فارغین مدارس دینیہ خود کفیل کیسے بنیں؟

 مسعود جاوید

گزشتہ سے پیوستہ  

کل 31/7/2018 کو آ پ نے  مدارس اسلامیہ کے نظام اور نصاب سے متعلق میری تحریر ملاحظہ کیا تها جس میں نصاب میں رد و بدل کی ضرورت پر زور دیا گیا تها اور اس کا فائدہ میں نے یہ لکها تها کہ اس سے دینی مدارس کے طلباء عالم بننے کے ساتھ ساتھ نہ صرف  اچها ذمہ دار شہری بنیں گے بلکہ ان کو خود کفیل بننے کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔ آج دینی مدارس جس قدر بدنظمی فوضى anarchy کا شکار ہیں  شاید ہی کوئی اور تنظیم یا ادارہ ہو۔۔۔ اور اس کی وجہ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ مدارس کے بیشتر فارغین اپنے آپ کو جب کسی ملازمت کے لئے  اہل نہیں پاتے ہیں تو  ذریعہ معاش کا سب سے آسان کام انہیں یہی نظر آتا ہے کہ مدرسہ کهول کر بیٹھ جائیں۔۔ ۔۔ آسان اس لئے ہے کیونکہ اس کے لئے وہ خود مختار ہوتے ہیں نہ کسی مدرسہ سے الحاق کی اور نہ کسی قسم کا لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ وہ کسی کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ ۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ بعض لوگوں نے  اس کو مکمل تجارت بنا دیا ہے اور وہ تمام تجارتی ہتھکنڈے اور چپقلش ان کے یہاں نظر آتے ہیں۔

جس طرح دو پارٹنر میں جب اختلاف ہوتا ہے تو دکان یا فرم کو بانٹ لیتے ہیں نام وہی رکھتے ہیں مگر رجسٹریشن کی مجبوری ہوتی ہے اس لئے اس وقت نام میں ترمیم کرلیتے ہیں مثلاً پہلے سے جنتا میڈیکل اسٹور ہے تو دوسرے کا نام نیو جنتا میڈیکل اسٹور رکھ لیا مگر لوگوں کو دهوکہ دینے کی غرض سے سائن بورڈ کے ایک کونہ میں بہت ہی چهوٹے حروف سے ” نیو” لکھاتے ہیں تاکہ نیو پر کسی کی نظر نہ پڑے اور جنتا سمجھ کر لوگ اس دکان میں آجائیں۔۔ ۔ بہت افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ یہی غیر اخلاقی کام بعض مدارس والے کر رہے ہیں بورڈ کے ایک گوشے میں چهوٹا سا ” مرکزی ” یا "اشرفی”،  یا "حسینی”  اور جلی اور بڑے بڑے موٹے موٹے حروف میں دارالعلوم ، قاسم العلوم یا مظاہر علوم  لکها دیا جاتا ہے۔

 چلئے میں بدگمانی نہیں کرتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند کے نام پر چندہ کرنا ان کا مقصد  ہے پهر بهی کس قدر زیادتی ہے کہ آپ نے  اپنی مادر علمی سے اپنے بیس بچوں والے مدر سہ کو بڑا پراجیکٹ کرنے کی کوشش کی اور نام رکها ” مرکزی ” دارالعلوم۔  اسی طرح بے شمار مکتب اور چهوٹے چهوٹے دو کمروں پر مشتمل مدرسے ہیں جن کے نام جامعہ عثمان بن عفان جامعہ علی ابی طالب وغیرہ رکها ہے۔ ۔۔ ایسا شاید  دور دراز علاقوں میں بڑا ادارہ بتا کر چندہ کی غرض سے وہ لوگ  کرتے ہیں یا عربی  زبان اور اصطلاحات سے عدم واقفیت کی وجہ سے۔۔ ۔۔ ان کی جہالت کے آئینہ والے ناموں کو پڑھ کر سر میں درد سا ہوتا ہے اور کوفت ہوتی کہ یا اللہ یہ ناظم مہتمم فارغ التحصیل ہوں گے لیکن ان کو یہ بهی پتہ نہیں کہ مکتب مدرسہ ابتدائیه پرائمری اسکول  ہوتا ہے مدرسہ ثانویه سکنڈری اسکول کو کہتے ہیں اور مدرسہ علیا ہائی اسکول ہے جبکہ کلیه کالج اور جامعہ یونیورسٹی کو کہتے ہیں اور معہد انسٹی ٹیوٹ کو کہا جاتا ہے۔ لیکن ان کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے جو چاہیں لکهیں کوئی باز پرس نہیں۔ کوئی معیار criteria نہیں کہ کس درجہ تک کی پڑھائی والے کو مدرسہ یا کلیہ یا معہد یا جامعہ کہیں گے اور ان کی شرائط کیا ہیں۔ وفاق مدارس اسلامیہ بنانے کی کوشش 1980 میں دارالعلوم اجلاس صد سالہ میں کی گئی لیکن مدرسوں کے مولوی حضرات اس قدر خود سر ہیں کہ انہوں نے گویا عہد کیا ہے کہ ہم متحد نہیں ہونگے۔۔۔۔۔۔” اتفقنا علی ان لا نتفق”۔۔۔۔۔ ایسی انا پرستی اور ہم چنیں دیگر نیست سے جکڑے ہوئے ہیں کہ نہ ان کو مدارس کی اصلاح سے سروکار ہے اور نہ ہی مدارس کی تجدید کاری سے۔

حکومت نے 1980 میں اس کے لئے ایک اعلیٰ با اختیار پینل بنایا تها 1986 میں عملی کارروائی کے لئے پروگرام مرتب کیا گیا 1991 میں فاضل نمائندوں کی میٹنگ ہوئی اور 1994 میں حکومت کی جانب سے اس کے لئے فنڈ مہیا کیا گیا تاکہ مدارس ریاضی سائنس سماجی علوم اور انگریزی ہندی زبان کے اساتذہ مقرر کریں اوران کی تنخواہ ریاستی حکومتوں کے توسط سے ان کو دی جائے۔۔ ۔۔۔ مدارس والے اس سے مستفیض نہیں ہوئے اور اس کی وجہ ان کے خدشات ہیں کہ حکومت مدارس کے ہر کام میں دخل دے گی۔۔ ۔۔ چلئے آپ کے خدشات کو بر محل مان لیتے ہیں مگر آپ نے یہ کام خود شروع کیوں نہیں کیا؟ جب تک CBSE کے طرز پر دینی مدارس والے اپنا کوئی بورڈ نہیں بناتے یہ بدنظمی باقی رہے گی۔ ۔۔ دینی مدارس قائم کرنا بذات خود ایک محمود عمل ہے مگر اس طرح تجارت بنانا اور دو دو کمروں کے فلیٹ میں "جامعہ” قائم کرنا دور دراز سے 20 -22 غریب اور یتیم بچوں کو لا کر اسی دوکمرے میں رکهنا جو ان کی درسگاہ /کلاس روم/ بهی ہے اور وہی قیام گاہ/ہاسٹل/ بهی ہے، بچوں کے ساتھ ظلم ہے۔ نیچے درجات کی تعلیم یہ مقامی مدرسوں میں حاصل کریں اور سشم ہفتم دورہ کا نظم بڑے اداروں میں ہو۔ چهوٹے اداروں کا باضابطہ الحاق بڑے اداروں سے ہو۔۔۔ مدارس والے اس طرح کی لازمی ترتیب سے مستثنیٰ کیوں رہنا چاہتے ہیں ؟

غالباً اس کی ایک و جہ ہہ ہے کہ یہ اپنے قد سے دوسروں کا قد اونچا دیکهنا نہیں چاہتے! موجودہ ناظم مہتمم متولی ظاہر ہے انگریزی اور کمپیوٹر سے نابلد ہیں مگر نئے نصاب کے لئے جن اساتذہ کی تقرری ہوگی ظاہر ہے وہ عصری تعلیم سے بهی واقف ہوں گے یہ سبکی کیسے برداشت کی جائے ؟ دوسری وجہ بانی مہتمم ناظم متولی ہر قسم کی جوابدہی سے دور خود مختار شتر بے مہار رہنا چاہتے ہیں۔ اب ہر طرف جس طرح عصری تعلیم والے دو دو کمروں کے مکان میں ہی انٹر کالج اور کالج چلاتے ہیں، طلباء کی حاضری، لائبریری لیب کهیل کود کےلئے میدان سے بری،  بس سالانہ امتحانات لینا اور سرٹیفکیٹ دینا ہے اسی طرح اب مدارس والے کر رہے ہیں۔ ملک میں دارالافتاء کے دو یا تین مراکز ہوتے تھے جن میں سب سے اہم دارالعلوم کا مرکز ہے جس میں داخلہ کا معیار اونچا اور شرائط سخت ہیں ٹریننگ اچهی اس لئے ہوتی ہے کہ نت نئے استفتاء روزانہ آتے ہیں۔

مگر افسوس اسی دیوبند میں کچھ لوگوں نے چهوٹا سا مندرسہ کهولا مگر مدرسہ تو چلا نہیں پائے تو دارالافتاء قائم کر لیا اور وہ طلبہ جو مفتی بننے کے خواہشمند تھے مگر دارالعلوم میں داخلہ کے اہلیتی امتحان میں فیل ہو گئے وہ اس چهوٹے مدرسہ کے دارالافتاء میں داخلہ لے لیتے ہیں۔۔ ۔۔۔۔ باتیں بہت ہیں مگر سوال صرف ایک ہے : کیا دینی مدارس منظم ہوں گے؟ کیا ان کا کوئی بورڈ ہوگا؟ کیا ان کے منتظمین کسی کے سامنے جوابدہ ہوں گے؟

” فراغت کے بعد طلبہ مدرسہ ہذا کو مدارس سرکاری میں جاکر علوم جدیدہ میں کمال پیدا کرنے کی سعی جاری رکھنی چاہئے۔ ”
بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه اللہ تعالیٰ علیه (روداد سنہ 1290)

تبصرے بند ہیں۔