غیر کیوں نہ ہو حالت تشنگی زیادہ ہے

افتخار راغبؔ

غیر کیوں نہ ہو حالت تشنگی زیادہ ہے

دید کی ملے شربت تشنگی زیادہ ہے

خشک ہیں زبان و لب جاں نکل نہ جائے اب

کچھ تو کیجیے زحمت تشنگی زیادہ ہے

موت بھی دے دستک تو ہم زباں نہ کھولیں گے

بادلوں سے کہنا مت تشنگی زیادہ ہے

تم نے خود بتایا تھا "آب سا ہے دل میرا”

اور کیا ہو اب چاہت تشنگی زیادہ ہے

ہلکی پیاس پر میں نے آب کی دعا مانگی

اب ٹپک رہی ہے چھت تشنگی زیادہ ہے

چاہتا تھا میرا جی تشنگی ہو تھوڑی سی

کھُل گئی مری قسمت تشنگی زیادہ ہے

زیست میں ہے اب راغبؔ ایسا ہجر کا سیلاب

آب آب ہے رغبت تشنگی زیادہ ہے

تبصرے بند ہیں۔