خواتین کو باختیار بنانے کی ہو پہل

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک انٹرنیشنل گرلس چائلڈ ڈے منارہا ہے۔ اس موقع پر بچیوں کے خلاف تشدد، امتیاز اور بااختیار بنانے جیسے بنیاد ی مسائل پر بات شروع ہوئی ہے۔ اس مناسبت سے بین الاقوامی تنظیم یونیسیف نے مرکزی وزارت برائے ترقی خواتین واطفال کے اشتراک سے ایک مباحثہ منعقد کیا۔ مرکزی وزیر مینکا سنجے گاندھی نے مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ لڑکیوں کے ساتھ کس کس سطح پر امتیاز برتا جاتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ سلسلہ رحم میں قتل سے شروع ہوتا ہے۔ آج بھی سماج کے کئی طبقوں میں بچیوں کو بوجھ یا پرایا دھن سمجھا جاتا ہے۔ بیٹیوں کو جب بھی موقع ملا ہے انہوں نے اپنے خاندان کا ہی نہیں بلکہ ملک کا نام بھی روشن کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین بالخصوص بچیوں کو بااختیار بنانے اور انہیں مین اسٹریم سے جوڑنے کیلئے مرکزی حکومت پابند عہد ہے۔ ’’بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘‘ مہم کے تحت سرکار نے وہ کام انجام دیئے ہیں جو خواتین کے درمیان کبھی لائے ہی نہیں گئے۔ انہوں نے کہاکہ خواتین کے خلاف بڑھ رہے جرائم، معاشرہ میں آئی خرابی بے حسی کا نتیجہ ہے اسے روکنے کیلئے سب کو آگے آنا ہوگا۔ بیٹیوں کو مواقع دینے چاہئیں اوران کی پیدائش پر خوشی منانی چاہئے۔

ماسٹر بلاسٹر سچن تندولکر نے اس موقع پر کہاکہ جب خواب کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کرتے تو پھر ہم لڑکیوں کے ساتھ کیوں کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں لڑکیوں کو ان کا خواب پورا کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ جس طرح لڑکوں کو ان کا خواب پورا کرنے سے نہیں روکا جاتا اسی طرح بیٹیوں پر بھروسہ کرکے انہیں آزادی دینا چاہئے۔ لڑکیوں کیلئے لڑکوں کی سوچ کو بھی بدلنا چاہئے۔ انہوں نے ریو اولمپکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں خواتین ایتھلیٹوں سے بات کرکے میں نے جانا کہ یہاں تک پہنچنے کیلئے انہیں کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ہماری خواتین کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی سے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں ۔ ہندوستانی خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان متالی راج نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہاکہ بچوں کو کسی مقام تک پہنچانے میں والدین کا اہم کردار ہوتا ہے، اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ لڑکیوں کو بھی اسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے لڑکوں کو دیکھتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے اس مقام تک پہنچانے میں میرے والدین، بھائی، بہنوں نے بہت ساتھ دیا اس لئے میں دیگر لڑکیوں کیلئے بھی ایسی ہی حمایت اور مدد کی اپیل کرتی ہوں ۔ پیرا ایتھلیٹ رجنی جھا نے کہا کہ معذور ہونے کے باوجود میرے والدین نے مجھے ہرموڑپر سپورٹ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے بین الاقوامی سطح پر ملک کیلئے کئی تمغے حاصل کئے۔ اس موقع پر خواتین باسکٹ بال ٹیم کی کپتان اسپریٹ سدھو، کراٹے میں بلیک بیلٹ مانا منڈلیکر جیسی خواتین کھلاڑیوں نے بھی اپنے تجربات شیئر کئے۔

بھارت میں یونیسیف کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین علی حق نے اپنی افتتاحی گفتگو میں بتایا کہ پچھلے چند سالوں میں لڑکیوں کے تعلق سے بھارت میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں ۔ 2006-2005میں 18سال سے کم عمر میں شادیوں کی شرح 47فیصد تھی جو 2016-2015 میں گھٹ کر 27 فیصد ہوگئی ہے، لیکن راجستھان اور بہار کے کچھ اضلاع میں یہ اب بھی 47 سے 51 فیصد ہے۔ اسی طرح 15 سے 19 سال میں ہوئی چار شادیوں میں سے ایک لڑکی کو اس کے شوہر کے ذریعہ اذیت پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ کم عمر میں ہوئی شادی کی وجہ سے زچہ بچہ کی موت اور عدم غذائیت جیسے مسائل کا سماج کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عورتوں میں خون کی کمی صحت سے جڑے معاملے الگ ہیں ۔

خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ہر سطح پر ان کی نمائندگی کو یقینی بنانے کی بات زور شور سے اٹھتی رہی ہے۔ خاص طورپر قانون ساز اداروں میں۔ جن ممالک نے عورتوں کو نمائندگی دی ہے، وہاں ان کی حالت بہتر ہے۔ بھارت میں باوجود کئی سطح پر خواتین کو ریزرویشن دینے کے قانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی کے راستہ میں کئی رکاوٹیں ہیں ۔ ہمارا مردوں کی بالادستی والا سماج ہے۔ اس کو سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اس ضروری مدعے کو پیچھے ڈھکیل دیتے ہیں۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر ابھی حال میں ہی خواتین ریزرویشن بل لوک سبھا میں پاس کرانے کی اپیل کی ہے۔ اسی کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔ بی جے پی اپنے چناوی منشور میں اور نریندر مودی نے اپنی ریلیوں میں اس بل کو پاس کرانے کا خواتین سے وعدہ کیا تھا۔ خواتین ریزرویشن بل کی حمایت کرنے والی پارٹیوں نے اس مانگ میں اپنا سر ملایا تو بی جے پی کو مجبوراً کہنا پڑا’’ ان کی سرکار اس بل کو پاس کرانے کو لے کر پابند عہد ہے۔‘‘ آنے والے سرمائی اجلاس میں وہ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔

خواتین ریزرویشن بل پچھلے بیس سالوں سے پارلیمنٹ میں اٹکا ہوا ہے۔ اسے لے کر خواتین لمبے عرصہ سے جدو جہد کررہی ہیں ۔ اس کے پاس ہونے سے 33 فیصد پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی سیٹوں کیلئے خواتین کا راستہ صاف ہوجائے گا۔ پہلی بار اسے دیوگوڑا سرکارنے 1996 میں پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا لیکن کئی مرد ممبران پارلیمنٹ کی مخالفت کی وجہ سے یہ بل آگے نہیں بڑھ پایا۔ اس کے بعد اٹل بہاری واجپئی سرکار نے اسے ایوان کے سامنے رکھا۔ اس وقت ان کی پارٹی اور حمایتی پارٹیوں کے ممبران کی وجہ سے پاس نہیں ہوسکا۔ 9؍مارچ2010 کو کانگریس نے راجیہ سبھا میں یہ بل پاس کرادیا لیکن لوک سبھا میں سماج وادی پارٹی، بی ایس پی اور آر جے ڈی کی حمایت نہ ملنے سے یہ بل پاس نہیں ہوسکا۔ ان پارٹیوں کے لیڈران کا کہنا تھا کہ اس سے دلت، پسماندہ اور اقلیتی طبقہ کی خواتین کو نقصان ہوگا۔ اس لئے خواتین ریزرویشن بل میں ان طبقات کی خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ سوال واجب لگتاہے لیکن اس میں مردوں کا وہ ڈر بھی پوشیدہ ہے جس کے بعد پارلیمنٹ کو263اور اسمبلیوں کی 1373سیٹوں سے انہیں ہاتھ دھونا پڑے گا۔

پارلیمنٹ میں عورتوں کی نمائندگی کی بات کریں تو 16 عام انتخابات کے باوجود بھی یہ تعداد 12 فیصد کے آنکڑے کو پار نہیں کر پائی ہے۔ جبکہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جہاں 76 کروڑ ووٹر اپنی سرکار چنتے ہیں ۔ ان میں سے38 کروڑ سے زیادہ خواتین کے ووٹ شامل ہیں ۔ یہ حالت مایوس کن ہے، کیوں کہ سیاست ہی ایسا ذریعہ ہے جس کا سماج کے ہر حصہ پر اثر پڑتا ہے۔ قانون بنانے سے لے کر نئی پالیسیاں بنانے تک۔ تبھی تو ترقی یافتہ ممالک میں عورتوں کو حصہ داری سال در سال بڑھتی جارہی ہے۔ انٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین کے اعداد کے مطابق دنیا میں فی الوقت 21.8 فیصد خواتین ممبران پارلیمنٹ موجود ہیں ۔ اس لحاظ سے بھارت دنیا میں 111 ویں پائیدان پر ہے۔ یعنی عورتوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے کے معاملے میں ہماری حالت کافی خراب ہے۔ ترقی کے کئی آنکڑوں کے معاملے میں ہم سے زیادہ پسماندہ افریقی ممالک بہتر حالت میں ہیں ۔ اس وقت راجیہ سبھا میں 12.8 فیصد خواتین ممبران ہیں جو دنیا کے اوسط 22 فیصد سے کافی کم ہے۔

خواتین کی پارلیمنٹ میں کمزور نمائندگی اس وقت ہے جبکہ کانگریس، بی ایس پی اور ترنمول کانگریس کی ذمہ دار خواتین ہیں ۔ کچھ دن پہلے تک اے آئی اے ڈی ایم کے کی ذمہ دار بھی ایک خاتون تھی۔ واقعی اگر خواتین کو بااختیار بنانے کو لے کر ملک سنجیدہ ہے تو خواتین ریزرویشن بل کو پاس کر کے عورتوں کو قانون ساز اداروں میں مناسب نمائندگی دی جائے۔ اس سے نہ صرف عورتوں کی حالت بہتر ہوگی بلکہ ملک اور سماج دونوں کی حالت میں سدھار آئے گا۔ یہ بل خواتین کو بااختیار بنانے میں میل کا پتھر ثابت ہوگا۔ اس کی پہل زیادہ سے زیادہ خواتین کو ٹکٹ دے کر کی جاسکتی ہے۔ سماج میں عورتوں کے تئیں عدم مساوات کا رویہ پایا جاتا ہے جو دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ انہیں یکساں مواقع تبھی ملیں گے جب وہ اقتدار میں ہوں گی۔اگر گرلس چائلڈ ڈے منانے کے ساتھ ہی اس پر پہل ہو جائے تو یہ دن یادگار بن جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔