غم نہ کرو  اللہ ہمارے ساتھ ہے!

عالم نقوی

بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے لیکن اُسی وقت جب ہم صبر کرنے والوں میں سے ہوں، ظالموں، فاسقوں، منافقوں میں سے نہیں ! اگر اللہ کے نزدیک ہم مفسدین، مسرفین اور خائنین میں سے ہیں اور اگر ہم قرآن کریم کو مہجور بنا دینے والوں میں سے ہیں  تو ہم بنی اسرائل کی طرح  خواہ کتنی ہی  خوش فہمی اور خام خیالی میں کیوں نہ مبتلا   رہیں، اللہ جھوٹ بولنے والوں، ناپ تول میں کمی کرنے اور لین دین میں خیانت کرنے والوں، وعدہ خلافی کرنے اور اپنے عہد کی پابندی نہ کرنے والوں، صلہ رحمی کے بجائے قطع رحمی کرنے  والوں اور اپنے قول و فعل کے خلا ف عمل کرنے اور  اپنے علم پر  خود عمل نہ کرنے والوں کو ہر گز  دوست نہیں رکھتا !

مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے آفاقی دھارے میں ہمہ دم شامل رہنے کے بجائے جھوٹ، ظلم، فساد، کرپشن تلبیس حق و باطل  کے مختلف قومی اور بین ا لا قوامی دھاروں میں بہ رہے ہیں۔ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہوئے بغیر، اللہ کے آخری رسول کے اُسوہ حسنہ پر بلا چون و چرا  پوری طرح عمل کیے بغیر، اور ہدایت کے لیے قرآن کو حرف آخر  سمجھے بغیر اور دشمنوں سے  اپنے دفاع کے لیے   قرآنی اصول و ہدایات کی پوری پابندی کیے بغیر اگر ہم  بنی اسرائل کی طرح مختلف خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں تو علیم و خبیر  اللہ  بھی ہمارے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو اس نے بنی اسرائل کا مقدر کر رکھا ہے۔ ہم اللہ سے اس طرح نہیں ڈرتے جو ڈرنے کا حق ہے۔ نہ ہم اللہ  سے اس طرح محبت کرتے ہیں جو  اُس جیسے رحیم و کریم اور ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے  مہربان آقا اور پالنہار سے محبت کرنے کا حق ہے۔

اگر ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا جو اس نے بغیر کسی استحقاق کے ہمیں دے رکھی ہیں ہمہ وقت شکر نہیں ادا کرتے رہتے تو وہ کفران نعمت کرنے والوں کو ہر گز دوست نہیں رکھتا۔ ہم جو قرآن کے منع کیے جانے کے باوجود  اہل ایمان کے دائمی دشمنوں سے رشتہ ولایت استوار کرنے کی ہوڑ میں لگےرہتے ہیں اور اپنے اس کھلے ہوئے دشمن سے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے جو ہمیں فحشا اور منکر کا حکم دینے اور اللہ کے خلاف جہالت کی باتوں پر اکساتے رہنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتا  جس کے بہکانے میں آکر مفلسی کے خوف سے، ہم نے بھی نام نہاد فیملی پلاننگ پر عمل کو اپنا رکھا ہے جو از روئے قرآن قتل اولاد کے مترادف ہے تو ہمارے ساتھ دنیا میں وہ معاملہ کیوں کر ممکن ہے جو اللہ کے فرمانبردار بندوں کا حق ہے ؟  جس میں نہ ہو احتساب، موت ہے وہ زندگی ! حکمت مؤمن کی میراث ہے جہاں سے ملے حاصل کر لینا چاہیے اور غلبہ مؤمن کا حق ہے لیکن یہ حق  ایمان سے مشروط ہے۔ وہ ایمان جو کلمہ توحید و رسالت کے دلوں میں راسخ ہوجانے اور قرآن و اسوہ نبی ﷺ کے کردار میں ڈھل جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ ہم صرف مانگنے والے اور چیخنے چلانے والے بن کر رہ گئے ہیں۔ اپنی حیثیت، صلاحیت اور استطاعت  کے مطابق انفاق فی سبیل اللہ کرنے، بندگانِ خدا  کی بے لوث اور بلا تفریق خدمت کرنے کے فرائض ہم نے فراموش کر رکھے ہیں۔ جو باتیں ہمارے سمجھنے اور عمل کرنے کی تھیں اُن پر دوسرے  عمل کر رہے ہیں جو مسلمان بھی نہیں۔

ہرش مندر بھی انہی میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2002 میں گجرات قتل عام کے دوران  مودی حکومت کے احکامات پر آنکھ بند کر کے عمل کرنے کے بجائے  آئی اے ایس سے استعفیٰ دے دیا تھا(جبکہ کسی مسلمان افسر کو ایسا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی ) ۔ بعد میں انہوں نے گجرات ’پوگروم ‘پر ایک کتاب بھی لکھی اور ایک ایسی این جی او میں شامل ہو گئے جو نہ صرف گجرات ہولوکاسٹ کے شکار افراد کی باز آباد کاری کا کام کر رہی تھی بلکہ ان کی خدمات کا مرکز اور محور بلا تفریق ’مستضعفین ‘ تھے۔ دو سال قبل 2015  میں ’لُکِنگ اَوِے ‘ کے نام سے ان کی ایک کتاب آئی ہے جس کا موضوع بھارت میں سماجی نابرابری، تعصب اور غریبوں کے تئیں اہل اقتدار اور مالدارو ں کی عمومی بے حسی ہے۔ کتاب کے آخر میں ’’جن کے پاس کچھ نہیں ہے ہم ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں ‘‘ کے عنوان سے (ص ۳۵۳۔ ۳۵۶)وہ لکھتے ہیں کہ ’’ جان اسٹین بیک نے اپنی  مشہور کتاب ’’دی گریپس  آف رَیتھ‘‘(کھٹے انگور۔ 1939) میں لکھا ہے کہ’ اگر آپ واقعی کسی مصیبت میں پھنس گئے ہوں اور آپ کو مدد کی ضرورت ہو تو مفلس و نادار لوگوں سے رجوع کیجیے وہی اور صرف وہی ایسے حالات میں آپ کی مدد کے لیے آگے آئیں گے‘۔ مجھے اپنے منتخب کردہ کام یعنی بھوکے اور بے گھر لوگوں یا فرقہ وارانہ فسادات میں تباہ و برباد ہو جانے والے لوگوں کے درمیان کام  کرنے کے دوران بھارت کے سب سے زیادہ مفلس و نادار لوگوں کے بیچ وقت گزارنے کا فخر اور امتیاز حاصل ہے، اسی وجہ سے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جان اسٹین بیک کا مندرجہ بالا مقولہ صد فیصد درست ہے۔ ‘‘

اور قرآن کہہ رہا ہے کہ ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں کو لوگوں کا امام (پیشوا ) بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں ( و نُرِید ُاَن نَمُن َّ علی ا لذینَ ا ستُضعِفُوا فی ا لاَرض و نجعلھم اَئِمَّۃو َّنجعلھم ا لوارِثین۔ سورہ قصص آیت 5)‘‘

لِہٰذا ہم پھر اپنی بات دہرا رہے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے اِس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اَوَّل تو دِفاعِ ذات (سِلف ڈِفِنس) کے قرآنی اُصول (انفال 60) پر صد فی صد لفظاً اور معناً  عمل کریں اور پوری دنیا میں جہاں بھی ہیں مستضعفین فی ا لا رض  کی بے لاگ خدمت کو اپنا شعار بنا لیں۔ نہ صرف اُن کےوجود اور تحفظ کے  مسائل حل ہو جائیں گے بلکہ یہ  دنیا بھی جائے امان اور  رہنے قابل ہو جائے گی انشااللہ۔

تبصرے بند ہیں۔