غیبت ایک قبیح جرم

عبد الباری شفیق السلفی

قال اللہ تعالیٰ:

وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللّهَ إِنَّ اللّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ﴾ (حجرات: ۱۲)

اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کیاکرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

غیبت کسے کہتے ہیں :

اسکی تعریف کرتے ہوئے امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ :’’ آدمی کسی ایسی بات کا تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرتاہے خواہ اسکا تعلق اسکی شخصیت سے ہو یا اسکی ذات سے، دوست سے ہو یا مال واولاد سے، ماں باپ سے ہو یا زوجہ وخادمہ سے، حرکات وسکنات سے ہو یا خوشی وغمی سے، گفتگو سے ہو یا اشارہ وکنایہ سے غیبت ہی شمار ہوگی‘‘۔اسی طرح علامہ جرجانی ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ کسی انسان میں پائی جانے والی کسی برائی کا اسکی عدم موجودگی میں تذکرہ کرنا غیبت ہے‘‘۔

غیبت کی سب سے اہم اور جامع تعریف اور اسکی تشریح وتوضیح محسن انسانیت، خاتم النبین، رحمۃ للعالمین جناب محمد الرسول اللہ ﷺ نے بیان کی۔ ابو ہریرہ ؓ اس حدیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ ’’اتد رون ماالغیبۃ‘‘ اے صحابہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیاچیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اسکے رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ذکرک اخاک بما یکرہ‘‘تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس انداز میں کرو جو اسے نا پسند ہو۔ ایک صحابی رسول نے عرض کیا کہ ’’ اے اللہ کے رسول ﷺ اگر وہ بات اس میں موجود رہے تو پھر ؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے تب وہ غیبت ہے اور اگر وہ بات اس کے اندر موجود نہ ہوتب وہ بہتان ہے ‘‘۔( مسلم: کتاب : البر، باب تحریم الغیبۃ: ۶۵۹۳)

غیبت ایک ناجائز، قبیح اور حرام فعل ہے، جس کی قباحت و شناعت کتاب و سنت کے اندر واضح ہے،چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پر لعنت وملامت کی گئی ہے جوایک دوسرے کی غیبت اور چغلخوری کرتے ہیں ،اور ادھر کی بات ادھر پھیلا کریا ایک دوسرے کی راز کو فاش کرکے سماج میں فتنہ وفساد پھیلانے کا ذریعہ وسبب بنتے ہیں نیز آپسی دوستانہ و یارانہ تعلقات کو خراب کرتے نیز ایسا کرکے معاشرے کے اندر برائیوں ، بے حیائیوں اور فحاشیوں کو عروج دیتے ہیں۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’ غیبت زنا سے بھی سخت گناہ ہے‘‘۔ صحابۂ کرام نےعرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت گناہ کیسے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ایک شخص زنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اسے معاف کردیتا، لیکن غیبت کرنے والے شخص کو اس وقت تک معافی نہیں ملتی جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی غیبت کی گئی ہے‘‘۔ (بیہقی)

غیبت، قبیح اور ناجائز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معاشرتی و سماجی جرم بھی ہے، اس سے سماج میں مختلف قسم کے جرائم و برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ معاشرے کے اتحاد واتفاق کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، اور آپس میں نا اتفاقی ولاتعلقی پیدا ہوجاتی ہے جس سے معاشرے وسماج کا امن وامان غارت وبرباد ہوکر رہ جاتا ہے اور لوگ مختلف گروہوں وٹولیوں میں بٹ جاتے ہیں ۔آپسی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ یہ اتنا سنگین، گھناؤنا اور عظیم گناہ ہے کہ ایسا کرنے والے قیامت کے دن اپنے ناخنوں سے اپنے منہ اور سینے کو نوچ رہے ہوں گے،جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جس رات میں آسمان (معراج) پر گیا، اس رات میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے منہ اور سینے کو نوچ رہے تھے، میں نے حضرت جبرائیل ؈ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا یہ وہ لوگ ہیں جو ( دنیا میں ) لوگوں کا گوشت کھاتے تھے( یعنی غیبت کرتے تھے) اور ان کی عزت وعصمت کو پامال کرتے تھے۔ (ابوداؤد: کتاب الادب، باب : الغیبۃ: ۴۸۷۸)

 اسی طرح حضرت ماعز اسلمی ؄ کے اس واقعے میں جس میں آپ ﷺ نے صحابۂ کرام  کو مردار اور سڑے ہوئے گدھے کا گوشت کھانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ’’ جس طرح تم نے اپنے بھائی کی عزت کو پامال کیا ہے وہ اس مردار کھانے سے بھی برا ہے۔ (ابوداؤد)

 اس حدیث مبارکہ میں ’’ظن‘‘ یعنی بد گمانی اور جاسوسی یعنی ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنا کہ ایک مسلمان کی کوئی کمی، خامی، یا عیب معلوم ہوجائے تاکہ اسے سر عام بدنام کیا جائے۔ یہ وہ گھناؤنا جرم ہے جس سے شریعت نے روکا ہے نیز کتاب وسنت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر تمہیں اپنے کسی بھائی کی کوئی کمی، کوتاہی، یا راز معلوم ہوجائے تو اسکی پردہ پوشی کرواور اس کے عیب کو بیان کرکے بھری محفل میں بدنام کرنے سے اجتناب کرواور اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کرےگا تو کل قیامت کے دن اللہ تعالی اس کے عیب اور گناہوں کی پردہ پوشی کرےگا۔ اس لیے ہمیں بدگمانی اور تجسس وغیرہ سے بچتے ہوئےاپنی فکر کرنی چاہئے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح اللہ نے آگے فرمایا کہ ﴿وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا﴾  تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ ﴿أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا﴾ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ ﴿فَكَرِهْتُمُوهُ﴾پس تم کو اس سے گھن آئے گی ﴿ وَاتَّقُوا اللّهَ إِنَّ اللّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ﴾اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

قارئین !یہ آیت مبارکہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انسان کی غیبت وبرائی کرنے سے مرے اور سڑے ہوئے گدھے کا گوشت کھانا بہتر ہے۔ لیکن افسوس کہ ان سخت وعید وپھٹکار اور واضح دلائل وبراہین کے باوجود بھی آج ہمارے معاشرے وسماج میں یہ برائیاں عام ہیں ، آج ہمارا معاشرہ وسماج اس دلدل میں اس قدر پھنس چکا ہے کہ ہر دوکان و چوراہے اور نکڑ پر آپ کوایسے دو چار افراد ضرور مل جائیں گےجوایک دوسرے کی برائی، غیبت وچغلخوری کررہے ہوں گے۔حالانکہ یہ اتنا سنگین جرم ہے کہ اگر اسے سمندر کے اندر ڈال دیا جائے تو سمندر کا پانی کڑوا اور بدبو دار ہوجائے گا اس کی مثال وہ حدیث رسول ہے کہ جب ام المومنین عائشہ صدیقہ ؅ نے ام المومنین حضرت حفصہ ؅ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کے سامنے یہ کہہ دیاکہ وہ ( حفصہ ؅) ایسی اور ایسی عورت ہے، ( یعنی چھوٹے قد والی ہیں )۔ چنانچہ آپ ﷺنے ام المومنین عائشہ صدیقہ عائشہ ؅ کو زجروتوبیخ اور اصلاح کرتے ہوئےارشاد فرمایا کہ اے عائشہ ؅! :’’ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر میں ڈال دیا جائے تو اسے بھی کڑوا کردے‘‘۔ (ابوداؤد: کتاب الادب، باب:الغیبۃ، وقال ترمذی حدیث حسن صحیح)

 غیبت و چغلخوری کا فعل چونکہ زبان سے ہوتا ہے اس لیے نبی کریم ﷺ نے انسان کو اپنے زبان کی حفاظت کرنے کاحکم دیا اور انہیں اپنے زبان کی حفاظت پر جنت کی بشارت دی اور اس کے غلط استعمال سے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ایسے مسلمان کو اچھا، سچا اور افضل کہا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ (بخاری : کتاب الایمان، باب : ای الاسلام افضل: ۱۰) نیز دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مجھے دو جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان )کی اور دو پیروں کے درمیان کی چیز ( شرمگاہ) کی حفاظت کی ضمانت دے دے تو میں اسے جنت کی بشارت ( ضمانت) دیتا ہوں ۔ (بخاری : کتاب الرقاق، باب: حفظ اللسان:۱۳۹۶)

زبان چونکہ ہمارے اعضاء وجسم کا ایک اہم عضو ء ہے جس کے اچھے اور مناسب استعمال سے انسان ترقی، ادب واحترام، قدر ومنزلت اور جنت کے راستے کو ہموار کرسکتا ہے اور اس کے برے وغلط استعمال سے اپنا وقار مجروح اور اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا سکتا ہے اس لیے کہ زبان ہی سے سب سے زیادہ اچھائیوں و برائیوں کا صدور ہوتا ہے، اسی زبان سے انسان بھلائیوں کا حکم دیتا ہے۔ برائیوں وبے حیائیوں کی طرف لوگوں کو راغب اور دوسروں کی غیبت وچغلخوری کرتاہے، اس لیے ہمیں اپنے زبان شرمگاہ کی حفاظت کرنی چاہیےاور غیبت وچغلخوری جیسے قبیح اور عظیم جرم سے اپنے دامن کو محفوظ رکھنا چاہیئے۔

 رب العالمین ہمیں اپنے زبان کا صحیح استعمال کرنے اور غیبت وچغلخوری کرنے سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔