فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

سولہویں صدی عیسوی میں پروٹسٹینٹ پادری مارٹن لوتھر نے کلیسا (Church) اور ان مذہبی رہنماؤں کی اصلاح کی تحریک چھیڑی،جو کتابِ مقدس عہدِ قدیم (توریت)اور عہدِ جدید (انجیل) کی تشریح وتبیین کواپنا موروثی حق سمجھتے تھے، اس کے نتیجے میں ہر پروٹسٹینٹ کو شخصی طور پر کتابِ مقدس کی نصوص کو سمجھنے اوراپنی فہم و بصیرت کے مطابق ان کی توضیح کی آزادی حاصل ہوگئی۔
مارٹن لوتھر کے اس انقلابی اقدام کے بعد عہدِ قدیم (توریت) پروٹسٹنیٹ عیسائیوں کے لیے یہودیوں کی تاریخ ہی نہیں ؛بلکہ خود عہدِ جدید (انجیل ) کے مفاہیم تک رسائی کا بھی اہم ذریعہ بن گیا اور عبرانی زبان، جس کا سیکھنا ایک یہودیانہ عمل اور احمقا نہ مشغلہ سمجھا جاتا تھا، اب یو رپی تہذیب کا ایک اہم جز سمجھی جانے لگی اور اسے مذہبی تعلیم کے نصاب میں شامل کرلیا گیا ، حتی کہ سولہویں صدی کے اخیر میں عبرانی زبان طباعت کی زبان ہوگئی اور عبرانی ۔یہودی روح یورپی علوم وفنون سے گذر کر یورپی تہذیب وثقافت تک میں سرایت کرگئی ؛چنانچہ فن کار (Artist) کتابِ مقدس کی تصویریں بنانے لگے اور عہدِ قدیم کے افسانوں او رکہانیوں نے اُن ڈراموں کی جگہ لے لی ، جو گذشتہ مسیحی بزرگوں کی زندگیوں کے خاکے پیش کرتے تھے اور اس طرح یہودی افکارو تصورات مسیحی عقائد ونظریات کی جڑوں تک سرایت کرگئے۔
لوتھر کی برپا کردہ اس تحریک کے نتیجے میں جو یہودی افکار وخیالات مسیحی مذہب میں درانداز ہوئے ان کے مرکزی محور تین تھے:
(۱) یہود اللہ کے محبوب ترین بندے ہیں ۔
(۲) ارضِ فلسطین یہودیوں کے لیے عطیۂ خداوندی ہے اور اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ بہ تمام وکمال انھیں حاصل ہو کر رہے گی۔
(۳) قُربِ قیامت میں حضرت عیسیؑ کا نزول اس لیے ہوگاکہ وہ ساری دنیاکے یہودیوں کو ارضِ فلسطین میں لابسا ئیں۔
پروٹسٹینٹ عیسائیوں کا یہ اعتقاد بن گیا کہ فلسطین میں یہودانِ عالم کی آباد کاری اور صہیونی حکومت کے قیام میں حتی الوسع مساعدت منشاے ایزدی ہے؛ تاکہ یہ کام حضرت عیسیؑ کے نزول تک پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے ۔
حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان محض کُشت وخون کا تعلق تھا؛ چنانچہ برطانیہ کے شاہ’’ جان ملک ‘‘نے اپنے دورِ اقتدار میں یہ عمومی حکم صادر کررکھا تھا کہ ملک کے گوشے گوشے سے تمام یہودیوں کو گرفتار کرکے پسِ دیوارِ زنداں ڈھکیل دیا جائے، اسی طرح’’ ہنری سوم‘‘ نے اپنے زمانے میں یہودیوں کو پکڑ پکڑ کر سخت سزائیں دیں اور وہ ان سے زبردستی ٹیکس وصول کرتاتھا،اس کی معقول وجہ بھی تھی کہ برطانیہ میں مقیم یہودی اپنی فطری خسّت اور ہوسِ زرکی کی آسودگی کی خاطر برطانیہ کے مالی بجٹ کو کافی خسارے سے دوچار کررکھا تھا۔
فرانس کے حکمراں’’لوئس آگسٹس ‘‘نے اپنے عہدِ حکومت میں تمام یہودیوں کو ملک بدر کردیا تھا اور ان کی تمام مذہبی کتابیں (بالخصوص تلمود) نذرِ آتش کردی تھیں۔
اس کے علاوہ یورپ کے بہت سے مسیحی ممالک ایسے تھے ، جہاں یہود یوں کو زبردستی عیسائی بنایا جاتا ،ورنہ ان کی آنکھیں پھوڑ دی جاتیں ، اعضائے جسمانی کاٹ ڈالے جاتے ، قید خانوں کی تاریک کو ٹھریوں میں ڈال دیا جاتا اور ان پر ایذا رسانی وتعذیب کے گونا گوں طریقے آزمائے جاتے ، تاریخ کے اوراقِ پر یشاں میں یہ حقائق پوری طرح ثَبت ہیں۔
پھر یہودیوں کے تئیں نفرت وکراہیت کی یہ عام فضا صرف سیاسی طبقوں ہی تک محدود نہ تھی؛بلکہ قرونِ وسطیٰ کے مذہبی وادبی طبقوں میں بھی ایسے لوگوں کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی تھی، جن کا کام صبح وشام یہودیوں پر نفر ین بھیجنا تھا، اسی جماعت کا ایک شاعر یہودیوں کے تئیں اظہارِ نفرت کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’یہ( یہود) حقیر ، بدبو دار ، بے حیا اور حاسد لوگ ہیں، یہ بیماریوں کو پھیلانے والے ، کہتر ، بے کار، ناپسندیدہ اور خسیس لوگ ہیں، یہ گندے ، بخیل ، عداوت پیشہ ، تنگ ظرف ، احسان فراموش اور دشمنی میں حد سے گذرنے والے لوگ ہیں ، شرافت وایمان داری اور قسم و عہد کی پاسداری کو انہوں نے پوری ڈھٹائی سے بیچ دیا ہے ‘‘۔
پو پ پو لوس چہارم (Paul-IV) کا قول ہے کہ :
’’یہ لوگ صرف غلامی کی زندگی گذارنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ،یہ انتہائی ذلیل لوگ ہیں ‘‘۔
یہودیوں کے ساتھ مسیحی تعلقات کی یہی نوعیت صدیوں تک بر قرار رہی ، تا آں کہ لوتھر کی انقلابی تحریک نے عیسائیوں کے افکار وخیالات اور یہودیوں کے تئیں ان کے عام رجحانات بدل ڈالے ، حتیّٰ کہ ارضِ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری افسانوی روایت سے ایک ایسے مسلَّم عقیدے میں تبدیل ہوگئی، جس کا تعلق ظہورِ مسیحؑ سے جوڑ دیا گیا (عیسائیوں کے پیش رو مذہبی رہنما یہودیوں کی فلسطین میں اقامت گزینی کے عقیدے کو افسانے سے زیادہ کا درجہ دینے کو تیار نہ تھے) اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب لوتھر نے عہدِ قدیم ( توریت) پر مذہبی اشخاص کی اجارہ داری کے خاتمے کا اعلان کردیا، تو یہود یوں نے عام عیسائیوں میں پورے شدومد کے ساتھ اپنی ان من گڑھت روایتوں کی تشہیر شروع کردی، جو انھیں معزز اور محبوبینِ بارگاہِ الٰہ ثابت کرتی تھیں، اور سرزمینِ قدس کو ان کے لیے عطیۂ خداوندی قرار دیتی تھیں۔
اس طرح ارضِ فلسطین عیسائی ویہودی ہر دو فرقوں کا مذہبی ودینی ورثہ ٹھہرا ، عام مسیحیوں کا موقف بدلا ، یہود ونصاریٰ کے راستے ایک ہوگئے ، دونوں نے ہاتھ سے ہاتھ اور کندھے سے کندھا ملایا ، سرزمینِ قدس پر اسرائیلی حکومت کی تاسیس وتوسیع کو عیسائی دنیا اپنا مذہبی فریضہ سمجھنے لگی اور تبھی سے ہم مسلسل مشاہدہ کررہے ہیں کہ وہ کس بے حیائی وبددیانتی کے ساتھ عالمی دہشت گرد اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔
1954ء میں امریکی سفیر برائے اسرائیل کا یہ بیان اس حقیقت سے اچھی طرح پردہ اٹھاتا ہے، جس میں اس نے یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’آپ کی حکومت کی اساس گذاری میں ہماری حکومت نے جو تعاون اور خدمات پیش کی ہیں ،ہمیں ان پر فخر ہے اور ہم سب (یہود ونصاریٰ ) پر جو اپنی تہذیب وثقافت اور انبیائے بنی اسرائیل کے الہامات پر یقین رکھتے ہیں، ارضِ قدیم ( فلسطین ) پر ایک نئی قوم اور ایک جدید حکومت کی تشکیل واجب ہے ‘‘۔
ان دونوں کا یہی مشترکہ دینی ورثہ موجودہ عیسائی -یہودی تعلقات کا اصل سبب ہے ، جن میں مرورِ ایام کے ساتھ مزید استحکام آرہا ہے اور جوآئے دن پیش آنے والے حادثات وواقعات سے اور روشن ہورہے ہیں ۔
اس کے علاوہ موجودہ عیسائی -یہودی تعلقات کو توانائی بخشنے والے اور بھی اسباب ہیں ، جن میں ایک اہم ؛ بلکہ بہت حد تک مرکزی سبب دونوں کی مشترکہ اسلام دشمنی اوراسلامی بیداری کا مشترکہ خوف ہے۔
یہود ونصاریٰ کی اسلام دشمنی توان کا قدیم آبائی سرمایہ ہے، جس کی طرف قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر اشارہ کیا ہے ،اوراس دشمنی کی وجہ مسلمانوں کاوہ امتیاز و تفوق ہے،جو انھیں رہتی دنیا تک کے لیے تمام اقوامِ عالم پر حاصل ہے۔
1967ء میں امریکی وزارتِ خارجہ کے پالیسی ساز ادارے کے سربراہ کا یہ بیان یہود ونصاریٰ کی ازلی اسلام دشمنی کا سچا آئینہ دار ہے جس میں اس نے پوری صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ :
’’ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ مذہبی روایات ، عقائد اور نظامِ حکومت کے حوالے سے مغربی دنیا کے تکمیلی جز کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے اسے مشرقی اسلامی دنیا ؛ بلکہ دینِ اسلام ، اس کے افکار ونظریات اور اس کے عقائد کی مخالفت کرنے اور صہیونی حکومت کی موافقت میں کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا ؛کیوں کہ اگر امریکہ اس کے خلاف کوئی موقف اختیار کرتا ہے ،تو یہ اس کے سیاسی ہی نہیں؛ بلکہ لسانی ، روایتی ، تہذیبی اور مذہبی تشخصات کی بھی خلاف ورزی ہوگی ‘‘۔
ایک سابق برطانوی وزیر اعظم کا یہ بیان بھی چو نکادینے والا ہے کہ :
’’ہم کبھی بھی بو سینیا اور ہرزے گو وینا کے مسلمانوں کو مسلح نہیں دیکھ سکتے ، ہم اقوامِ متحدہ پر مسلسل دباؤ بنائیں گے کہ وہ بوسینیا کے مسلمانوں کو اسلحہ رکھنے سے روکے اور مسلم حکمرانوں کو فرضی امن مذاکرات میں الجھائے رکھے؛ تاکہ کوئی بھی مسلم ملک ان کی امداد کے حوالے سے کسی نوع کی سرگرمی نہ دکھاسکے‘‘۔
قد آور اسرائیلی رہنما ’’ڈیوڈبن گارین‘‘کے اس بیان سے بھی یہود ونصاری کی مشترکہ اسلام دشمنی اور اسلامی بیداری سے ان کے خوف کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے :
’’ہمیں سب سے زیادہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں عالمِ عربی میں پھر کوئی محمد (فداہ ابی وامی) نہ پیدا ہوجائے ‘‘۔(یعنی کوئی ایسا مردِ جگر دار ، جو آپؐ کے پیغامات وتعلیمات کو لے کر اٹھے اور عالم پر چھاجائے)
اسلام کے تئیں پوری دنیائے مغرب کے یہود ونصاری کی یہی نفسیات ہیں ، خواہ سیاسی سطح پر ہوں یا مذہبی وعوامی پیمانے پر ،گوکہ اسلامیانِ عالم کے قائدین یا تو اس حقیقت سے بے خبر ہیں یا اگربا خبر ہیں، تو خوابِ غفلت سے بیداری ان کے لیے’’ کارے دارد!‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ اوردیگر اسلامی خطوں کے تئیں ایک عرصے سے دوغلی اور منافقانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے،حالیہ دنوں میں اس کی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں،شامی خانہ جنگی کے تعلق سے اس کا دوہرا رویہ جگ ظاہر ہے ،کہ ایک طرف وہ شامی حکومت کو ہلاکت خیز ہتھیار حوالے کرنے کو کہتا ہے اور دوسری جانب اس کی پسِ پردہ حمایت بھی کرتا ہے،مصر میں2011ء کے انقلاب کے بعد جمہوری طورپر منتخب حکومت کو بے دخل کرنے کے لیے وہاں کے لادینی لبرل انقلابیوں پرڈالروں کی بارش کرتا ہے ،تاکہ خطے میں صلیبی صہیونی مفادات کے حصول میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے ،بہ ظاہر وہ فلسطینی اتھارٹی اوراسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کی کوشش کرتا ہے(جس کے لیے صرف 2014-15 کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ نے مشرقِ وسطیٰ کے دس دورے کیے)اوردوسری جانب جان کیری یہ بھی کہتے ہیں کہ مذاکرات میں اسرائیل کی سلامتی کو ملحوظ رکھاجائے ۔ایک اور چیز ہے، جو صدیوں سے باہم دست وگریباں رہنے والے یہود ونصاریٰ کی حیرت انگیز دوستی اور اتحاد کے اہم عامل کی حیثیت رکھتی ہے اور و ہ دنیائے مغرب کے مرکز ی اداروں اور مسیحی معاشروں پر یہودیوں کا زبردست اثر و نفوذ ہے ۔
2014کے اعدادوشمارکے مطابقپوری دنیامیں پائے جانے والے یہودیوں کی مجموعی تعداد14.2ملین ہے،جس میں سے 6042000(ساٹھ لاکھ بیالیس ہزار) اسرائیل کی آبادی ہے،جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں یہودیوں کی مجموعی آبادی اسرائیل کی آبادی سے بھی زیادہ 6800000(اڑسٹھ لاکھ )ہے، جو امریکہ کی کل آ بادی کابیس فیصد ہے اور وہ وہاں کے تمام حساس سیاسی،مذہبی و اقتصادی عہدوں پر فائز ہیں مثلاً :وزارتِ خارجہ ، وزارتِ صحت ، وزارتِ تعلیم وتربیت ، ہائی کورٹ کی سربراہی، امورِ خارجہ کے مشاورتی بورڈ کی رکنیت ، مجلسِ عاملہ کی سربراہی ،وہائٹ ہاؤس کے مشاورتی بورڈ کی رکنیت ، وہائٹ ہاؤس کے مذہبی امور کی سرپرستی اور متعدد اقتصادی اداروں کی قیادت وغیرہ ،اسی طرح امریکی یہودی وہاں کے صدارتی انتخابات کی تمام تر سرگرمیوں میں حیرت انگیز حد تک سرمایہ کاری کرتے ہیں؛ تاکہ منتخب ہونے والا صدر اپنی ہر حرکت وعمل میں ان کے اشارۂ ابرو کا پابند رہے۔
امریکہ میں سب سے زیادہ مضبوط معیشت یہودیوں ہی کی ہے ۔اسی طرح مغربی ذرائعِ ابلاغ ، جو رائے عامہ ہموار کرنے اور پوری دنیا کے انسانوں کے افکار وخیالات سے کھلواڑ کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں، ان پر بھی تسلط جمانے اور اپنی خواہش کے مطابق رائے عامہ کی تشکیل میں یہودی پوری طرح کامیاب ہیں ؛ چنانچہ یومیہ شائع ہونے والے کل امریکی اخبارات 1759 کے نصف پر تو اُنھیں بہ راہِ راست اور عملی طور پر اثر ونفوذ حاصل ہے ، جبکہ بقیہ نصف پر ان کا کنٹرول جزوی ہے ، امریکہ کے مشہور اخبارات ’’نیویارک ٹائمز ‘‘،’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘،’’ ٹائم‘‘ ،’’ نیوز ویک‘‘ ؛ ان سب کا فکری سانچہ از سر تا پا یہودیت میں ڈھلاہوا ہے، اس کے علاوہ پچاس فیصد امریکی نشر یاتی ادارے بہ تمام وکمال ان کے قبضہ وتصرف میں ہیں……یہ وہ اَسرار واسباب ہیں ، جن کی وجہ سے مغربی دنیاخواہی نخواہی اسرائیل کے دست وبازو کو تقویت پہنچانے میں مصروف ہے اور وہ ہے کہ …ع
بناہے شَہہ کا مصاحب، پھر ے ہے اِتراتا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔