غصہ خوبی بھی ہے اور خرابی بھی

قمرفلاحی

غصہ کرنے کو اکثر لوگ برا مانتے ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ہر غصہ ناجائز نہیں ہوتا۔ غصہ تو اللہ تعالی کو بھی آتا ہے اور ایسا کہ اس کا جلال بھڑک اٹھتا ہے۔ معلوم ہوا کہ غصہ اللہ سبحانہ تعالٰی کی صفت ہے۔

سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ ربّ العالمین سے عرض کیا: اے میرے ربّ! مجھے اس شخص کے بارے میں بتلادیجیے جو آپ کی مخلوق میں آپ کے ہاں زیادہ قدرومنزلت والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ شخص جو میری مرضی کو پورا کرنے میں اس طرح اُڑے جس طرح باز اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُڑتا ہے، اور جو میرے نیک بندوں سے اس طرح عشق ومحبت کرتا ہے جس طرح بچہ ماں باپ کے ساتھ محبت سے چمٹ جاتا ہے‘ اور وہ شخص جو میری حرمتوں کی پامالی کے وقت غصے سے بھڑک اٹھتا ہے جس طرح چیتا اپنی ذات کی خاطر غصے سے بھڑک اٹھتا ہے۔ جب وہ غضب ناک ہوجاتاہے تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ تھوڑے ہیں یا زیادہ۔‘‘(مجمع الزوائد‘ ج7ص265)

غصہ انسان کی خوبی ہے اور غصہ آنا ایمان کی علامت ہے، جو لوگ غصہ و ناراضگی کا اظہار  نہیں کرتے وہ منافق صفت ہوتے ہیں اور جو بار بار غصہ کرتے ہیں وہ نہایت کمزور دل والے ہوتے ہیں ان میں استقامت نہیں ہوتی وہ کسی کی معمولی ڈانٹ پہ ہی اپنا موقف بدل لیا کرتے ہیں۔

ایسے لوگ اپنے سے کمزور کیلئے فرعون اور اپنے سے طاقت ور کیلئے بھکت بن جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو موقعہ ملتے ہی گردن پکڑتے اور موقعہ پاتے ہی پیر پکڑتے دیر نہیں لگتی۔

غصہ کا جائز اظہار اشاروں میں واقعہ کی نوعیت اور اس کی شناعت ظاہر کردیتی ہے اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اوصاف رذیلہ کو ان کے سینے سے نکال لیا گیا تھا اور یہ واقعہ شق صدر کے موقعہ سے پیش آیا تھا مگر اس کے باوجود موقع موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ہونا اور اس کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پہ نظر آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ غصہ عین دین ہے اور اوصاف حمیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔

غصہ کا جائز محل غصہ کو جائز اور اس کا ناجائز استعمال اسے ناجائز بناتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب غصہ آئے تو آدمی کو اپنی  حالت بدل لینی  چاہیے اور اسے وضو کر لینا چاہیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غصہ فطری چیز ہے یہ آتا ہے اور اسے  آنا ہی چاہیے مگر جائز موقعہ ومحل پہ۔

عَنْ عَطِيَّةَ قَال قَال رَسُول اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَان وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِوَإِنَّمَاتُطْفَأُالنَّارُبِالْمَاءِفَإِذَاغَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ»​﴿سنن ابی داؤد4786﴾ ​

عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا گیا ہے اور آگ کو پانی بجھاتا ہے تو شخص کو غصہ آئے اسے وضو کر لینا چاہیے۔

کچھ لوگوں کو غصہ اس وقت آتا ہے جب کوئی غصہ دلاتا ہے، یا پھر وہ خود غصہ کا ماحول پیدا کرتے ہیں اور اس کیلئے وہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں تاکہ  دیگرلوگ ایسے لوگوں سے خوفزدہ رہیں اور ایسے شخص کی عزت کریں، یہ غصہ کی وہ شکل ہے جسے ظلم کہہ سکتے ہیں۔

غصہ دعوت کا ایک انداز ہے جیسا کہ جب موسی علیہ السلام طور سے لوٹ کر اپنے علاقہ میں آئے تو سامری، شیطان کے اشارے پہ اپنا کام کر چکا تھا اور لوگوں کو بچھڑے کی پوجا پہ آمادہ کرچکا تھا، شرک کی اس حالت کو دیکھ کر موسی علیہ السلام کو اپنے بھائی کے نرم رویے اور سامری کی حرکت پہ اس قدر غصہ آیا کہ انہوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی پکڑ لی اور یہ فرمایا کہ تمہاری موجودگی میں ایسا کس طرح ہوگیا۔؟

غصہ کا علاج :

عن سليمان بن صرد رضي الله عنه قال : استب رجلان عند النبي ‏صلى الله عليه وسلم فجعل أحدهما يغضب ويحمر وجهه و تنتفخ أوداجه فنظر ‏إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال : إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب ذا عنه :” ‏أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ” فقام إلى الرجل رجل ممن سمع النبي صلى الله ‏عليه وسلم فقال : تدري ما قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم آنفا ؟ قال : لا، ‏قال: إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه : أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، فقال ‏له الرجل : أمجنونا تراني؟ .‏‏( صحيح البخاري : 3282، بدء الخلق / صحيح مسلم : 2610، البر / الفاظ صحیح مسلم کے ہیں )‏​

ترجمہ :حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ‏گالی گلوچ کررہے تھے ان میں کا ایک غصے میں آگیا، اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اس کی رگیں پھول گئیں، رسول اللہ ‏صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا :” میں ایک کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اسے کہہ لے تو اس کی یہ ‏کیفیت دور ہوجائے، وہ کلمہ ہے ” اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ” [ میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ‏‏]” چنانچہ جن لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ان میں سے ایک شخص اس غصہ ہونے والے ‏شخص کے پاس گیا اور کہنے لگا : کیا تم جانتے ہو کہ ابھی ابھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا : اس نے ‏جواب دیا : نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ ہیں میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے اگر یہ پڑھ لے ‏تو اس کا غصہ جاتا رہے، وہ کلمہ ہے : ” اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ” اس شخص نے کہا کہ کیا تو مجھے ‏پاگل سمجھ رہا ہے۔[ صحیح بخاری وصحیح مسلم ]‏​

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔