فرقہ بندی کے خلاف قرآن کا انتباہ

مرشد کمال

حضرت جبریل امین  کی وساطت سے رسول اکرمؐ  تک بھیجا ہوا  دین مبین جسے مکمل کر دینے کا اعلان ہوچکا ہو  اور جس کے بارے میں قران کا یہ اصرار اور تنبیہ کہ اس میں رتی بھر بھی اضافے یا ردوبدل کی کوئی  گنجائش موجود نہیں، ہاں  غور و فکر کے دروازے ضرور کُھلے رکھے گئے ہیں۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری مذہبی قیادتیں،  ہمارے دینی ادارے اور ہماری ملی تنظیمیں اسلام کے بجائے اپنے اپنے مسلکوں کی ترویج و اشاعت کے زریعہ قران کی صریح خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔ دین کی خدمت کے نام پر بے دین رواجوں اور قران کے مقابلے انسانی ذہنوں کی اختراع  کو جو تقدیس حاصل ہوگئی ہے تو آخر  اس کا جواز کیا ہے؟ فتوی سازی کی صنعت جس تیزی سے پھل پھول رہی ہے اور ایک فرقہ دوسرے فرقے کو جس طرح بے دین اور کافر قرار دینے میں زرا بھی شرم وحیا کا مظاہرہ نہیں کرتا تو اس کی بنیاد کیا ہے اورا اس کی اجازت ان کو کہاں سے حاصل ہوگئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خود سے سوال کریں اور نام نہاد مولویوں سے اسلام سیکھنے کے بجائے راست قرآن سے اکتساب کریں کہ اب پانی سر اونچا ہو چکا ہے اور یہ اُمت انتشار در انتشار کا شکار ہوتی جاتی ہے۔

اگر آپ خود  کو شیعہ یا سُننی کہلوانا پسند کرتے ہیں تو یقین جانیے کہ پھر آپ کا اُس قرآن سے کوئی تعلق نہیں جو اہل ایمان کو یا ‘ایھا المسلمون ‘ اور ‘ یا ایھا المومنون ‘ سے مخاطب کرتا ہے۔ اگر آپ دیوبندی یا بریلوی ہیں تو بھی قرآن میں آپ کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں کہ قرآن کے صفحات آپ کے ذکر سے بھی خالی ہیں۔ اگر آپ کا تعلق اہل حدیث،  یا اہل سنت یا اس طرح کے کسی دیگر خود ساختہ فرقے سےپایا جاتا ہے تو یہ بھی قران کی مطلوبہ جماعتیں نہیں ہیں ۔ مقلد اور غیر مقلد کی اصطلاح بھی قرآن کی نظر میں ایک اجنبی اصطلاح سمجھی جاتی ہے۔ اور اگر آپ وحدت الوجود اور وحدت الشہود پر عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ہر شئے میں حلول کرتا ہے تب بھی آپ خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ ایسا کوئی طبقہ قرآن کا منظور نظر طبقہ ہو ہی نہیں سکتا۔

قرآن تو رنگ و نسل اور مسلکی بتوں کو توڑ کر ایک ملت میں گُم ہوجانے کا مطالبہ کرتا ہے جہاں اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت ہو اور بس۔

فرقہ بندی کے خلاف قرآن کا کھُلا اعلان اور سخت سرزنش ملاحظہ فرمائیں اور دین کے اُن نام نہاد شعبدہ بازوں سے سوال کریں کہ جس مذہب کی تبلیغ میں وہ شب و روز سرگرداں ہیں وہ کون سے مذہب کی تبلیغ ہے۔قال اللہ اور قال الرسول کی چیخ مارتے وہ کس مذہب کی سر بُلندی کے لیے اپنے حلق خُشک کرتے آرہے ہیں  اور اس کی اجازت اُنھیں کس نے دی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

1. “بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں فرقے بنائے اور گروہوں میں بٹ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہ ان کو بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے۔” (الانعام 159 )

2. “اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر یہ کہ تم مسلم ہو- اور تم سب اللہ کی رسی (کتاب اللہ ) کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاؤ” (آل عمران 102-103)

3. “اور نہ ہوجانا ان لوگوں کی طرح جنہوں نے روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا اور فرقہ فرقہ ہوگئے، اور ان کے لئے بڑا عزاب ہے” (آل عمران 105)

4. ” اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرماں برداری کرتے رہو، اور آپس میں تنازع نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا  اکھڑ جائے گی” (الانفال 46)

5. ” اللہ کی طرف رجوع کرتے رہو اور اسی سے ڈرو اورنماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا۔ ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے دین میں فرقے بنالئے اور گروہوں میں بٹ گئے، ہر گروہ اسی چیزمیں مگن ہے جو اس کے پاس ہے” (الروم 31-32)

ظا ہر ہے قران کی مندرجہ بالا آیات کی تفہیم کے لیے کسی تفسیر کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہاں تمثیلات اور تشبیہات کا کوئی معاملہ نہیں کہ ہرآیت بالکل عام فہم زبان میں وضاحت   کے ساتھ بیا ن کردی گئی ہے۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ قران کے اتنے واضح اور  دوٹوک احکامات کے باوجود اگر ہماری مذہبی دانش گاہیں،  دینی تنظیمیں، ہمارے علمائے کرام اور فقہا ئے عزام اپنی علاحدہ شناخت پر بضد ہیں تو اس کا جواز کیا ہے؟

ہمیں ایک نبی کی امت مسلمان ہونے کے بجائے اپنے شیعہ،  سنی،  دیوبندی،  بریلوی،  اہلِ حدیث، اہل سنت  اور نہ جانے اس طرح  کی غیر قرانی اصطلاحوں پر اس قدر اصرار  ہے  تو اس  کا  ماخذ کیا ہے؟  کیا  قران ہمیں اس بات کی اجازت فراہم کرتا ہے کہ ہم گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہوکر اپنی مسجدیں،  مدرسے اور مجلسیں علیحدہ آباد کرلیں؟ کیا قران کریم کے مقدس صفحات میں  کسی شیعہ، سننی،  دیوبندی،  بریلوی فرقوں کے وجود کا کوئی جوا ز پا یا جاتا ہے ؟  کیا یہ اصطلاحیں غیر قرانی  اصطلاحوں کو رواج نہیں دے رہی ہیں ؟ اور نئے دین کے بنیاد کی وجہ نہیں بن رہی ہیں؟ کیا اس سے فرقہ واریت اور منافرت میں اضافہ نہیں ہورہا ہے؟

قران کے اِن مقدس آیات کو  حفظ کرلیں۔ چاہیں تو فریم کر اپنے گھروں کی دیواروں پر آویزاں کر دیں۔ کوئی آپ کومسلک اور فرقےکے نام پر گُمراہ کرنے کی کوشش کرے تو اُسے قران کریم کی یہ  آیات مبارکہ پیش کردیں اور خود کو کسی فرقے سے منسلک کرنے کے بجائے محض مسلمان  ہونے پر اکتفا کریں کہ یہی قرآن کو مقصود ہے اور یہی نجات کا راستہ ہے۔ یقین جانیں اس سے بہتر اسلام کی تبلیغ اور اتحاد اُمت کی کوئی اور جہت نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ فلاح کا کوئی اور راستہ نہیں۔ کوئی زبان سے تسلیم کرے نہ کرے مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں شدید مخاصمت اور منافرت کا لاوا تیار ہورہا ہے اور دشمن اس اندرون خانہ دبی چنگاری کو ہوا دینے کی تاک میں ہے۔ حرکت کیجیئے قبل اس سے کے دیر ہوجائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    فرقہ پرست مولویوں کاطریقہ_
    پاک و ہند کے مختلف فرقوں کے علماء حضرات جب اپنی عوام کو کسی کے خلاف ابھارنا چاہتے ہیں تو ان کا طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہے۔
    1–سلفی کہتے ہیں یہ مشرک ہے کیونکہ ان کا سارا زور ہی توحید پرہوتا ہے۔

    2–بریلوی کہتے ہیں یہ گستاخ رسول ہے کیونکہ ان کا سارا زور شان رسالت پر ہوتا ہے۔

    3—دیوبندی کہتے ہیں یہ گستاخ صحابہ ہے کیونکہ ان کا سارا زور شان صحابہ پر ہوتا ہے

    4–شیعہ کہتے ہیں یہ گستاخ اہل بیت ہے کیونکہ وہاں سارا زور شان اہل بیت پر ہی دیا جاتا ہے۔

    اس لیے سادہ لوح مسلمانوں کو ان کی چالوں سے بچنا چاہیے۔ ان کے کہنے پر کسی پر فتوے نہیں دینے چاہیئیں اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے براہ راست قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ نے حکم دیا ہے۔

    ”میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر ان کو تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔
    1–اللہ کی کتاب
    2–میری سنت۔

تبصرے بند ہیں۔