غیرمسلموں کے لیے ہدایت کی دعا کرنا

ذکی الرحمن فلاحی مدنی

        دینِ رحمت اپنے متبعین مسلمانوں میں جو مزاج تشکیل دینا چاہتا ہے وہ دعوتی نوعیت کا ہے۔ پوری امتِ مسلمہ کو خیرِ امت کا لقب اسی بنیاد پر دیا گیا تھا کہ وہ دینِ اسلام کی ترویج واشاعت کا کام اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے انجام دے گی۔ وہ غیرمسلم اقوام وافراد کو عدو نہیں، مدعو خیال کریں گے، انہیں رحمتِ خداوندی سے دوری وملعونیت سے نکال کر اسلام کے سائے میں لائیں گے اور اپنی طرح انہیں بھی دنیا وآخرت میں رحمت وحقیقی کامیابی کا حقدار بنائیں گے۔ اگر واقعی میں اسلام اپنے پیروکاروں میں یہی مزاج تشکیل دینا چاہتا ہے تو یقینا اس کا اظہار ہمارے قول وعمل میں بھی ہونا چاہیے۔ انسانیت کے لیے ہمدردی ومحبت کا ایک مظہر ہماری دعائیں بھی ہیں جو ہم بارگاہِ رب میں درخواستوں کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری دعائوں میں راہِ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت اور توفیقِ اسلام کی دعائوں کا تناسب زیادہ ہوتا جو کہ عین دینِ دعوت کے مزاج کے موافق ہے، یا ان میں دوسروں پر لعنتیں بھیجنے، ان کی بربادی وتباہی کی بددعائیں کرنے کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے جو ہمارے معاشروں میں جتنا چاہے عام اور معمول بہ کیوں نہ ہو، بہرحال دینِ رحمت ودعوت کے مزاج کے برخلاف واقع ہوا ہے۔ آئندہ سطور کا پیشگی خلاصہ یہی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی سیرت میں ہمیں اول الذکر مزاج کی مکمل کارفرمائی نظر آتی ہے اور یہی ہمارا وطیرہ بھی ہونا چاہیے کہ بجائے غیر مسلموں کی تباہی وبربادی کی دعائیں مانگنے کے، ہم ان کے لیے ہدایت وتوفیق کی دعائیں مانگیں۔ یہی اسلامی مزاج ہے، انسانی ہمدردی واخوت کا اظہار ہے اور سب سے بڑھ کر رحمۃ للعالمین نبیِ اکرمﷺ کی سنت وسیرت کی اقتدا ہے۔ وباللہ التوفیق۔

         حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ گویا میں نبی اکرمﷺکو دیکھ رہاہوں کہ وہ نبیوں میں سے کسی نبی کا واقعہ بیان کررہے ہیں جس کو اس کی قوم نے اتنا مارا تھا کہ لہولہان کردیا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ اے اللہ!میری قوم کی مغفرت فرما کیونکہ وہ حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔‘‘ (صحیح بخاریؒ: 4377، 6929۔ صحیح مسلمؒ: 1792) علامہ ابن حجرؒ لکھتے ہیں : میری واقفیت میں اِس نبی کے نام کی صراحت کسی روایت میں نہیں ملتی، تاہم احتمال اس کا ہے کہ یہاں مراد حضرت نوحؑ ہوں کیونکہ ابن اسحاقؒ نے ’’مبتدا‘‘ میں اور ابن ابی حاتمؒ نے سورہ شعراء کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ قومِ نوحؑ کا یہ طرزِ عمل تھا کہ وہ حضرت نوحؑ کو زود وکوب کرتے تھے اور اس حد تک گلا گھونٹتے تھے کہ آپ ؑ پر غشی طاری ہوجاتی تھی۔ اس کے بعد بھی آپ ؑ کا حال یہ تھا کہ جب افاقہ ہوتا تو فرماتے تھے: اے اللہ!میری قوم کی مغفرت فرما کیونکہ یہ تجھے جانتے نہیں ہیں۔‘‘ (تفسیر ابن حاتمؒ: 8660) اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ یہ آنجنابؑ کی نبوت کے ابتدائی عرصہ کا واقعہ ہوگا، کیونکہ بعد میں جب وہ اپنی قوم سے مایوس ہوگئے تھے تو انہوں نے اپنی قوم پر بددعا کی تھی۔ ارشادِ باری ہے:(نوح، 26) ’’اور نوح نے کہا: میرے رب ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تونے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا۔‘‘ (دیکھیں فتح الباری: 6/521)

         حضرت ابن مسعودؓ ہی سے دوسری روایت میں مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے مقامِ ’’جعرانہ‘‘ میں غزوۂ حنین کا مالِ غنیمت تقسیم فرمایاتھا۔ لوگوں نے آپﷺ کے پاس بھیڑ اکٹھا کر لی تو اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: بندگانِ خدا میں سے ایک بندے کوا للہ تعالیٰ نے اُس کی قوم کی جانب مبعوث فرمایا تو قوم نے اس کی تکذیب کی اور اسے لہولہان کردیا۔ وہ اپنی پیشانی سے خون پونچھتا جاتا تھا اور کہتا تھا: اے میرے رب!میری قوم کی مغفرت فرما کیونکہ وہ حقیقت نہیں جانتے۔‘‘ حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں : گویا کہ میں اللہ کے رسولﷺکودیکھ رہا ہوں کہ اس نبی کی نقل کرتے ہوئے خود بھی اپنی پیشانی صاف کررہے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاریؒ: 4377، 6929۔ صحیح مسلمؒ: 1792۔ صحیح ابن حبانؒ: 6576۔ مسند احمدؒ: 3611، 4107، 4057، 4331، 4366)

        حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں : یقینا اللہ کے رسولﷺنے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ!ابوجہل اور عمرؓبن خطاب دونوں میں سے جوتجھے زیادہ محبوب ہو اُس کے ذریعہ سے اسلام کو عزت وقوت عطافرما۔ عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کو زیادہ محبوب حضرت عمرؓ ہوئے۔ ‘‘(مسنداحمدؒ: 5696۔ طبقات ابن سعدؒ: 3/267۔ سنن ترمذیؒ: 3681۔ مسند بزارؒ: 5862۔ معجم اوسط، طبرانیؒ: 4752۔ تاریخ دمشقؒ: 44/25۔ تصحیح البانیؒ فی المشکاۃ: 6036)

        ایک مسلمان کی نظر میں اُس کا دین نہایت درجہ عظیم نعمت ہے جو اللہ کے فضل وکرم سے اُسے میسر آئی ہے۔ اس نعمت کی شکرگزاری کافطری ودینی تقاضا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے بشری بھائیوں کو بھی اس نعمت سے بہراور کرایاجائے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہونی چاہیے کہ وہ غیرمسلم بھائیوں کو اسلام اور دیگر دینی افضال وکمالات سے ہم کنار کرائے جو اُس کی اپنی ذات کی طرح ساری انسانیت کے لیے خیر وسعادت کا مصدرہیں۔ اس لیے شریعت کی نگاہ میں غیر مسلم دینی بھائیوں کے لیے دعائے ہدایت کرنا یک گونہ استحباب کاعمل ہے۔ (الفواکہ الدوانی علی رسالۃ ابی زید القیروانیؒ: 2/292) قبولِ اسلام کے علاوہ بھی کسی غیر مسلم کے لیے ایسی دعا مانگنا جائز ہے جس میں اُس کے دنیاوی مصالح تکمیل پاتے ہوں اور نتیجہ میں اسلام اور اہلِ اسلام پر کوئی ضرر مرتب نہیں ہوتا ہو۔ دعا جس غیرمسلم کے لیے مانگی جائے اس کابقید ِ حیات ہونا ضروری ہے، جیسا کہ علمائے کرام کی صراحت سے ثابت ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات اپنے آپ نکلتی ہے کہ غیر مسلموں کے مرنے کے بعد ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعائیں کرنا کسی طور جائز نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم حربیؒ کہتے ہیں : امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی مسلمان کسی عیسائی سے کہتا ہے کہ اللہ تمہارا اقبال بلند کرے یا تمہیں مکرم ومعظم بنائے (یعنی کوئی ایسا لفظ استعمال کرتا ہے جس سے اس کی عظمت واکرام کا پہلو نکلتا ہے۔ ہمارے ملک میں لگائے جانے والے ’’زندہ باد‘‘ یا ’’جے ہو‘‘ کے نعرے بھی اسی قبیل میں آنے چاہئیں، واللہ اعلم) تو کیا ایسا کہنا جائز ہے؟آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن مسلمان کو چاہیے کہ ان تمام اعزازی وتکریمی کلمات میں نیت اس مفہوم کی رکھے کہ اللہ تمہیں اسلام لانے کی توفیق دے کر مکرم ومعزز بنائے۔‘‘ (الآداب الشرعیۃ: 1/391)

        حضرت ابوبکر ابن العربیؒ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث کی تشریح میں کہتے ہیں : اس حدیث کے الفاظ میں احتمال ہے کہ وہ نبی جن کا تذکرہ آیا ہے، اپنی قوم کے حق میں مغفرت کے طالب ہوتے تھے کیونکہ ان کی شیطان صفت قوم ان کی دعا کے وقت تک بقید ِ حیات تھی اورمستقبل میں ان کے ایمان لانے کی امید کی جاسکتی تھی۔ مزید برآں اِس قسم کے طرزِ عمل کے ذریعہ سے مخالفین کی تالیف ِ قلب کی جاتی ہے، حسنِ گفتار سے متاثر کیا جاتا ہے اور اُن کی زیادتیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، خاموش دعوت وترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ایسا بلند کردار تشکیل دینے والے دین میں داخل ہوجائیں۔‘‘ (احکام القرآن: 4/442) امام نوویؒ فرماتے ہیں : جان لیجئے کہ غیر مسلموں کے لیے اخروی مغفرت ورحمت یا ان سے مشابہ دعائیں جو کفار کے لیے نہیں کی جاسکتیں، کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ یہ جائز ہے کہ ان کے لیے ہدایت وانابت کی دعا کی جائے نیز صحت وعافیت اور اس کے مشابہ دنیاوی امور کی دعا کی جائے۔‘‘ (الأذکار: ص251) امام نوویؒ سے ملتا جلتا قول ہی امام رملیؒ اور علامہ ابن حجرہیثمیؒ کا بھی ہے۔ (نھایۃ المحتاج فی شرح المنھاج، رملیؒ: 1/533۔ تحفۃ المحتاج فی شرح المنھاج، ابن حجر ہیثمیؒ: 2/88)

        ام المومنین حضرت عائشہؓفرماتی ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺسے پوچھا کہ کیا معرکۂ اُحُد کے دن سے زیادہ سخت کوئی دن آپﷺ پر گزرا ہے؟آپﷺ نے فرمایا: مجھے تمہاری قوم کی طرف سے جو ملا ہے سو ملا ہے لیکن سب سے شدید تر دن جو میں نے اُن سے پایا وہ وادیِ عقبہ کا دن تھا (حج میں شیطان کو کنکری مارے جانے والے تین ستونوں میں سے ایک ستون اسی ’’عقبہ‘‘ وادی کی طرف منسوب ہے جس کو جمرۃ العقبہ کہا جاتا ہے) میں نے اُس دن اپنی جان کو ’’عبدیالیل بن عبدکلال‘‘ کے سامنے پیش کیا تھا لیکن اُس نے میری دعوت قبول نہیں کی۔ (یہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں سفرِطائف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپﷺ نے یہ سفر حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد سن 10 نبوی میں یعنی ہجرت سے تین سال پہلے فرمایا تھا۔ مغازی میں موسی بن عقبہؒ نے امام زہریؒ کا قول نقل کیا ہے کہ جب ابوطالب کی وفات ہوگئی تو آپﷺ نے طائف کے سفر کاارادہ کیا۔ آپﷺ کو امید تھی کہ اعیانِ طائف آپ کی دعوت قبول کریں گے اور مدد کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ آپﷺ ساداتِ طائف بنوثقیف کے تین سرداربھائیوں کے پاس تشریف لے گئے جن کے نام عبدیالیل، حبیب اور مسعودتھے اور جو عمرو کے بیٹے تھے۔ آپﷺنے ان تینوں سرداروں کے سامنے اپنی دعوت رکھی اور اپنی قوم قریش کی زیادتیوں کا تذکرہ کیا، لیکن اِن سبھی نے آپﷺ کے ساتھ اہانت آمیز معاملہ کیا اور بدتہذیبی کے انداز میں انکار کردیا۔ دیکھیں : عمدۃ القاری: 15/142) میں شدید رنج والم کی حالت میں وہاں سے چل دیا اور ’’قرن الثعالب‘‘ (قرن الثعالب علاقۂ نجد سے حج وعمرہ کرنے والوں کی میقات ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس کو ’’قرن المنازل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ فی الوقت سعودی حکومت میں یہ ’’السیل الکبیر‘‘ کے نام سے معروف ہے) مقام پر پہنچنے کے بعد ہی مجھے ہوش آیا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک بادل مجھے سایہ کیے ہوئے ہے، میں نے دیکھا کہ جبریل مجھے پکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں : اللہ تعالی نے سب سن لیا ہے کہ تم نے اپنی قوم سے کیا کہا اور انہوں نے تمہیں کیا جواب دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ پہاڑوں کا فرشتہ آپﷺ کے پاس بھیجا ہے تا کہ آپ جو چاہیں اس کے ذریعہ سے قوم کو سزا دلوائیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی اور کہا: اے محمدؐ، اب سب آپ کی مشیت پر ہے، چاہیں تو میں دونوں ’’اخشبین‘‘ نامی پہاڑوں کوان پر ملادوں۔ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی صلب سے ایسی نسل پیدا فرمائے گا جو خدائے واحد کی پرستار ہوگی اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرے گی۔‘‘ (صحیح بخاریؒ: 3231۔ صحیح مسلمؒ: 1795۔ صحیح ابن حبانؒ: 6561۔ معجم اوسط، طبرانیؒ: 8902)

        اس حدیث سے بھی چند باتیں مزید معلوم ہوتی ہیں :

        1) مشرکینِ مکہ وطائف کے ساتھ آپﷺ کا تعامل عفو واحسان کا تھا، انتقام اور دشمنی کا نہیں تھا، جیسا کہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں : اس حدیث میں وضاحت ملتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اپنی قوم کے لیے کس درجہ شفیق ورحیم تھے، اوراُن کی اذیتوں اورنادانیوں پر کس قدر صبر وتحمل فرماتے تھے۔ حدیث میں موجود آپﷺ کا تعامل بالکلیہ میل کھاتا ہے اُن اوصاف سے جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺکے بارے میں ذکر فرمائے ہیں : (آلِ عمران، 159) ’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔‘‘ (انبیاء، 107) ’’اے محمدؐ ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘ (فتح الباری: 6/316)

        2) حدیث میں دلیل ملتی ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ عفوودرگزرکا رویہ اختیار کرکے اُن کی تالیف ِ قلبی جائز ہے، کیونکہ غیرمسلم مشرکین ومنافقین سے انتقام وقصاص لینے سے زیادہ راجح ووزن دارمصلحت یہ ہے کہ اُن کے دلوں کواسلام سے مربوط کردیا جائے، انتقام وانتصار اور جنگ وقتال سے حاصل ہونے والے فوائد ومنافع سے زیادہ عظیم منفعت اُن کے قلوب کی تالیف کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے رسولﷺ کو سراپارحمت بنا کر بھیجا تھا نہ کہ مجسم صاعقۂ عذاب۔ داد دہش کے ذریعہ تالیف ِ قلب کے بالمقابل عفو ودرگزر کرنا آسان ہوتا ہے، ہر ایک کے بس میں بھی ہوتا ہے اور اس کے اثرات زیادہ دوررس ہوتے ہیں۔ اسی لیے کسی بھی زمانے میں داعیانِ اسلام کے مزاج میں عفوودرگزر کاعنصر ہمیشہ پایا گیا ہے جس کی دلیل اس کی عظیم منفعت اورشدتِ احتیاج کے پہلو بہ پہلو سیرتِ رسولﷺ کے مکی ومدنی دورمیں اس کی بکثرت مثالوں کا پایاجانا ہے۔ آپﷺ کاغالب طرزِ عمل یہی تھا کہ مخاطب مشرکین وکفار کے قلوب کی تالیف کی جائے۔ سیرت کے تمام واقعات کا مطالعہ کرجائیے، آپ دیکھیں گے کہ اللہ کے رسولﷺنے جہاں بھی عفوودرگزرسے کام لیا ہے وہاں تالیف ِ قلب کی مصلحت کا بڑا حصہ پیشِ نظر رہا تھا۔

        3) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺکو بندگانِ خدا کی ہدایت یابی اور حصولِ خیروعافیت کس درجہ عزیز تھا۔ آپﷺ نے ہمیشہ امید کا دامن پکڑتے ہوئے مخالفین کے ایمان لانے کی شدید خواہش باقی رکھی اور توبہ وانابت کی امید قائم رکھی۔ مزید برآں خود اللہ تعالیٰ نے بھی آپﷺ کو مشرکین کی دشنام طرازیوں اور بدزبانیوں پر صبر کی تلقین فرمائی ہے۔ ارشادِ باری ہے: (مزمل، 10) ’’اورجوباتیں لوگ بنارہے ہیں اُن پر صبرکرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہوجائو۔‘‘ اس آیت میں الگ ہونے سے مراد ہے کہ جہاں حکمت ومصلحت کا تقاضا ہو تو اس طرح علیحدگی اختیار کرو کہ سامنے والے کی دل شکنی نہ ہو، ان سے الگ ہوجائو یعنی اُن کے اذیت رساں اقوال سے اعراض برتو اور جدال کرو تو احسن طریقہ سے کرو۔‘‘ (تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان، عبدالرحمن سعدیؒ: 1/892) آیت ِ کریمہ میں آپ کو ’’ہجرِ جمیل‘‘ کا حکم دیا گیا ہے، بالفاظِ دیگر یہ ایسا الگ ہونا چاہیے جس میں کسی قسم کی غضبناکی اور مخاصمت یا توبیخ وعتاب کا پہلو نہیں پایا جائے، بلکہ اس طرح کے الگ ہونے میں واپس لوٹنے کی رغبت شامل ہوتی ہے، مہجورین کی خیر خواہی، نجات وسعادت مطلوب ہوتی ہے اور ان کے اللہ کے نیک بندوں میں شمار ہوجانے کی تمنا ہوتی ہے۔‘‘ (معارج التفکر ودقائق التدبر، عبدالرحمن حبنکہ المیدانیؒ: 1/174) قرآنِ کریم میں ہمیں اس معنی ومفہوم کی تکرار ونظیر بھی ملتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: (ممتحنہ، 7-8) ’’بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور ورحیم ہے۔ اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کروجنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔