غصہ سے بچنے کی تدبیریں: سیرتِ بنویؐ کی روشنی

محمد عرفان شيخ یونس سراجی

غیض وغضب، غصہ اور اشتعال انگیزی  ایسی صفت ہے جوکہ انسان کا لازمہ بن گیا ہے۔ غصہ کا آنا،خون کا گرم ہونا،جسمانی  حرارت کا پسینے کی شکل میں ظاہر ہونا فطری وجبلی شی ہے، لیکن سب سے جری وبہادر وہ شخص ہے جو آئے ہوئے غصہ  اور خون  کی تپش کو ٹھنڈا کرنے کی طاقت وسکت رکھتا ہو۔تاہم اس کے  بے شمار اخلاقی ودینی اور سماجی  ومعاشرتی  نقصانات  ومضرات ہیں۔

صفت غضب  کی وجہ سے دو قریبی رشتہ داروں کے مابین بے تحاشا ناچاکی اور انارکی پیدا ہوجاتی ہے،الفت ومحبت، بھائی چارگی اور خیر سگالی کا جنازہ نکل جاتا ہے،دو سگے بھائیوں میں ان بن ہوجاتی ہے،باپ بیٹوں میں  غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں، اچھے ملنسار، خلیق انسان  ہونے کی باوجود سماج ومعاشرہ میں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،بسااوقات تو ایسا ہوتا کہ خو ن خرابےتک  کی نوبت آجاتی ہے- ایسا بھی مشاہدہ کیا گیاہے کہ انسان  اشتعال انگیزی میں اپنا آپا کھو کر  اپنے پروردگار کو کوسنے اور لعن وطعن کرنے لگتا ہے- بنابریں اسلام نے معاصی اور کبیرہ  گناہوں سے بچنے کے لیے، پرسکون ماحول سازی اوربہترین سماج ومعاشرہ کی تشکیل کے لیے،انسانی طرز رہن سہن  آسان  اورسہل بنانے کے لیے،لوگوں  میں موجود  غیر مناسب  اخلاق باختہ صفات کےخاتمہ کے لیے  نہایت ہی  ناگزیر  رہنمائی فرمائی ہے۔

نبوی روشنی میں غیض وغضب کا علاج:

1۔ نبی کریم ﷺ کی وصیت کی حفاظت کرنا:

 نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:

أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: أَوْصِنِيْ، قَالَ:”لَاتَغْضَبْ“ فَرَدَّدَ مِرَارًا،قَالَ:”لَاتَغْضَبْ“.(صحیح بخاری، ح:6116)

ترجمہ:”ایک آدمی نے نبی کریمﷺ سے نصیحت طلب کی، تو آپ ﷺنے فرمایا:  تم غصہ مت کرو،اسے کئی مرتبہ دہرایا،اور  فرمایا کہ غصہ مت کرو“۔

2۔استعاذہ کا ورد کرنا:

نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:

”سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ قَالَ: اِسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ ﷺ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ جُلُوسٌ، وَأَحَدُهُمَا يَسُبُّ صَاحِبَه مُغْضِبًا قَدِ احْمَرَّ وَجْهَهُ، فَقَالَ النَّبِيِّ ﷺ: "إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ مَايَجِدُ، لَوْ قَالَ: أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ”. فَقَالُوا: لِلرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ النَّبِيُّ ﷺ ؟ قَالَ: إِنِّي لَسْتُ بِمَجْنُونٍ“.(صحیح بخاری،ح: 6115)

ترجمہ:” سلیمان بن صرد کوفی نے عرض کیا کہ نبی کریمﷺکے پاس دو شخص آپس میں گالی گلوج کرنے لگے اور ہم لوگ   وہیں بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی کو غصہ دلاتے ہوئے  گالی دی،جس سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا،تو نبی کریم ﷺنے فرمایا: میں  ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے  کہنے کے بعد تمہارا غصہ زائل ہوجائے گا، وہ کلمہ "أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ” ہے، تو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے  اس آدمی سے کہاکہ کیا تم نبی کریمﷺ کی کہی ہوئی بات نہیں سنتے ہو، اس نے کہا  کہ میں پا گل نہیں ہوں“۔

3۔سکوت اختیار کرنا:

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

”وَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْكُتْ“.(مسند أحمد،ح:2136،حدیث: حسن لغیرہ)

ترجمہ: ”جب تم میں سے کوئی غصہ ہو،تو چاہیے کہ وہ  خاموش ہوجائے“۔

4۔اطمینان وسکون:

نبی کریم ﷺکا فرمان ہے :

”إِذَا غَضِبَ أَحُدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ“.(صحیح الجامع: 694)

ترجمہ: ”جب تم میں سے کوئی  غصہ  ہو جائے اس حال میں کہ وہ کھڑا ہو، تو چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے، اور اگر  غصہ زائل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ لیٹ جائے“۔

مذکورہ بالا احادیث سے مستخرج مسائل:

1۔غصہ اور طیش کے نقصانات  اور خطرناکیوں کے پیش نظر نبی کریمﷺنے اس سے اجتناب اور پرہیز کرنے کی نہایت ہی  پر زور تاکید فرمائی  ہے۔

2۔اساطین علم وفن سے وقتا فوقتا ناصحانہ کلمات   طلب کرنے چاہیے تاکہ  حالات حاضرہ کی روشنی میں  رہنما اصول اور  قابل قدر  توجیہات سے آگہی ہوسکے۔

3۔ حالت غضبناکی  میں انسان  بڑے چھوٹے کی تمیز بھول جاتا ہے، جس کا نمونہ نبی کریم ﷺکی موجودگی میں ہوئے دوآدمی کے مابین آپسی جگڑےاور سب وشتم کی بوچھار ہے۔

4۔ انسان جب  غایت درجہ  غصہ  کی حالت میں ہوتا ہے، تو اس کے سبب چہرے کی رونق  سرخی اور عرق ریزی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

5۔ غیظ وطیش اور اشتعال انگیزی  کا شاہکار مداوا ” أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ“ کا ورد کرنا ہے  جو کہ نبوی تجویز ہے۔

6۔جب کوئی حالت طیش میں ہو، تو وہاں موجود لوگوں کی اہم ترین ذمہ داری اس کے  غصہ  اور خون کی تپش کو ٹھنڈا کرنا ہے۔

7۔ سکوت و خاموشی ایک بہترین صفت ہے جو غیظ وغضب دور کرنے کا ذریعہ ہے۔

8۔ جب  کوئی کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ ہو، تو اسے بیٹھ جانا چاہیے، اگر اس صورت میں بھی کنٹرول نہ ہو، تو لیٹ جانا چاہیے۔

غصہ پر قابو پانے کی فضیلت:

امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”سنن أبی داود “ کے باب ”مَنْ کَظَمَ غَیْظًا“ میں   مذکورہ صفت غضب پر کنٹرول رکھنے والے کی فضیلت سے  متعلق اللہ کے آخری جناب محمد   ﷺکی کچھ احادیث درج کی ہے جو مندرجہ ذیل سطورمیں مذکورہیں:۔

نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:

”مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللهُ يَومَ القِيَامَةِ عَلِى رُؤُوْسِ الْخَلَائِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ اللهُ مِنَ الْحُورِ مَاشَاءَ“. (سنن أبی داود،ح:4777)

ترجمہ:”جس نے غصہ پی لیا  اس حال میں کہ اسے نافذ کرنے پر قادر تھا، تو اللہ تعالى بروز قیامت   تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا،اور اختیار دےگاکہ وہ جس حور کوچاہے اپنے لیے  انتخاب کرلے“۔

اسی طرح نبی کریمﷺکا فرمان گرامی ہے:”مَاتَعُدُّونَ الصُّرْعَةَ فِيكُمْ؟“ قَالُوا: اَلَّذِي لَايَصْرَعُهُ الرِّجَالُ. قَالَ:”لَا، وَلَكِنَّهُ اَلَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ“.(سنن أبی داود،ح:4779)

ترجمہ: ”تم میں سے  پہلوان کسےشمار کروگے؟(نبی کریمﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سوال کیا)،تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:  جسے  کوئی بھی پچھاڑنہ پائے، نبی کریمﷺنے فرمایا:” نہیں بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے“۔

احادیث  بالا سے مستنبط مسائل:

1۔ نبوی روشنی میں غصہ پر قابو پانے کی بہت بڑی فضیلت ہے، وہ یہ کہ  بروز قیامت  تمام مخلوقات کے روبرو اللہ تعالی اس  کے تحمل مزاجی   کے بارے میں اعلان کرے گا، اور جنت میں موجود  حور عین کے انتخاب کا اختیار دے گا جو کہ بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے۔

2۔ اللہ کے نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرام کی ذہن سازی کے لیے   ان سے سوال کرتے تھے تاکہ بامراد باتیں ذہن ودماغ  میں راسخ ہوجائے۔

3۔ نبی کریم ﷺنے پہلوان اور طاقتور اس کوکہا ہے جو اپنے غصہ پر قابو رکھتا ہو۔

آخرمیں اللہ سے دست بدعا ہوں کہ  ہم لوگوں  کو قرآن وسنت کے انمول ارشادات کی اتباع کرنے کی توفیق ارزانی عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔