فتویٰ شرعی عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے

حفیظ نعمانی

اسلامی علوم کے بڑے مدارس میں دوسرے شعبوں، تفسیر حدیث کے ساتھ قانون کا بھی شعبہ ہوتا ہے جسے فقہ کہا جاتا ہے۔ وہاں وہ طالب علم تربیت حاصل کرتے ہیں جو آگے چل کر کسی مدرسہ میں فقہ کے استاذ بن جاتے ہیں اور وہی مفتی ہوتے ہیں۔ جاہل اور ماڈرن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ مدرسہ کے مفتی صاحب جب جی چاہتا ہے فتویٰ دے دیتے ہیں یہ ان کی جہالت ہے۔ نیت کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کون کس مقصد سے فتویٰ معلوم کررہا ہے؟ لیکن جب معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا فرماتے ہیں مفتیانِ دین اس مسئلہ میں کہ …؟ اس کے جواب میں شرعی احکام کی کتابیں اور بڑے بڑے مفتیوں کے فتوئوں کو دیکھ کر بتایا جاتا ہے کہ شریعت میں یہ ٹھیک ہے اور یہ غلط۔

ایک اخبار میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کے صدر کا ایسے ہی ایک فتوے کے اوپر تبصرہ نظر سے گذرا جس میں کہا گیا ہے کہ فتویٰ وہاں دیا جاتا ہے جہاں مانگا جاتا ہے۔ جب تک فتویٰ مانگا نہ جائے مفتی کو فتویٰ دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کے ہیڈ بھی جاہلوں سے بڑے جاہل بن کر بات کریں تو علم کہاں منھ چھپاتا پھرے گا؟ اخبار میں جہاں ان کا بیان چھپا ہے اس کے اوپر وہ فتویٰ چھپا ہے جس میں چھپا ہے کہ ایک شخص نے دیوبند سے سوال پوچھا تھا کہ…… اور اس کے جواب میں مفتی صاحب نے جواب دیا تھا کہ مسلمانوں کو آئی برو بنوانے اور مسلم خواتین کو بال کٹوانے کی اجازت بغیر کسی مجبوری کے نہیں ہے۔ صدر شعبۂ فارسی نے یہ بھی کہا کہ آج ان فتوئوں کو کون مانتا ہے؟ اسی فتوے پر دوسرا تبصرہ پروین طلحہ کا ہے جو کئی سرکاری عہدوں پر کام کرچکی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسلام نے کہیں نہیں کہا ہے کہ عورتوں کو باندھ کر رکھو اور انہوں نے وضاحت کی ہے کہ بڑے بال سلجھانے میں وقت خراب ہوتا ہے کٹے ہوئے بال منٹوں میں سلجھ جاتے ہیں۔ اور بیوٹی پارلر میں غریب لڑکیاں کام کرکے گھر چلا رہی ہیں اور آفسوں میںکام کرنے والی کو جانے کی جلدی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

مدسہ کے مفتی سے فتویٰ وہ معلوم کرتے ہیں جو واقعی نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے؟ اور جب فتویٰ آجاتا ہے تو پھر اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اور اس کا بھی امکان ہے کہ کوئی غلط مقصد کے لئے فتویٰ مانگے۔ نیت کا حال کسے معلوم ہے؟ اہم بات یہ ہے کہ فتویٰ ان دُخترانِ اسلام کے لئے ہوتا ہے جو گھروں میں رہتی ہیں اور جو کوشش کرتی ہیں کہ جتنا بھی ہوسکے شریعت کے احکام پر عمل کریں۔ یہ فتوے ان کے لئے نہیں ہوتے جو اپنا زیادہ وقت مردوں کے ساتھ گذارتے گذارتے مردوں کی ہی ایک قسم بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی فتوے پر جو ردّعمل اخباروں میں آتے ہیں وہ سب ان کے ہوتے ہیں جو ہر وقت اخبار اور ٹی وی کے رپورٹروں کو مل سکتی ہیں اور ایسی عورتوں کے فون نمبر بھی ان کے پاس ہوتے ہیں۔

اسی صوبہ اور شہر میں نہ جانے کتنے گھر ایسے ہیں جو اپنی حد تک شریعت پر پورا عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے کسی گھر کی کسی خاتون کا کوئی بیان آج تک سامنے اس لئے نہیں آیا کہ وہاں تک رپورٹر کی آواز بھی نہیں پہونچ سکتی۔ پروین طلحہ جیسی خواتین سے شریعت سے کیا مطلب؟ وہ اگر فتویٰ دیکھیں تو اسے چورن کا اشتہار سمجھ کر نظرانداز کردیں اس لئے کہ کسی بھی فتوے کی مخاطب ان جیسی نہیں ہوتیں۔

ایک بات فارسی شعبہ کے صدر سے بھی عرض کرنا ہے کہ اخبار میں چھپا ہے کہ انہوں نے کہا کہ فتویٰ جب تک مانگا نہ جائے اس وقت تک مفتی کو فتویٰ دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور کہا کہ آج ان فتوئوں کو کون مانتا ہے؟ شاید چھ برس پہلے کی بات ہے کہ گجرات میں وزیر اعلیٰ مودی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ماسٹر پلان میں جو درگاہیں اور مزار آتے ہیں ان کو صاف کردیا جائے۔ اتفاق سے ہر درگاہ اور مزار 300  برس سے زیادہ پرانا تھا جسے حکومت ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی تھی وہ آثار قدیمہ بن چکا تھا۔ یہ پوری خبر اخبارات میں اہمیت کے ساتھ چھپی۔

گجرات ہائی کورٹ کے ایک جج نے اس خبر کو اپیل مان کر فیصلہ دے دیا کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے آثار قدیمہ کو بھی انہدام کرنا پڑے تو کیا جاسکتا ہے۔ وہ تو ان مندروں نے بچا لیا جو راستے میں آگئے ورنہ گجرات سے ہر درگاہ صاف کردی جاتی۔ شعبۂ فارسی کے صدر کو اتنا تو معلوم ہونا چاہئے کہ جب ایک جج ایک خبر کو پڑھ کر حکم دے سکتا ہے تو ایک اسلام کے مفتی کو کیوں یہ حق نہیں کہ وہ مسلمانوں میں کس بگاڑ کو عام ہوتا دیکھ کر فتویٰ دے کہ یہ حرام ہے؟

پروین طلحہ نے کہا ہے کہ اسلام نے کہیں نہیں کہا ہے کہ عورتوں کو باندھ کر رکھو۔ وہ اسلام کو پڑھے بغیر اسلام کی بات کرتی ہیں اگر وہ کھلے دماغ سے اسلام کا مطالعہ کرلیں تو خود اپنے کو باندھ لیں گی اسلام نے کسی کو بھی باندھنے کے لئے نہیں کہا ہے اسلام پر عمل کرنے والا تو خود اپنے کو اس لئے باندھتا ہے کہ بغیر بندھے وہ شریعت کے احکام پورے کرہی نہیں سکتا۔ کھن کھن جی کالج کی شعبۂ اردو کی استاذ ریشما پروین کی تعلیم جہاں بھی ہوئی ہو تربیت ڈاکٹر شمیم نکہت، بیگم شارب رُدولوی نے کی ہے وہ برسوں ان کے گھر ان کے پاس ہی رہی ہیں اور انہوں نے شمیم صاحبہ کو روزوں اور نماز کا پابند دیکھا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا ہی اثر ہو کہ اس فتوے پر انہوں نے بال کٹے ہوئے ہونے کے باوجود کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا۔

اس فتوے پر یہ کیسے ممکن تھا کہ ٹی وی اسلام پر مسلم خواتین سے حملے نہ کرائے؟ ایک چینل پر دو صحتمند عورتوں کو بلا لیا ان میں ایک برقع میں تھیں اور دوسری فارغ البال۔ برقع پوش سے نام لے کر معلوم کیا گیا کہ ان کا کیا خیال ہے انہوں نے جواب دیا کہ مولوی فتویٰ کیوں دیتے ہیں جبکہ قرآن میں لکھا ہے لکم دینکم ولیدین۔ ’’تمہارا جو جی چاہے وہ تم کرو ہمارا جو جی چاہے ہم کریں‘‘ دوسری نے جواب دیا کہ قرآن کی سورۃ… میں آیت  … میں ہے کہ مردوں کو نظر نیچی رکھنا چاہئے۔ تو آپ کیوں ہمارے اوپر بری نظر ڈالتے ہیں؟ قرآن عظیم کے ساتھ یہ ظلم اور جہالت صرف اس لئے ہے کہ ہر فتوے کو اخبار میں چھاپ دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ اخباری خبر نہیں ہے اور نہ اس کی حیثیت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی ہے جو اس نے دیوالی کے پٹاخوں کے بارے میں دیا ہے۔

ملک میں جیسے ہزاروں عدالتیں ہیں ایسے ہی سیکڑوں دارالافتاء ہیں۔ اخباروں میں نہ ہر مقدمہ کا فیصلہ چھپتا ہے اور نہ فتویٰ مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 45  سال سے زیادہ عمر کی عورت بغیر محرم کے حج کے لئے جاسکتی ہے۔ اس کے بارے میں جو مفتیانِ کرام فتویٰ دیں گے وہ بیشک اخباروں میں چھپنا چاہئے اس لئے کہ پردہ اور سفر میں محرم کی شرط کا کوئی تعلق عمر سے نہیں ہے۔ ایک صحابیؓ حضور اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپؐ نے گھر کی خواتین سے فرمایا کہ پردہ کرلو کسی نے جواب دیا کہ وہ تو نابینا ہیں حضورؐ نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو۔ اس حدیث کے ہوتے ہوئے کون عالم اور مفتی اس کی اجازت دے سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔