سر سید نے ایک نیا ‘علم کلام‘ ایجاد کیا

عالم نقوی

’’ہندستانی مسلمانوں کی تاریخ میں سر سید کے تصورات ایک نئے طرزِ حیات اور حقائق کے تئیں ایک نئے رویے کا منشور ہیں ۔ جس میں ، عقلیت، وضاحت، اجتماعیت اور اجتہاد کو مرکزیت حاصل ہے۔ قومی ترقی سے وابستہ سر سید کے تمام اَفکار اِس اِعتبار سے ہم آہنگ اور باہم مربوط ہیں کہ اُن کے عملی پہلوؤں پر اِصرار اور اُن کی اِفادِیَت کا نقطہ نظر قدر ِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔  روایت پرستی اور تقلید کی جگہ استدلال، سائنسی نقطہ نظر اور اجتہادی طریقہ کار ’سر سید کی جدیدیت ‘ کے  بنیادی پتھر ہیں ۔‘‘یہ پروفیسر قاضی جمال حسین کے الفاظ ہیں جو شعبہ اردو  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سبکدوش پروفیسر ہیں ۔  اپنے ایک مضمون ’سر سید کی جدیدیت ‘ (مطبوعہ فکر و نظر علی گڑھ ۱۹۹۵ شمارہ۔۶، ۴۱۔۴۳ )میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’سر سید کی کثیر ا لجہات خدمات اور دُور رَس اَثَرات کوہندستانی مسلمانوں کی تہذیبی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ (سر سید کا کارنامہ یہ ہے کہ  انہوں نے )جزوی یا فروعی مسائل پر توجہ دینے یا زندگی کے (محض) کسی ایک (مخصوص ) شعبے کی اصلاح پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے قومی رویے میں اَساسی تبدیلی کی ضرورت کو بر وقت محسوس کیا اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرنے کے بجائے ایک اجتماعی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ ۔سر سید کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی تاریخی و تہذیبی روایت کو ایک نئی جہت  دی اور مستقبل کے وسیع تر امکانات سے آشنا کیا۔  فکر و عمل کی ایک نئی دنیا آباد کی۔ ہندستانی مسلمانوں کے نظام ِ اَفکار میں انتشار کے اسباب کی نشاندہی اور پھر انکی از سر نو شیرازہ بندی سر سید کا عہد ساز کارنامہ ہے۔ قومی زندگی کے سبھی پہلو  مذہب، سیاست، تعلیم، تمدن اور  معاشرت بیک وقت ان کے پیش نظر تھے اور تاریخی حقائق سے ان کی ہم آہنگی، سر سید کے نزدیک (بدلے ہوئے) وقت(اور حالات )  کی بنیادی ضرورت تھی۔اسی لیے سرسید نے مذہبی تصورات کے دفاع کے لیے’’ ایک نئے علم کلام ‘‘کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سلسلے میں ان کا مؤقف یہ تھا کہ۔ ۔’’وقت کی بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں دو طرح پر علوم کی ترقی ہو۔ اول یہ کہ جس طرح  قدیم یونانی فلسفہ اور حکمت ہم مسلمانوں نے حاصل کی تھی (اُسی طرح ) اَب  (جدید )فلسفہ اور حکمت جدیدہ حاصل کرنے میں ترقی کریں ۔ کیونکہ علوم یونانی کی غلطی (اور خامیاں ) اب علانیہ ظاہر ہو چکی ہیں ۔ اور دوسرے یہ کہ جس طرح علمائے سابق نے ’معقول ِ یونانیہ ‘ اور ’منقول ِ اسلامیہ ‘ کے درمیان مطابقت قائم کرنے کی کوشش کی تھی اُسی طرح اب حال کے ’ معقول ِ جدیدہ ‘ اور قدیم ’منقول ِاسلامیہ ‘میں تطبیق  قائم کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ جو نتائج ہم کو پہلے حاصل ہوئے تھے وہ اب بھی حاصل ہو سکیں ۔  اس کام کو بلا شبہ بہت سے نادان لوگ برا کہیں گے اور زبان ِ طعنہ دراز کریں گے مگر ہم کو اس کا کچھ خیال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگلے لوگوں کے ساتھ  بھی ایسا ہی ہوا تھا مگر آخر کو سب لوگ اس کی قدر کریں گے ‘‘(مقالات سر سید۔ حصہ ہفتم ص ۲۱۵)

قاضی جمال حسین لکھتے ہیں کہ ’’ مذہبی معاملات میں سر سید کا رویہ اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ روایت سے جذباتی وابستگی کے سبب تاریخ کے مطالبات سے صرف ِ نظر کرنا اور اندھی تقلید اور پیرویِ محض میں وقت کے تقاضوں کو دَر خورِ اِعتِنا نہ سمجھنا خود فریبی اور ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں ۔  ان کی تحریروں میں ’’خالص اسلام ‘‘اور ’’ ٹھیٹھ اسلام ‘‘ جیسے لفظوں کی پیہم تکرار در اصل اسی حقیقت پر اصرار ہے کہ مروّجہ اسلامی عقائد اور خالص اسلامی تصورات دو الگ الگ حقیقتیں ہیں ۔  تاریخ کے مختلف اَدوَار میں ، بَوَجُوہ، بے شمار غیر اسلامی عناصر نے (اسلام ِ راستین یا ) حقیقی اسلام کو آلودہ کیا ہے اور معترضین (اور اہل ایمان کے ’’دائمی دشمنوں (المائدہ ۸۲۔) نے اکثر انہی مروج تصورات کے سبب اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔  ’نئے علم ِ کلام ‘ کی ضرورت پر  سر سید کا اصرار اور دیگر مذہبی تحریروں کے علاوہ ان کی تفسیر قرآن فی الواقع زندگی کے تئیں ایک نئے رویے کی ضرورت کا ’اعلامیہ (ڈکلیریشن )‘ تھا۔ اپنے اس مؤقف کی تائید میں سر سید کی دلیل یہ تھی کہ۔ ۔’’ فلسفہ حال کا ہر مسئلہ تجربے اور مشاہدے سے ثابت کیا جاتا ہے، پس ضروری ہے کہ جس طرح مسائل حکمیہ کے ثبوت کا طریقہ بدل گیا ہے اُسی طرح اُس کے مقابلے کے لیے ’’ایک نئے علم کلام ‘‘ کی بنیاد ڈالی جائے۔ ۔جو لوگ بلا فلسفی دلیل و حجت کے اسلام پر یقین رکھتے ہیں ، بلا شک ان کا ایمان اور ان کا یقین بہ نسبت ان لوگوں کے جو دلیل و حجت سے اپنے عقیدے کو مستحکم کرتے ہیں ، بہت زیادہ مستحکم ہے۔ کیونکہ ان کے دل میں کسی شک و شبہ نے راہ نہیں پائی۔ اور نہ کسی شک و شبہ کے راہ پانے کی کوئی گنجائش ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان کے ایمان کو  (میں کسی اور سے کیا کہوں ) اپنے ایمان سے بہت زیادہ مستحکم جانتا ہوں ۔ اخدا کو ماننے اور رسول ﷺپر یقین کرنے کے لیے ان کو کسی منطقی دلیل اور فلسفی برہان کی حاجت نہیں ۔ کیسی ہی کوئی بات خارج از عقل اور ناقابل یقین، صحیح یا غلط ان کے سامنے یہ کہہ کر کہ ’’ خدا اور رسولﷺ نے فرمایا ہے ‘‘ بیان کی جائے، تو وہ فوراً اس پر یقین کر لیں گے۔  پس ایسے لوگ ہماری اس بحث سے خارج ہیں ۔ میں ان کو یقین کا ستارہ۔ ۔اور ٹھیک مسلمان جانتا ہوں (حیات جاوید ص ۲۱۷) ‘‘قاضی جمال کے لفظوں میں ’’ سر سید کے انہی جذبات کا احترام کرتے ہوئے اور اُن کے مخصوص طریقہ کار کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے مولانا حالی نے تفسیر کے سلسلے میں ان کی لغزشوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی خدمات کو نظر استحسان سے دیکھا ہےچنانچہ  وہ لکھتے ہیں کہ  ’’اگرچہ  سر سید نے اس تفسیر میں جا بجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور بعض مقامات پر تو ان سے نہایت رکیک لغزشیں ہوئی ہیں بایں ہمہ اس  تفسیر کو ان کی مذہبی خدمات میں ایک نہایت جلیل ا لقدر خدمت سمجھتے ہیں جس سے اسلام کی محبت اور ہمدردی کے علاوہ ان کی لٹریری لیاقت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ ظاہر ہوتا ہے (حیات جاوید ص ۲۲۲) ‘‘

تبصرے بند ہیں۔