مسئلہ رویت ہلال: اسباب اور تدارک

سید سعادت اللہ حسینی

رمضان المبارک کی شروعات کے موقع پر رویت ہلال کے حوالہ سے جو ہنگامہ بپا ہوا تھا، اس پر میں نے ایک نوٹ لکھا تھا، جو نیچے منسلک ہے:

https://www.facebook.com/sadathusaini/posts/10155673968803215

عید الفطر کے موقع پر امید تھی کہ ایسی افراتفری نہیں ہوگی کیونکہ ماہرین فلکیات کے حساب سے ہندوستان میں جمعرات کی شام شوال کا چاند نطر آنے کا امکان بہت کم تھا۔ چنانچہ دیر رات تک پورے ملک سے یہی خبریں آئیں کہ چاند نطر نہیں آیا اور متعدد ہلال کمیٹیوں کے اعلانات بھی آگئے۔ لیکن رات دیر گئے متضاد خبریں آنی شروع ہوئیں اور صبح ہوتے ہوتے اچھا خاصا کنفیوژ ن ہوگیا اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر پھر ہنگامہ اور علماء اور رویت کمیٹیوں پر لعن طعن اور خود ملامتی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ علما ء سے زیادہ افسوس، امت کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ہوتا ہے۔ اس علمی دور میں انٹرنیٹ کی سہولتوں سے لیس ہمارے نوجوان بڑ ے بڑے دعوے کرنے سے پہلے اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ دو چار علمی مقالے متعلقہ موضوع پر دیکھ لیں یا کم از کم گوگل کرکے ہی کچھ پڑھ لیں۔

ماہرین فلکیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رویت ہلال کی درست پیشنگوئی اب تک سائنسی لحاظ سے ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں متعدد حوالے نقل کئے جاسکتے ہیں۔ اس طرح کی درست پیشنگوئی کا نظام بنانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ نہ مسلم سائنسدان خاموش بیٹھے ہوئے ہیں اور نہ علماء۔ ملیشیا، ترکی، سعودی عرب، امارات وغیرہ متعدد جگہوں پر نہایت اعلی درجہ کے تحقیقاتی مراکز گذشتہ کم از کم چالیس برسوں سے اس کام میں مصروف ہیں۔ یہ بہت ہی پیچیدہ سائنس ہے۔پروفیسر محمد الیاس( جو اس موضوع کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ہیں، اور ملیشیا میں ایک پورا ادارہ اس مقصد کے لئے چلے جارہے ہیں)کہتے ہیں کہ آئندہ کئی سالوں تک حقیقی رویت ہلال کا ڈاٹا جمع کرنا ہوگا اور اس کا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد غلطیوں سے پاک پیشنگوئی کا نظام تشکیل پانے کی امید ہے۔ جو دوست جیومیٹری اور ریاضی کی دوسری شاخوں کا علم رکھتے ہیں وہ پروفیسر الیاس کا بصیرت افروز مقالہ (رائیل اسٹرانامیکل سوسائٹی کے جرنل میں شائع شدہ) ہارورڈ یونیورسٹی کی سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں:

http://adsbit.harvard.edu/…/1994QJRAS..35.…/0000425.000.html

اس مقالہ سے ان پیچیدگیوں کا اندازہ ہوتا ہے جو فلکیاتی بنیادوں پر ہلال کی درست پیشنگوئی کے سلسلہ میں درپیش ہیں۔ پروفیسر الیاس اکیلے نہیں ہیں۔ ایسے درجنوں ماہرین ہیں جو اپنی زندگیاں اس کام کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں۔ان حضرات کی متعدد کانفرنسیں ہوچکی ہیں جن میں اس طرح کے ماہرین کے علاوہ علماء اور حکومتوں کے ذمہ داران شریک ہوتے رہے ہیں۔ ہر کانفرنس میں کچھ باتوں پر اتفاق ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ برابر آگے بڑھ رہا ہے۔ چند سال پہلے مکہ مکرمہ میں جو کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس میں ماہرین فلکیات اور علماء نے تفصیلی مذاکرات کے بعد یہی فیصلہ کیا تھا کہ آج بھی رویت کی بنیاد ہی پر اسلامی مہینوں کی شروعات ممکن ہے البتہ فلکیات کی تحقیق جاری رہنی چاہیے۔ اس کانفرنس کی تفصیلات کے لئے دیکھئے ۔

http://www.feqhweb.com/vb/t12679.html

یہ نوٹ گہری تفصیلات کا متحمل نہیں ہے لیکن یہ بات ہم کو معلوم ہونی چاہیے کہ اس سمت ٹھوس کوششیں ہورہی ہیں۔ان سب کو جانے بغیر لعن طعن اور نعرے بازی بہت ہی سطحی رویہ ہے۔

اب کچھ باتیں اس ماہ کے قضیئے کے حوالہ سے:

1۔ جب تک مذکورہ کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں اور غلطیوں سے پاک رویت ہلال کی پیشنگوئی کا ایسا نظام تشکیل نہیں پاجاتا جو علما ء اور ماہرین فلکیات کے نزدیک درست ہو، ہمارے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم رویت پر یعنی آنکھ سے دیکھنے پر انحصار کریں۔

2۔ رویت ہلال کی کوشش ہر مسلمان کو کرنی چاہیے لیکن اس سسلسلہ میں شہادتوں کو سننے ، قبول یا رد کرنے اور فیصلہ کرنے کا اختیار اصحاب امر کو ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی واضح ہدایت موجود ہے کہ صومکم یوم تصومون و فطرکم یوم یفطرون۔ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ روزہ و عید کا فیصلہ فرد کی ذاتی رویت یا ذاتی شہادت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اجتماعی فیصلہ کی بنیاد ہی پر ہوسکتا ہے۔ اصحاب امراگر ممکنہ کوشش کے باوجود غلطی کرتے ہیں تو اس اجتہادی غلطی کا بھی ثواب پائیں گے اور اگر کوتاہی کرتے ہیں تو اس کی سزا پائیں گے۔ لیکن عوام کا یہ کام نہیں کہ وہ اس معاملہ کو خود اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اور ہر ایک اپنے طور پر روزہ رکھنے یا توڑنے کے فتوے دینا شروع کردے۔ ہمارے پاس شہادت ہے یا ہمار ا کوئی موقف ہے یا کوئی دلیل ہے تو اُسے اہل امر کے پاس پیش کریں، اپنی معقول بات انہیں سمجھانے کی ممکنہ کوشش کریں اور پھر ان کے فیصلہ کو قبول کریں۔ دنیا میں اجتماعی فیصلوں کا یہی طریقہ ہے اور یہی شریعت کی بھی تعلیم ہے۔اس سلسلہ میں عام مسلمانوں کی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ آپ کا تیسویں تاریخ کا روزہ اس وقت حرام ہوگا جب شوال کی رویت ثابت ہونے اور اس کا اعلان ہونے کے باوجود آپ نے روزہ رکھا۔روزہ ا ورعید تو ہمیں اجتماعی فیصلہ کے تحت ہی کرنا چاہیے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی کے جس عالمی اجلاس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، اس میں بھی مسلمانوں کو یہی ہدایت دی گئی ہے۔ اگر نماز میں اما م غلطی سے قعدہ میں بیٹھنے کی بجائے کھڑا ہوجائے تو آپ لقمہ ضرور دیتے ہیں لیکن پیروی امام ہی کی کرتے ہیں۔ نماز کا یہ سبق ہم عملی زندگی میں کیوں نہیں سیکھتے؟

3۔ جہاں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں وہاں، اصحاب امر کے تعین میں کوئی دشواری نہیں۔حکومت یا اس کا قائم کردہ نظام موجود ہے اور اسلامی ملکوں میں عام طور پر اس سلسلہ میں کوئی دشواری بھی پیش نہیں آتی۔ لیکن غیر مسلم اکثریتی ملک میں بھی مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ جمعہ اور نماز کے نظام کی طرح رویت ہلال کا بھی شرعی نظام قائم کریں اور اسے اس معاملہ میں صاحب امر کی حیثیت دیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس طرح کا مستحکم نظام موجود نہیں ہے۔ لیکن جیسا کچھ بھی نظام ہے، اس کی قدر اور احترام چاہیے اور اسے مضبوط بنانے کی کوشش بھی ہوتے رہنا چاہیے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں مستحکم نظام بھی قائم ہے۔ میں حیدرآباد میں رہتا ہوں۔ یہاں رویت ہلال کے سلسلہ میں، میری یادداشت کے مطابق، کبھی افراتفری اور انتشار نہیں ہوا۔ رویت ہلال کمیٹی موجودہے، وہ شہادتیں سنتی ہے اورعشاء کے آس پاس فیصلہ کردیتی ہے اور سب اسے مان لیتے ہیں۔ غالبا کرناٹک، تمل ناڈو، کیرلہ اور بہار میں بھی عام طور پر اختلافات نہیں ہوتے۔ جن ریاستوں میں مستحکم نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے اختلافات اور کنفیوژن ہوتا ہے، وہاں بھی تمام مسالک کے لوگوں کو لے کر ایسی کمیٹیاں بن جائیں تو کم سے کم ریاستی سطح پر رویت کا نظام تو فوری قائم ہوسکتا ہے۔اور یہ کوشش بھی آسانی سے کی جاسکتی ہے کہ پورے ملک کا مشترکہ نظام تشکیل پائے۔ شہادتوں کو سننا وغیرہ اسی کا کام ہو اور اس کا فیصلہ تمام مسلمان قبول کرلیں۔اس طرح کی کمیٹیوں کے لئے ضروری گائیڈ لائین وغیرہ تیار شدہ موجود ہیں۔ اس پر کافی کام ہوچکا ہے۔ ضرورت بس یہ ہے کہ تمام مسالک کے معتمد علیہ علماء و قائدین کی کوئی کمیٹی تشکیل پاجائے اور وہ ان گائیڈ لائن کی بنیاد پر ہمارے ملک میں واحد اجتماعی نظام قائم کردے۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے نہایت پیچیدہ اور حساس مسائل پر ایسے مشترکہ فورم قائم کئے اور انہیں چلایا ہے۔ یہ مسئلہ تو بہت معمولی مسئلہ ہے۔

4۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے علماء اور رویت ہلال کمیٹیوں کو رویت ہلال کی سائنس سے بھی واقف کرایا جائے۔ یا کمیٹیوں میں ایسا کوئی آدمی بھی لازما ًشریک ہو، جو اس فن سے واقف ہو۔ ریاضی کا مناسب علم رکھنے والا کوئی بھی ذہین نوجوان ، اس مضمون کی اچھی خاصی ٹریننگ آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔ بہت سے علما یہ مانتے ہیں کہ علم فلکیات شہادتوں کا نعم البدل تو نہیں بن سکتا لیکن غلط یا ناقص شہادتوں کو مسترد کرنے میں اس سےآج بھی کافی مدد مل سکتی ہے اور لینی چاہیے۔ ہلال کی رویت کے لئے جو معروف فلکیاتی پیمانے ہیں ان کی رو سے جمعرات کی شام (ساحلی علاقوں کے ماسوا) رویت تقریبا ناممکن تھی۔ رویت کا بہت معمولی امکان تھا تو وہ ملک کے انتہائی جنوبی علاقوں میں تھا۔ بقیہ ملک میں زیادہ تر جگہوں پر تو moonsetlag کا معیار بھی پورا نہیں ہورہا تھا۔ (جو رویت کا کم سے کم معیار ہے)۔ ایسے حالات میں شہادتوں کا معیار عام شہادتوں سے مختلف ہونا چاہیے اور دو چار لوگوں کی شہادت ناقابل قبول ہونی چاہیے۔ چنانچہ بعض علما کے فتوے موجود ہیں کہ ایسے حالات میں شہادت کا وہی معیار ہوگا جو فقہاء نے مطلع صاف ہونے کی صورت میں رکھا ہے یعنی اس قدر کثیر لوگ چاند دیکھیں کہ ان کو غلط سمجھنا ناممکن ہو۔اس لئے کہ رویت ہلال بعض اوقات بڑی باریک بینی کا تقاضہ کرتی ہے اور ایسے معاملہ میں عادل گواہوں کی نظریں بھی دھوکہ کھاسکتی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔