قرآن کا پیغام والدین کے نام – باپ بیٹے کے تعلقات (6)

’’اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَباً وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَأَیْتُھُمْ لِیْ سَاجِدِیْنَ۔قَالَ یَآ بُنَیَّ لاَ تَقْصُصْ رُءَ یَاکَ عَلیٰٓ اِخْوَتِکَ فَیَکِدُوْا لَکَ کَیْداً۔ اِنَّ الشَّیْطٰانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔ وَ کَذَلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَ یُعَلَّمُکَ مِنْ تَأوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَ عَلیٰ آلِ یَعْقُوْبَ کَمَا اَتَمَّھَا عَلیٰ اَبْوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْحَاقَ اَنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘‘ (سورۂ یوسف: 4۔6)

ترجمہ:151 ’’جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا :’ابا جان ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں ‘ جواب میں ان کے باپ (یعقوب) نے کہا ’بیٹا! اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے در پے آزاد ہو جائیں گے‘ ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے ۔ اور ایسا ہی ہوگا۔(جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لئے ) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائے گا اور تیرے اوپر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں ابراہیم (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) پر کرچکا ہے۔ یقیناًتیرا رب علیم اور حکیم ہے‘‘۔
ان آیات میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا ایک سین بیان کیا گیاہے ۔ یوں تو حضرت یوسف علیہ السلام کے پوری زندگی کے واقعات کو ’’بہترین قصے‘‘ قرار دیا گیاہے۔ لیکن ان تمام قصوں کی ابتداء اسی سین سے ہوئی ہے۔ اس لئے یہ سین کچھ زیادہ ہی اہم ہے۔ اس سین سے عملی زندگی کے متعلق بہت سی حقیقتیں سامنے آتی ہیں لیکن اس وقت میں صرف باپ بیٹے کے تعلقات کے حوالے سے کچھ اہم پہلوؤں کو اجاگر کرنے پر اکتفا کروں گا۔
(1) باپ بیٹے کے درمیان گہرا تعلق ہونا چاہئے :
آج کل ہمارے یہاں باپ بیٹے کے درمیان گہرا تعلق نہیں پایا جاتا۔ کچھ تو مشرقی روایات کی وجہ سے اور کچھ حد سے زیادہ مصروف زندگی کی وجہ سے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عموماً بیٹا اپنے مسائل باپ سے بتاتے ہوئے ہچکچاتا ہے ، وہ اپنے دوستوں سے بتاتا ہے ، غیر متعلق افراد کے سامنے بیان کرتا ہے لیکن باپ جو سب سے زیادہ توجہ ، اخلاص اور شفقت کے ساتھ اس کا مسئلہ حل کرسکتا ہے اس کے سامنے اپنے مسائل بیان کرتے ہوئے گھبراتا ہے ۔ اس کا سبب باپ بیٹے کے درمیان تعلقات کی کمزوری ہے۔ اگر تعلقات مضبوط بنائے جائیں تو بیٹا اپنا ہمدرد مشفق اور مشکل کشا سمجھ کر ہر مسئلہ بلا تکلف باپ کے سامنے پیش کرکے رہنمائی حاصل کرنے لگے گا جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بچپن میں ایک خواب دیکھا لیکن خواب کی تعبیر سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ ایک مسئلہ تھا جو حل نہیں ہورہا تھا۔ چنانچہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے انہیں باپ سے زیادہ کوئی اور بہی خواہ نظر نہیں آیا چنانچہ انہوں نے بلا تکلف یہ مسئلہ باپ کے سامنے پیش کردیا اور ان سے رہنمائی حاصل کی اور ایسا انہوں نے صرف اور صرف باپ سے قرب اور گہرے تعلق کی بنا پر کیا۔ اگر ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بیٹے مسائل سے پریشان نہ ہوں ، انہیں مسائل سے نجات ملے اور صحیح رہنمائی فراہم ہو۔ تو پھر ہمیں اپنے بیٹوں سے گہرا تعلق پیدا کرنے کی شعوری کوشش کرنی چاہئے ۔
(2) مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرنا:
باپ کی خیر خواہی اور فکر مندی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ بیٹوں کو مستقبل کے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد (حضرت یعقوب علیہ السلام ) نے جب خواب سنا تو انہوں نے بھانپ لیا کہ یوسف کا مستقبل روشن ہے۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی خیال آیا کہ یوسف کے روشن مقتبل کو دیکھ کر ان کے سوتیلے بھائیوں کے اندر حسد پیدا ہو جائے گا ، وہ یوسف کے خلاف چالیں چلیں گے اور اسے تکلیفیں پہنچائیں گے۔ چنانچہ اسی خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتائیں۔
بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کے خطرات اور نقصانات کا اندازہ نوخیز نسل اور نیا ذہن نہیں لگا سکتی اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کو پہلے ہی ان خطرات سے آگاہ کردیں تاکہ وہ محتاط رہیں اور بچنے کی تدابیر اختیار کرسکیں۔ یہ خیال کرکے چھوڑ دینا کہ وہ خود ٹھوکر کھا کر سنبھل جائیں گے مناسب نہیں کیونکہ جہاں معمولی نقصان سے بڑا تجربہ حاصل ہورہا ہو وہاں تو ایسا کیا جاسکتا ہے لیکن جب بڑے نقصان کا اندیشہ ہوتو اس وقت چھوڑ دینا کنویں میں گرنے دینے کے مترادف ہے۔ ایسے مواقع پر ہر باپ کا فرض ہے کہ وہ خطرات سے ضرور آگاہ کرے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے مستقبل کے خطرات سے آگاہ کیا۔
(3) بہترین مستقبل کی امید دلانا:
آثار و قرآئن کی بنیاد پر اولاد کو بہترین مستقبل کی امید دلانا چاہئے اس سے حوصلہ ، جذبہ پیدا ہوتا ہے اور قوت عمل کو تقویت ملتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے صرف خواب دیکھا تھا۔ عملاً کوئی سرگرمی نہیں تھی لیکن خواب بہترین مستقبل کی نشاندہی کررہا تھا چنانچہ اسی بنیاد پر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ کی مختلف عنایات کی امید دلائی ’’تیرا رب تجھے چن لے گا ، تجھے باتوں کی تہہ تک پہنچائے اور سکھائے اور ابراہیم علیہ السلام کی طرح تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا‘‘۔ یہ سن کر انہیں جوجذبہ و حوصلہ ملا ہوگا۔ اس کا بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔
آج بھی اگر ہم اپنی اولاد میں کوئی مخصوص جوہر محسوس کرتے ہیں تو اسے اپنی اولاد کے سامنے اجاگر کرناچاہئے ۔ اسے پروان چڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس سلسلے میں اسلاف کے نمونے بھی ان کے سامنے پیش کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی اپنی مخصوص صلاحیت کو محسوس کریں، اسے مزید نکھارنے اور اسے پروان چڑھانے کا حوصلہ پاسکیں۔

تبصرے بند ہیں۔