اسلام کے پاس صرف دو گھوڑے اور ستر او نٹ تھے ، ایک ایک اونٹ پر دو دو تین تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے ،جن کے پاس نہ سامان تھا ، نہ کھانے پینے کے اسباب کی بہتات ،محبت رسول میں سرشار اور دین حق کے ان متوالوں کے لئے سب سے قیمتی چیز اپنے محبوب نبی کی رضا تھی ،یہ ۳۱۳ کا لشکر نکلا ۔( نبئ رحمت :۲۸۳)او ر اس بے سروسامانی دیکھ کر خود نبی کریم ﷺ آبدیدہ ہو گئے اور اللہ تعا لی کے حضور دعا کی کہ: اے اللہ ! یہ لوگ برہنہ پا ہیں انہیں سواری دے ، اے اللہ ! یہ لوگ برہنہ ہیں انہیں لباس دے ، اے اللہ ! یہ لوگ بھوکے ہیں ا نہیں سیرکر۔اللہ نے بدر کے دن فتح دی ،وہ لوگ جس وقت لوٹے تو اس حالت میں لوٹے کہ ان میں سے کوئی شخص ایسا نہ تھا جو ایک یا دو سواری کے بغیر ہو انہوں نے کپڑے بھی پائے اور سیر بھی ہوئے۔( طبقا ت ابن سعد:۱/۲۵۹)
صحابہ کرام کی اطاعت و فرماں برادی :
صحابہ کرام نے اس غزوہ میں اطاعت و فرماں برداری کاایسا مظاہر ہ کیا کہ رہتی دنیا ایسے جاں نثاروں کی تاریخ پیش کرنے سے عاجز ہے ،اور اسلام کے لئے ایسی قربانی دینے والوں جھلک پیش کرنے سے قا صر ہے ،ان کی انہی قربانیوں کے نتیجہ میں ان کے بڑے فضا ئل نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائے ۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ :لعل اللہ اطلع الی اھل البدر فقال اعملوا ماشئتم فقد وجبت لکم الجنۃ ۔( بخاری :۳۵۱۰) تحقیق اللہ نے اہل بدر کی طرف نظر فرمائی اور یہ کہہ دیا کہ جو چاہے کرو جنت تمہارے لئے واجب ہے ۔بچوں نے ،جوانوں نے اس میں شرکت کے لئے حیرت انگیز کوششیں کیں ،جنگ اپنے عروج پر ہے ،نبی کریم ﷺ نے اعلان فر مایا کہ دوڑو اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کے برابر ہے جب یہ آواز حضر ت عمیر بن الحمام کے کانوں میں پڑی ، کھجور کھانے والے بھی یہ کہہ کر چھوڑدیا کہ کھجور کھانے میں بہت دیر ہوجائے گی اور میدان میں کو د پڑے یہاں تک کہ جامِ شہادت نو ش کیا ، اور غزوہ بدر کے پہلے شہید صحابی کہلائے ، حضرت عمیر بن ابی وقاص جو صرف سولہ سال کے تھے اس غزوہ میں شریک ہونے کے اپنے بھائی سعد بن ابی وقا ص کی نگاہوں سے چھپ کر پھر رہے ہیں کہ کہیں دیکھ کر گھر نہ بھیج دیں اور اللہ کے نبی کی آنکھوں سے دور ہی رہنے کی کوشش میں ہے کہ کہیں کم سنی کی وجہ سے واپس نہ کردئیے جائیں ،لیکن جب نبی کریم ﷺ نے اس شوق کو دیکھا تو اجازت مرحمت فرمادی ۔یہ اور اس طرح بہت سارے واقعے اس معرکہ ایمان وکفر میں پیش آئے۔
رسول اللہ ﷺ کی بے قراری :
مسلمانوں کا صرف تین سو تیرہ کا چھوٹا سا لشکر ہے جس کے پاس نہ سواریوں کا انتظام ہے ،نہ آلات حرب کی فراوانی ،نہ ہی طاقت کو مجتمع کرنے کے لئے بہترین غذاؤں کی سہولت ،پیادہ پا، فاقہ زدہ شکم ،اور دوسری جانب دشمنوں کا ایک ہزار کا لشکرجو ہر اعتبارسے لیس اور آراستہ، بلکہ فوجیوں کے جوش و جذبے کو بھڑکانے والی ہر چیز کا اہتمام ایسی صورت حال میں جہاں اللہ کے نبی ﷺ صحابہ کرام کی ہمتوں بڑھاتے ، ابدی کامیابی کے وعدے سناتے ، خداکے انعامات سے خو ش کرتے وہیں آپ کے لئے میدان بدر میں جو ایک خیمہ بنا یا گیا تھا اس میں پوری رات روتے ہوئے گذاردیتے اور پوری الحاح و زاری کے ساتھ پروردگار عالم سے فرماتے کہ اے اللہ آج قریش تکبر اور گھمنڈ کے ساتھ آئے ہیں ،وہ تجھ کو چیلنج کرتے ہیں اور تیرے نبی کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے کہ: اللہم ان تھلک ھذہ العصابہ لا تعبد بعدھا فی الارض۔یعنی اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت فناہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری کوئی عبادت کرنے والا نہ ہوگا۔اور باربار یہی فرماتے رہتے :اللہم انجزنی ماوعدتنی ،اللہم نصرک۔اے اللہ تونے مجھ سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما،اے اللہ ! تری مدد کی ضرورت ہے ۔یہاں تک حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی !بس کیجئے ضرور اللہ آپ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے گا۔( زاد المعاد:3/157)
فتح و کامرانی :
نبی کریم ﷺ کی شبانہ روز دعائیں ،حضرات صحابہ کرام کی قربانیا ں ،اور ایمان و یقین کی مضبوطی نے ۳۱۳ تیرہ صحابہ کو ۱۰۰۰ کے مقابلے میں کامیاب کیا ،اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد و نصرت کے لئے جہاں ماحول کو مسلمانوں کے حق میں سازگار کیا ،بارش کی وجہ سے مشرکین کے خیمے اکھڑگئے ،لشکر منتشر ہوگیا،حوصلے مضمحل ہوگئے ،اور صبح میدان کارزار میں اللہ تعالی نے فرشتوں کو اتار کر مسلمانوں کی مدد فرمائی ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے غزوہ بدرکا تذکرہ مختلف آیتوں میں کیا ایک جگہ ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ :ولقد نصر کم اللہ ببدر وانتم اذلۃ ،فاتقو اللہ لعلکم تشکرون ،اذ تقول للمؤمنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلثۃ الف من الملئکۃ منزلین۔( سورۃ اٰل عمران:123،124)اللہ نے ( جنگ) بدر کے موقع پر ایسی حالت میں تمہاری مدد کی تھی جب تم بالکل بے سروسامان تھے ۔لہذا ( صرف )اللہ کا خوف دل میں رکھو ،تاکہ تم شکر گذار بن سکو۔جب ( بد رکی جنگ میں) تم مؤمنوں سے کہہ رہے تھے کہ:کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کو بھیج دے ؟اللہ تعالی نے اپنے نبی کی دعاؤں کو اور ان کی آہ وزاری کو قبول فرمایا اور صحابہ کرام کی استقامت اور اطاعت رنگ لائی ،مٹھی بھر افراد نے کفا ر کے دم خم کو خاک میں ملا دیا ،ان کوذلت آمیز شکست سے دوچا رہونا پڑا اوراللہ پر ایمان رکھنے والے ،نبی کی اطاعت کا دم بھرنے چند سو لوگوں نے ہزار کے لشکر کو ناکام کردیا۔چناں چہ جمعہ کے دن سترہ (17) رمضان کو مسلمانوں نے فتح پائی ۔
نافرمانوں کی ذلت وناکامی:
کفار جس ناز اور فخر کے ساتھ آئے ،اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے مٹادینے کے زعم باطل میں آئے لیکن بہترین تدبیر کرنے والے پروردگار نے ان کی تمام تدبیروں کو ناکام بنادیا اور نہایت ذلت کے ساتھ نہ صرف جنگ ہارے بلکہ اپنے سرداروں اور رئیسوں سے بھی محروم ہوگئے ،جب ابوجہل نے تمام بڑ ے بڑے سرداروں کو اس جنگ کے لئے تیار کر کے میدان میں لے آ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھاکہ:مکہ نے آج اپنے سب جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے سامنے ڈال دیا ہے ۔( نبئ رحمت:284)چناں چہ وہ تمام سرداران قتل ہوئے ،نبی کریم ﷺ نے پہلے ہی چند سرداروں کی جائے قتل بھی بتلادی تھی ۔کفار کے ستر ( 70) بہادر مارے گئے ،ستر( 70) قید ہوئے ،وہ چودہ (14)سردار جو دار الندہ میں آں حضرت ﷺ کے قتل کے مشورہ میں شریک ہوئے تھے ان میں سے (11) گیارہمارے گئے ۔( رحمۃ اللعالمین:۱/ ۱۲۵)رسول اللہ ﷺ نے چوبیس سرداران قریش کی لاشوں کے متعلق ایک نہایت خبیث ،ناپاک اور گندہ کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا ،کنویں میں ڈالے گئے وہ سردار تھے اور باقی مقتولین کسی اور جگہ ڈلوائے گئے ۔( سیر ت المصطفی :۲/ ۱۰۳)
غزوہ بدر کی اہمیت :
رسول للہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اور بھی بہت سارے چھوٹے بڑے غزوے پیش آئے ،لیکن ان تما م میں غزوہ بد ر کی شان سب سے نمایاں اور ممتا ز ہے ۔کیوں کہ یہ غزوہ تاریخ کا سب سے اہم اور حق وباطل کے درمیا ن میں فیصلہ کن تھا ،کفر کی طاقت کے ٹوٹنے ،اور کافروں کے نشے کو ختم کرنے کے لئے ایک عظیم ترین تھا ، اسی اللہ تعالی نے قر آن کریم میں اس غزوہ کو "یوم الفرقان” (سورۃ الانفال :41)سے تعبیر کیا گیا۔اورمادیت کے پرستاروں ،اسباب و سائل کے ثنا خوانوں کو یہ بتلا دیا کہ للہ تعالی کے نزدیک کثرت اور قلت کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کامل ایمان والوں کو سر خرو وکامیاب کرتے ہیں چاہے وہ وہ تعد ادمیں تھوڑے ہی کیوں نہ ہو ؟یہی معاملہ جالوت کے مقابلہ میں حضرت طالوت کے ساتھیوں کا تھا وہ بھی تعداد میں تین سو تیرہ تھے لیکن ایک بڑی جمعیت کے مقابلے میں کامیاب ہوگئے ۔حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے بڑی اہم بات لکھی کہ:ہجرت کے دوسرے سال رمضان ہی میں بدر کی وہ فیصلہ کن اور تاریخ ساز جنگ ہوئی جس میں امت اسلامیہ کی تقدیر اور دعوت حق کے مستقبل کا فیصلہ ہو ا جس پر پوری نسل انسانی کی قسمت کا انحصار تھا ،اس کے بعد سے آج تک مسلمانوں کو جتنی اور کامیابیاں حاصل ہوئیں ،اور ان کی جتنی حکومتیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں وہ اسی فتح مبین کی رہینِ منت ہیں جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی ۔( نبی رحمت :279)دکتور علی محمد الصلابی نے لکھا کہ :غزوہ بد ر کے ذریعہ جہاں ایک طرف مسلمانوں کی شان وشوکت میں اضافہ ہو ،اسلام کا ستار ہ بلند ہو ا، دشمن مسلمانوں سے مرعوب ہو گئے ،منافقین کا نفاق واضح ہو گیا وہیں دوسری خود صحابہ کرام کا اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ سے تعلق مزید مضبوط ہوگیا ،اور اسلا م کے لئے ناموافق حالات کو برداشت کرنے میں خا ص مدد ملی۔(غزواۃ النبی دروس و عبروفوائد:72)غزوہ بدر کی اہمیت اور عظمت اس لحاظ سے بڑی اہم ہے کہ اس فتح کے ذریعہ اللہ تعالی نے کمزور صحابہ کو حو صلہ و ہمت عطا کیا اور ان کی ہیبت دشمنوں کے دلوں میں بیٹھ گئی ،کل تک جن مسلمانوں کو بے یار ومددگار سمجھ کر ہر قسم کا ظلم کیا جاتا اور طرح طرح کے مظالم ڈھا ئے جاتے لیکن اس فتح مبین نے ان کی عظمتوں کو بڑھا دیا اور مخالفین کے حوصلوں کو تو ڑ کر رکھ دیا ،خود کفار کے سرغنے مارے گئے جس سے ان کا پوراگھمنڈاور بڑائی کا نشہ اترگیا۔
پیغام :
یہ ایمان افروز معرکہ حق وباطل کا ایمان والوں کو کئی ایک پیغامات اور سبق آموز ہدایات دیتا ہے ،اور موجودہ حالا ت میں اس کی خاص معنویت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے کیوں کہ آج چاروں طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر حملوں کی بارش ہے ، مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان کے حقو ق کو سلب کرنے کی ہرممکن کوششیں کی جارہی ہیں ،طاقت و قوت ،سائنس اور ٹکنالوجی کے نشے میں ،ایجادات اور اختراعات کے زعم میں مسلمانوں کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں ،اور بظاہر پوری دنیا کے حالات اس کا شدت سے تقاضا کررہے ہیں کہ متی نصر اللہ ، اللہ کی مدد کب آئے گی ؟اس کے لئے وہی قرآنی ہدایت ہمیں بھی پیشِ نظر رکھنی چاہئے جو اس نے اہل بدر کو دی تھی کہ تقوی سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا اور صبر و تقوی کو حاصل کرنا جوخدائی مدد کے اترنے کا اہم ترین سبب ہے ۔تقوی اور صبر سے جب تک مسلمان مزین نہیں ہوں گے باطل طاقتوں کے سامنے ٹھہر بھی نہیں سکتے اور جب تقوی و صبر کی صفا ت آجائیں گی پھر دنیا میں کوئی باطل کامیاب ہو بھی نہیں سکتا یہی اللہ تعا لی نے تعلیم ان پاکیزہ نفوس کو دی تھی جو ہر وقت تقوی کے حصول کے لئے دربار رسالت میں حاضر رہتے اور ان اس عظیم مربی ؐکی زیر نگرانی تقوی کے حصول میں سرگرداں رہتے ۔یہی چیز پھر تعلق مع اللہ کا ذریعہ بھی ہوگی ،اور ایمان و یقین کو مضبوط کر نے کا سبب بھی بنے گی ، مادیت کی اس گرم بازی میں اور اسباب و وسائل کو سب کچھ سمجھنے کے اس دور میں خدا کی مدد ونصرت کا بھی دل یقین پیدا ہوگا ۔
؂ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اترسکتے گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

تبصرے بند ہیں۔