فتوی: تعارف، اصول اور آداب

مترجم و شارح: مفتی منصور احمد صاحب

مبصر: شادمحمدشاد

فتوی نویسی یا فتوی دینا جتنا عظیم الشان، اہمیت وفضیلت اور باعثِ اجر وثواب والا منصب ہے، اس سے کہیں زیادہ یہ ایک انتہائی نازک ذمہ داری ہے، کیونکہ مفتی، اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان واسطہ ہےاوررسول اللہ ﷺ  کا نائب بن کراحکامِ شرعیہ میں لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے، اسی لیے علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ مفتی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ فتوی دینے میں کس کا نائب اور قائم مقام ہے؟(اعلام الموقعین1/11)اسی بات کو علامہ شاطبی نے اپنی کتاب( الموافقات 4/244) میں بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، لہذا اگر مفتی درست مسئلہ بتائےگا تو اپنے ذمہ سے عہدہ برآہوکر اجر وثواب کا مستحق ہوگا، ورنہ غلط مسئلہ بتانے کی صورت میں پوچھنے والے کے عمل کا وبال بھی اسی کے سر ہوگا، (الدارمی 1/83)، اسی سلسلے میں روایات، آثار اور سلف صالحین کے اقوال اور فتوی دینے میں ان کے احتیاط سے بھی اس منصب کی نزاکت وحساسیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

فتوی دینا محض ذاتی رائے یا مشورہ دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ جس طرح احکام کے استنباط، استخراج اور اجتہاد کے لیےاصول مقرر کئے گئے ہیں، اسی طرح اہلِ علم نے فتوی دینےکے اصول و ضوابط طے کیے ہیں، جن کو سمجھ کر ذہن نشین کرنا، اور فتوی دیتے وقت ان کی رعایت رکھنا لازم وضروری ہے، ان کے بغیر کوئی شخص اس منصب کا اہل نہیں ہوسکتا، اوراحکام فقہیہ کی وادیوں میں بٹھک جانے کا قوی خطرہ رہتا ہے۔

علماء لکھتے ہیں کہ احکامِ فقہیہ میں بصیرت اور ملکہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک ان کا اجراء تین ٹھوس بنیادوں پر نہ کیا جائے، وہ تین بنیادیں یہ ہیں:(1) اصولِ فقہ (2)اصولِ افتاء(3) قواعدِ فقہیہ، ا ن میں اصولِ فقہ مدارس کے درس نظامی میں، جبکہ بقیہ دو بنیادیں درسِ نظامی کے بعد تخصص (Spacialization)میں پڑھائی جاتی ہیں۔

اصولِ افتاء کے فن کو "رسم المفتی” سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس فن میں فتوی کی اہمیت، فتوی کا شرعی حکم، فتاوی نویسی کے اصول و قواعد، مفتی کی صفات اور سائل کے آداب وغیرہ پر بحث کی جاتی ہے، اس فن پر علماء نےمستقل کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے اہم یہ ہیں:

1۔ حافظ خطیب بغدادی کی  "الفقيه والمتفقه”

2۔ حافظ تقی الدین ابن صلاح کی  "ادب المفتی والمستفتی”

3۔ امام نووی کی  "آداب الفتوی والمفتی والمستفتی”

4۔ شمس الدین محمود اصفہانی کی  "الفتیا ومناہج الافتاء”

5۔ امام ابو العباس احمد القرافی کی  "الاحکام فی تمییز الفتاوی”

6۔ علامہ ابن قیم جوزی کی  "اعلام الموقعین”

7۔ علامہ شمس الدین قاضی زادہ کی  "الفتوی فی الاسلام”

8۔ علامہ ابراہیم لقانی کی  "منار اہل الفتوی وقواعد الافتاء بالاقوی”

9۔ علامہ ابن عابدین شامی کی  "عقود رسم المفتی” اور اس کی شرح۔

10۔ علامہ احمد حموی کی  ” صفۃ الفتوی والمفتی والمستفتی”

11۔ شیخ عبدالعزیز الراجحی کی  "التقلید والافتاء والاستفتاء”

12۔ امام احمد الحرانی کی  "صفۃ الفتوی”

13۔ علی بن نایف الشحود کی  "الخلاصة فی احکام الفتوی”

ان کے علاوہ مختلف اہل ِ علم نے اپنی فقہی تالیفات میں اس فن پر مستقل عنوان قائم کرکےاس پرروشنی ڈالی ہے، جن میں علامہ خیرالدین رملی کی”فتاوی خیریہ”، علامہ سراج الدین اودی کی "فتاوی سراجیہ”، قاضی خان کی "فتاوی خانیہ”، علامہ خصکفی کی "در مختار” اور اس پر علامہ ابن عابدینؒ کا حاشیہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، اور شیخ وہبہ الزحیلی ؒ نے اپنی تازہ اور مایہ ناز تصنیف:”موسوعة الفقه الاسلامي والقضايا المعاصرة” کی جلد نمبر بارہ(12) میں اس فن پر تفصیل کے ساتھ بہت عمدہ کلام کیا ہے، جوقابلِ مطالعہ ہے۔

جہاں تک اردو زبان کی بات ہے تو اس میں اس فن پر بہت کم قلم اُٹھایا گیا ہے، جیسے مولانا شہاب الدین سنبھلی کی "افتاء، احکام وآداب” اور مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری کی "آپ فتوی کیسے دیں؟” جس میں انہوں نے علامہ ابن عابدینؒ کی کتاب "عقود رسم المفتی” کے اشعار کا ترجمہ اور مختصر تشریح کی ہے اور آخر میں کتاب میں مذکور شخصیتوں اور کتابوں کا مختصر انداز میں تعارف پیش کیا ہے۔

علامہ ابن عابدینؒ کی کتاب "شرح عقود رسم المفتی” کو خاص طور پر پاک وہند میں  بڑا مقام اور اہمیت حاصل ہے، اسی لیے یہ کتاب کئی مدارس میں داخلِ نصاب ہے، جہالت کے گٹھاٹوپ اندھیروں میں علم کا چراغ روشن کرنے والا ادارہ، جامعہ دارالعلوم کراچی کے تخصص فی الافتاء میں بھی افتاءکے اصول درساً پڑھائے جاتے ہیں، جامعہ دارالعلوم کراچی کے تخصص فی الافتاء(مفتی کورس)کی اہمیت وافادیت اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے، جس کی نگرانی موجودہ دور کی عبقری شخصیت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی سرانجام دے رہے ہیں، حضرت شیخ الاسلام صاحب نےتفسیر وحدیث، فقہ ومعاشی مسائل، تصوف، سلوک واصلاح وغیرہ کے میدانوں میں آپ نے متعدد کتب اور رسائل تحریر فرمانے کے ساتھ ساتھ  ہزارہا فتاوی، شریعت کورٹ وسپریم کورٹ کے عدالتی فیصلے بھی لکھے ہیں اور مفتیان کرام کی تربیت بھی کرتے رہے ہیں۔

چنانچہ حضرت شیخ الاسلام صاحب مد ظلہم نے جامعہ دارالعلوم کراچی کے تخصص فی الافتاء کےطلبہ کو شرح عقود رسم المفتی کی تلخیص اور دوسری کتابوں سے فتوی کی حقیقت، تاریخ اور شرائط و آداب سے متعلق چند اہم فوائد املاء کروائے تھے، جو حضرت کی نظرِ ثانی کے بعد”اصول الافتاء وآدابہ” کے نام سےکتابی شکل میں منظر عام پر آکر اہلِ علم حضرات سے دادِ تحسین وصول کرچکی ہے۔

اس کتاب میں فن افتاء کی اہم مباحث مثلاً فتوی کی حقیقت وعظمت اور اس کے احکام وآداب، مختلف ادوار میں اسلاف کےفتوی دینے کے طریقے، فقہاء اور مسائلِ فقہ کے مراتب، افتاء کے قواعد، دوسرے مذہب پر فتوی دینا، تقلید وتلفیق، اجتہاد، عرف وعادت، علت وحکمت، ضرورت وحاجت، مقاصد شریعت وغیرہ  پر مضبوط دلائل کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔

شیخ الاسلام صاحب کی مذکوہ بالا کتاب چونکہ عربی میں تھی، اور جیسا کہ پہلے گذرچکا ہے کہ اس فن پر اُردو میں بہت کم کام ہوا ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ اس کتاب کوآسان اُردو ترجمہ میں منتقل کیا جائے، تاکہ اس سے فنِ افتاءاوراس کی نزاکت و حساسیت کو سمجھنے میں مدد ملے، اور بعض وہ حضرات جو تفسیر وحدیث اور فقہ سے متعلق چند اردو تراجم کو دیکھنے کے بعد خود کو مفتی گردانتے ہیں اور اس فن میں پھسل پھسل کر بھی سنبھلنے کی سعی نہیں کرتے، انہیں اس کتاب کے ذریعے اپنے اندر اہلیت پیدا کرنےیاکم از کم اپنی کم مائیگی اور عدمِ اہلیت کااحساس ہوجائے۔

اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مولانا مفتی محمد منصوراحمد صاحب مدظلہم کو، جنہوں نے اس اہم کام کا بھیڑااُٹھایا اور اس کتاب کا اُردو ترجمہ کرنے ساتھ ساتھ اس کی تشریح و توضیح اور کئی اہم مباحث کا اضافہ بھی کیا، جو ماشاء اللہ "فتوی:تعارف، اصول، آداب” کے نام سے ایک ضخیم جلد کی صورت میں منصہ شہود پر آگئی ہے۔

مفتی منصور احمد صاحب کو اللہ رب العزت نےعلم وفضل کے ساتھ قلب کا سوز وگداز اور خدمتِ دین کا جذبہ و سلیقہ بھی عطاء فرمایا ہے، اسی خدمت کی ایک صنف آپ کا تصنیف وتالیف کا ذوق ہے، جسے آپ اپنے اچھوتے اندازِ تحریر سےسرانجام دیتے ہیں، آپ نے اس کتاب کا ترجمہ اصل جملوں اور تراکیب کو باقی رکھتے ہوئے سلیس، سادہ، مطلب خیز اور رواں کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ محض ترجمہ نہیں، بلکہ ایک مستقل کتاب نظر آتی ہے، گرچہ اس قسم کی کتابوں کا ترجمہ کرنا خاصا دقت طلب اور مشکل کام ہے، لیکن محترم مترجم نےبڑی عرق ریزی اور خوبی سے اس پر قابو پایا ہے، اورکتاب کی تبویب، ترتیب اور تحقیق سے محترم مترجم صاحب کا علمی، تحقیقی اور ادبی سلیقہ جھلکتا ہے۔

محترم مترجم نے تشریح اور وضاحت کے ساتھ ساتھ قواعدِ رسم المفتی کے اجراء کے لیے فقہی مثالوں کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ہر باب کے آخر میں متعلقہ حواشی اصل ماخذکی طرف مراجعت کےبعدپورے احتیاط کے ساتھ ذکر کیے ہیں، بلکہ جو حوالہ جات نامکمل تھے، انہیں بھی مکمل کردیا ہے، کتاب کے آخر میں دومعلومات آفریں ضمیموں کااضافہ بھی کیا گیا ہے، ایک ضمیمہ میں فتوی کے معاملے میں مفتی محمد شفیع ؒ کے خصوصی مزاق کی چند باتیں اور دوسرے ضمیمہ میں فتوی سے متعلق حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ کے چند راہ نُما واقعات ذکر کیے گئے ہیں، اسی طرح محترم مترجم نے دو اضافی ضمیموں کے بعد دواور اہم اور مفید عنوانات کا اضافہ بھی کیا ہے، ایک عنوان "تشریحات” کے نام سے قائم کیا ہے، جس کے تحت کئی ایسے اہم الفاظ، اصطلاحات، واقعات اور فقہی مسائل کی باحوالہ وضاحت کی گئی ہے جن کا اجمالی طور پرذکر اصل عربی کتاب میں آیا ہے، دوسراعنوان "تعارفِ شخصیات” کے نام سےہے، جس میں ان تمام شخصیات کا آسان اردومیں تعارف پیش کیا گیا ہے، جن  کے مختصر حالات اصل کتاب کے حاشیہ میں آئے تھے، اور سب سے آخر میںاُن قرانی آیات، احادیث وآثار اور فقہی مسائل کی تین اہم فہرستیں بنائی گئی ہیں، جن کااجمالی یا تفصیلی طور پر کتاب میں کہیں ذکر آیاہے۔

اس طرح اب اس کتاب کے علمی جواہر میں مزید اضافہ اورعلمی وفنی اعتبار سے اس کی قدراور بلندہوگئی ہے، اورمحترم مترجم کے سالہا سال کے تدریسی تجربے کی وجہ سے یہ کتاب سہل الفہم ہوگئی ہے، کتاب کا دیدہ زیب سرورق اورلائقِ تحسین کمپوزنگ ذمہ داران کی خوش مذاقی کا ثبوت ہے، علماء، طلباء، مفتیان کرام اور دیگر اہلِ علم کے لیے اس کتاب میں بہت کچھ ہے، لہذا انہیں اس کتاب کو اپنی علمی لائبيریري كي زينت بنادینا چاہیے، امید ہے کہ علمی حلقوں میں اس جدجہد کی پذیرائی ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔