غیرت کے جنازے کا دن: ویلنٹائن ڈے

شہاب مرزا

اسلام نے وحدانیت آزادی مساوات کا جو تصور دیا ہے وہ اپنے ماننے والوں کو غلامی پر راضی نہیں ہونے دینا لیکن رفتہ رفتہ مسلمانوں کا ایک طبقہ غیر اسلامی طاقتوں کی زد میں ہیں وہ طبقہ ہماری قوم کا سرمایہ نوجوان طبقہ ہے جس کے نتیجے میں آج باطل طاقتیں خوش اور ہم شرمندہ ہیں۔ چاہے لڑکے ہو یا لڑکیاں دونوں  ہماری قوم کا بہترین سرمایہ ہے جس کی کوئی قیمت متعین نہیں کی جاسکتی۔ اگر یہی طبقہ غیر اسلامی حرکتیں انجام دیں اور اپنی حرکتوں سے قوم کو ذلیل اور رسوا کرینگے تو انقلاب کا انتظار کرنا فضول ہے۔ ان کی حرکتیں اسلامی معاشرے کی اصلاحی تحریکوں کے کام کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھنے کے برابر ہیں۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد تنقی دکرنا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں جن فتنوں نے جنم لیا ہے اور ہم نے جسے اپنایا ہے کیا یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔ ہمارا معاشرہ روز بروز مغربی تہذیب سے متاثر ہوتا جارہا ہے مغرب کی حیاء سوز غیر اخلاقی حرکات کو اختیار کرنا ہم نے اہم فریضہ سمجھ لیا ہے مغربی تہذیب نے بہت سے بے ہودہ رسم ورواج کو نجم دیا جن میں ایک ویلنٹائن ڈے کے نام سے مشہور ہے۔ اس فتنے نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اس کا اصل رواج مسلمانو ںمیں ریکھنے کو مل رہا ہے۔

 ایک بات یہ بھی بتادوں کہ چلو عاشق اور معشوقہ کے دن کو ویلنٹائن ڈے کا نام دیاگیا ہے درحقیقت ویلنٹائن ڈے ناجائز رشتوں اور ناجائز اولاد کو معاشرے میں بڑھاوادینے کا دن ہیں پھر مسلمان اس بے حیائی کے دن خوشیاں کیسے  مناسکتے ہیں۔ اصل میں ہمارے معاشرے کا لمیہ یہ ہے کہ موجودہ دورجن چیزوں کو پسند کرتا ہے ہمارا معاشرہ خود بخود اسے پسند کرنے لگتے ہیں اور آج بے حیائی بے پردگی بے راہ روی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسکے ایک اشارے پرحیادار گھرانوں سے حیاء غائب ہوجاتی ہے مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لڑکیا ںہی غلط ہیں مسئلہ یہ ہے کہ قوم کی نکیل مغرب زدہ ہوگئی ہے اور والدین کی بے حسی کی وجہ سے نسل نو کے حوصلہ بلند ہیں حد درجہ بھروسہ آپ کے نونہال کب آپ کی عزت کای جنازہ نکال لیں ا سکا بھروسہ نہیں بچوں کی خواہشات کو پورا کیجئے ضرورپورا کیجئے مگر ایک حد میں رہ کر ا سچیز کا احساس دلاکر آپ اس کے سکون کی خاطر وہ پھل کس طرح پروان چڑھ رہا ہے مغرب زدہ معاشرے کے حوالے ہم ہی کررہے ہیں۔ وہ بھی لاپرواہی کی وجہ سے یاد رہے کہ ماحول کی طاقت مصلحین کے دلوں میں جگہ حاصل کرنے کا موقع تلاش کرتی ہیں اور ذہنی مصالحت کی راہ نکال لیتی ہے ماحول اس نسل کو نہ سہی اگلی نسل کی تباہی کا انتظام کرلیتا ہے ایک طرف جہاں  مغرب زدہ قوموں نے ترقی کے نام پر عریانیت فحاشی اور ننگے پن کوترقی کا نام دیا ہے۔اس سے رفتہ رفتہ نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں اور ان فتنوں کو ہماری نسل نو نعمت عظمی سمجھ کر استعمال کررہی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے خاندانی نظام کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اسلامی تہذیب سے لاتعقلی حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات سے بیگانگی شریعت سے بیزارگی یہودیت سے اپنائیت بے حیائی بے پردگی کا عام ہونا انٹرکاسٹ میرج لیو ان ریلشن شپ دوستی کے نام پر غیر محرم سے شناسائی شادی سے قبل بے نام رشتے میں رہنا یہ سب ثبت ہے کہ مشرقی تہذیب کو دفن کرکے مغربی تہذیب نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑدئے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم میں مفتوح قوموں کی بستیوں کے مکان پر ایک عدد سائن بورڈ ہوا کرتا تھا جس پر ایک عبارت لکھی ہوتی تھی ایک عدد مرد کی ضرورت ہے رات گزارنے کے  لئے اب وہ دن دور نہیں ہے کہ اس طرح کے سائن بورڈ ہمیں بھی دیکھنے ملیں گے۔ اب دو دن بعد ۱۴ فروری کو نجانے کتنے مغربی تہذیب کے دیوانے ویلنٹائن ڈے منانے کے لئے اسلامی شعار شرم وحیاء کے برخلاف خود کو ماڈرن ثابت کرنے کی کوشش کرینگے۔ اس دن سرخ گلاب سرخ ریپر میں گفٹس چاکلیٹ شراب کا کاروبار اور مہنگی ہوٹلوں کا رخ صرف جسمو ںکی ہوست کو محبت میں سمجھنے والے یہ نادان محبت کے دن کو ویلنٹائن ڈے کہتے ہیں۔ عمومی طور پرایسے بے ہودہ مغربی رواجوں پر اعتراض کرنے والو ںسے کہاجاتا ہے کہ بھئی آپ کو کیا اعتراض ہے اگ رایک لڑکا ایک لڑکی کو پھول پیش کررہا ہے محبت کا اظہار کررہا ہے تو ؟

چاہے دلیل جو مرضی ہو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تہوار کے حق میں بولنے والے کیا یہ برداشت کریں گے کہ ان کی بہ بیٹیو ںکو کوئی سر بازار گلاب دیں او رمحبت کا اظہار کریں ان کی زندگیوں کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیں کوئی مسئلہ نہیں۔ دلیل موجود ہے مگرہوتا اس کے برخلاف ہے جب اپنی بہن بیٹی کی بات آتی ہے تو غیرت جاگ اٹھتی ہے ہاں اگرچہ یہاں ایک محدود طبقہ ایسا ضرور ہے جن پر مغربی تہذیب کی بے شرمی کا رنگ اس قدر خوب چڑھ چکا ہے کہ ان کے لئے عزت غیرت اپنے معنی کھوچکی ہے اس تہوار کو منانے والے اپنے لئے وہ پسند نہیں کرینگے جو دوسروں کی بہن بیٹیوں کے لئے کرینگے۔بہر کیف۔ جس مذہب نے عورت کی آواز تک کو پردہ دیا ہے نگاہوں کو نیچے رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا پھر اللہ عزو جل اور ا سکے رسول پاک محمدﷺ کے فیصلے  کے بعد کسی مسلمان مرد وعورت کے لئے اختیار باقی نہیں رہ جاتا اس کا واضح اعلان فرمادیاگیا تو کیا مسلمانو ںکو ان احکامات کے آگے سرتسلیم خم نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مسلمان ویلنٹائن ڈے کے نام پر ان احکامات کی اعلانیہ کھلم کھلا کافروں کی تقلید میں خلاف وزیادتیاں کرتے ہیں۔محبت کے نام پر تعیش پسندی مالدار والدین کی لاپرواہ اور بگڑی ہوئی اولادوں کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ عشق معشوق کے نام پر غیروں سے دل جوئی شناسائی پھر مذہبی تعلیمات سے بغاوت اور پھر لو میرج یا انٹر کاسٹ میرج!

ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ انٹر کاسٹ میرج کو قانونی حیثیت حاصل ہیں اس لئے وقت رہتے اصلاح کریںوقت گزرنے کے بعد صرف ماتم ہی کیاجاسکتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین وقت کے ساتھ نوٹ لیں کیونکہ بچ وہی سیکھتے ہیں جو والدین سکھاتے ہیں۔ اگر والدین وقت پر صیح اصلاح کرتے رہیں تو بعد میں رونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آئین ہند کی دفعہ ۱۹؍یعنی Freedom of Rightان بے حس والدین کے منہ پت طماچہ ہے جو وقت پر صحیح تربیت نہ دے کر اپنے بچوں کو گرل فرینڈ بوائے فرینڈ شپ ڈے چاکلیٹ ڈے ویلنٹائن ڈے کے حوالے کررہے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ایسے مغربی تہواروں کی کھلے عام مذمت بھی کریں اور اپنے معاشرے کو بے ہودگی سے پاک رکھنے کا لائنحہ عمل بھی تیار کریں۔ اللہ تعالیٰ نوجوان نسل کو عقل شعور دے سمجھ دے اور احکام شریعت کی اتباع میں زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔