فریضۂ زکوٰۃ: عبادت بھی، ضرورت بھی

مولانا غیو راحمد قاسمی

قرآن کریم کی تعلیمات او رنبی اکرم صلی  اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام کی نظر میں انسان دنیا کے مال واسباب کا نہ خود اصل مالک ہے اور نہ محض اپنے ذاتی اختیار سے دنیوی دولتوں کو اکٹھا کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسلام یہ بتادینا چاہتا ہے کہ سارے وسائل واسباب کی باگ ڈور اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے رزق سے نوازے اور جس کو چاہے کنگال بنادے۔ اس کی مرضی کے بغیر نہ تو کوئی مالدار بن سکتا ہے اور نہ کسی کی مالداری کو کوئی چھین سکتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر (الرعد، ص۲۷)

’’اللہ کشارہ کرتا ہے روزی جس کو چاہے اور تنگ کرتا ہے‘‘۔

الغرض مالداری اور تنگ دستی محض اللہ کے اختیار میں ہے۔ مالداروں کو اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور غرور کرنے کا قطعاً حق نہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں ایک لمحہ میں نان شبینہ کا محتاج بنا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایاگیا۔

ما یفتح الہ للناس من رحمۃ فلا ممسک لہا وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہٖ وہو العزیز الحکیم (فاطر آیت ۲)

’’جو کچھ کھول دے اللہ لوگوں پر رحمت میں سے تو کوئی نہیں اس کو روکنے والا، اور جو کچھ روک رکھے تو کوئی نہیں اس کو بھیجنے والا اس کے سوائے، اور وہی ہے، زبردست حکمتوں والا‘‘۔

یہ اللہ کا فضل ہے:اب ہر مسلمان کو خصوصاً یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اسے جو کچھ بھی دولت وثروت ملی ہے اس کا اصل مالک وہ خود نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی مالک حقیقی ہے اور اس نے محض اپنے فضل وکرم سے ہمیں اپنی ملکیت میں بطور نیابت تصرف کرنے کا حق دے رکھا ہے۔ جب اللہ ہی اس کا مالک ہے او راسی کی قدرت کی بناپر ہمیں یہ نعمت میسر آئی ہے۔ تو اگر وہ اپنے بندوں کو یہ حکم کرتا کہ وہ اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں لٹادیں تو ہمیں شکایت یا اعتراض کا کوئی موقع نہ تھا۔ کیونکہ اس کی چیز ہے وہ جہاں اور جتنی چاہے خرچ کرے۔ مگر یہ بھی اس کا فصل ہے کہ اس نے جہاں ہمیں خرچ کرنے کا حکم دیا وہاں پورا مال نہیں بلکہ کچھ حصہ خرچ کرنا ضروری قرار دیا۔ قرآن کریم میں جہاں بھی ’انفاق فی سبیل اللہ‘ کا حکم دیاگیاہے وہاں ’’من‘‘ لاکر اس طرف اشارہ کردیاگیا کہ سارا مال خرچ کرنا مطلوب نہیں۔ بلکہ کچھ حصہ دے دینا کافی ہے۔ اور ساتھ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ ہم تمہارا مال نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ ہم نے جو تمہیں دیا ہے اسی میں سے تھوڑا سا حصہ لینا  چاہتے ہیں تاکہ دینے والے کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔دیکھئے، ارشادات خداوندی ہیں:

(۱) ومما رزقنہم ینفقون (البقرہ آیت۳) (۲) وانفقوا مما رزقہم اللہ (النساء ۳۹) (۳)وانفقوا مما رزقنہم سراً وعلانیۃ یرجون تجارۃ لن تبور (فاطر۲۹) ومنرمقناہ منا رزقاً حسنا فہو ینفق منہ سرا وجہرا (انفال ۳) (۶) وینفقوا مما رزقنہم سراً وعلانیۃ (ابراہیم ۳۱) ومما رزقنہم ینفقون، (انفال ۳) (۸) ومما رزقنہم ینفقون (حج ۳۵) القصص ۵۴۔ السجدہ ۱۶۔ الشوریٰ (۳۸) (۹) وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ (حدید۷)

ان جیسی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ کیا ہے کہ زکوٰۃ وغیرہ کا حکم کوئی ٹیکس نہیں کہ اسے بھاری سمجھاجائے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ اپنی ہی دی ہوئی ایک امانت تم سے مانگ رہا ہے۔ لہٰذااسے دینے میں تمہارے دل پر کوئی تنگی اور بوجھ نہ ہونا چاہئے۔ بوجھ یا تنگی تو اس وقت ہوتی جبکہ تمہاری ذاتی کوئی چیز تم سے مانگی جاتی۔

شکر ادا کیجئے:پہلے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کی قبولیت کی نشانی یہ تھی کہ صدقہ کا مال کسی جگہ رکھ دیا جاتا او رآسمان سے ااگ آکر اسے جلاکر خاکستر کردیتی گویا کہ صدقہ کا مال کسی دوسرے بھائی کے کام نہ آسکتا تھا۔ بلکہ اس کا آگ سے بھسم ہوجانا ہی اصل مقصود سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورہ مائدہ (آیت۲۷) میں حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں کے قصہ کے ضمن میں اس طرف اشارہ موجود ہے او ربعض احادیث سے بھی اسی مضمون کا علم ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امت مرحومہ پر یہ کرم فرمایا کہ اس سے زکوٰۃ کی شکل میں وصول کیاہوا مال اسی کے ضرورت مند افراد پر خرچ کردیاجاتا ہے سورہ توبہ (آیت ۶۰) میں صدقات کے مصارف بیان کئے گئے ہیں۔ اور حدیث میں فرمایاگیا ہے۔

توخذ من اغنیائہم وترد الی فقرائہم (مشکوٰۃ شریف ۱۰۰)

’’مالداروں سے لے کر فقیروں کو دیاجائے گا‘‘۔

اس حکم کی وجہ سے زکوٰۃ دینا اور آسان ہوگیا کہ ہم اپنے مال کو ضائع نہیں کررہے بلکہ اپنے ہی بھائیوں کی ضرورت پوری کررہے ہیں۔ اپنے محتاج بھائی کی حاجت روائی پر صرف کرنا دراصل اللہ تعالیٰ ہی کو دینا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ ایک شخص سے سوال کرے گا کہ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھاتونے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! بھلا میں تجھ کو کیسے کھانا کھلاتا تو دونوں جہاں کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھ کو یاد نہیں میرا فلاں بندہ تجھ سے کھانا مانگنے آیاتھا تونے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ اگرتواس کو کھانا کھلادیتا تو مجھ کو تو اس کے پاس ہی پاتا۔ الخ (مسلم شریف ۲/۳۱۸)

صرف چالیسواں حصہ: پھر غور فرمائیے کہ پورے مال کا صرف ۴۰ واں حصہ سال بھر میں فرض کی حیثت سے نکالنا ضروری قرار دیا گیا او ریہ بھی مطلق نہیں بلکہ وہ مال جو اپنے اند ربڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ضرورت اصلیہ سے زائد ہو اور اس پر ایک سال اس حالت میں گذرگیاہو کہ اس کی مقدار نصاب سے کم نہ ہوئی ہو۔ اس سب شرائط کے پائے جانے کے بعد ہی زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو پچاس فیصدی یا اس سے زیادہ بھی زکوٰۃ فرص کرسکتا تھا اور مال آتے ہی وجوب کا حکم دیاجاسکتا تھا۔ مگر یہ بھی اس کا محض فضل وانعام ہے کہ اس نے تمام ممکنہ سہولتوں کے ساتھ صرف ۴۰ روپیہ میں ایک روپیہ زکوٰۃ کے طور پر فرض فرمایا ہے۔ اس انعام کے باوجود بھی کوئی شخص زکوٰۃ نکالنے میں کوتاہی کرے تو اس سے بڑا نعمت خداوندی کا ناشکرا کوئی نہیں ہوسکتا۔

نقد فائدہ بھی ہے:اور یہ بھی دیکھئے کہ عام طور پرشرعی عبادات کے ثواب اور نتیجہ کا وعدہ آخرت کی زندگی میں کیاگیا ہے۔ مثلاً نماز سے جنت میں فلاں نعمت ملے گی، روزہ داروں کو فلاں ثواب کا مستحق بنایاجائے گا وغیرہ وغیرہ۔ مگر زکوٰۃ اور صدقات کے لئے جہاں آخرت میں عظیم الشان اجروثواب کا ذکر ہے وہیں دنیوی نقد فائدہ کو بھی بیان فرمایاگیا ہے۔ اور یہ فائدہ اتنا عظیم ہے کہ دنیا کی کسی دولت سے اس کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی او راس فائدہ کے حصول کے لئے انسان بڑی سے بڑی قربانی دینے اور مالی نقصان برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے۔ وہ فائدہ یہ ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ ادا کرنے سے بلائیں اور مصیبتیں ٹلا دی جاتی ہیں۔ حدیث میں ارشا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ بادروا بالصدقۃ فان البلاء لا یتخطاہا (مظاہر حق ۲/۱۳۱، مشکوٰۃ شریف ۱۶۷)’’صدقہ دینے میں جلدی کرو اس لئے کہ مصیبت صدقہ سے آگے نہیں بڑھتی‘‘۔

یعنی اللہ تعالیٰ صدقہ کی وجہ سے مصیبت کو دفع فرمادیتا ہے اور ایک دوسری حدیث شریف میں وارد ہے۔

ان الصدقۃ لتطفئی غضب الرب وتدفع منیۃ السوء (مظاہر حق ۲/۱۳۶، مشکوٰۃ شریف ۱۶۸)

’’بیشک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کردیتا ہے او ربُری موت سے بچاتا ہے‘‘۔ یعنی سخت بیماری اور سنگین حالات سے بچانے میں مفید ہے۔

علاوہ ازیں صدقہ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا ایک اثر یہ ہے کہ اس سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ برکت کے اعتبار سے زیادتی ہی ہوتی ہے۔ (مظاہر حق ۲/۱۳۲)

آخرت کا نفع ہی نفع: یہ تو دنیا کا فائدہ ہے، مگر زکوٰۃ وصدقہ کے اخروی منافع بھی شمار ہیں اور اصل میں یہی منافع ہمارے پیشِ نظر رہنے چاہئیں یہاں اخروی منافع کا خلاصہ لکھاجاتا ہے۔

۱۔      ایک روپیہ کے بدلہ میں سات سوگنا اجر مقرر ہے اور اخلاص وغیرہ کی وجہ سے اس میں زیادتی کا بھی وعدہ ہے۔ (سورئہ بقرہ آیت ۳۶۱)

۲۔      زکوٰۃ صدقہ میں خرچ گویا کہ اللہ کے ساتھ تجارت کرنا ہے جس میں کسی نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ (فاطر آیت۲۹)

۳۔      صدقہ قیامت کے دن ہمارے لئے حجت بنے گا۔ (مسلم شریف ۱/۱۱۸)

۴۔      زکوٰۃ وصدقہ کے (معمولی حصہ) ایک کھجور کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور اس کی اسی طرح پرورش فرماتاہے جیسے انسان اپنے اونٹنی کے بچے کی پرورش کرتا ہے تا آنکہ وہ چھوٹی سی کھجور اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑے پہاڑ کے برابر تک پہنچ جاتی ہے۔ (مسلم شریف ۱/۳۲۶)

۵۔      جو شخص زکوٰۃ وصدقہ ادا کرنے والا ہوگا اس کو جنت کے خاص دروازہ باب الصدقہ سے داخل کیاجائے گا۔ (مظاہر حق ۲/۱۲۲)

۶۔      سات قسم کے حضرات میدان محشر میں عرش خداوندی کے سایے میں ہوںگے۔ انہی میں سے ایک وہ شخص ہوگا جو اللہ کی راہ میں خفیہ خرچ کرتاہوگا، اس طرح کہ داہنے ہاتھ سے دے تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ (مسلم شریف ۱/۱۴۳)

۷۔      یہ صدقہ قیامت کے دن ہمارے لئے سائبان ہوگا۔ (مظاہر حق ۲/۱۴۳)

الغرض یہ چند اشارات ہیں جن سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ زکوٰۃ وصدقہ ہمارے لئے کتنی بڑی رحمت کی چیز ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے نصاب کامالک بنارکھا ہے اس کے ساتھ کتنے فضل عظیم کا معاملہ فرمایا ہے؟ اس کے باوجود بھی اگر ہم زکوٰۃ ادا کرتے وقت اور صدقہ دیتے وقت اپنے دل میں تنگی محسوس کریں اور اسے جبری ٹیکس تصور کریں تو اس سے بڑی کسی حماقت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری اولین کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اگر ہم زکوٰۃ ادا کرنے کے اہل ہیں تو پہلی فرصت میں اپنے فریضہ سے سبکدوش ہوجائیں اور اس فرض کی انجام دہی میں قطعاً تغافل او رٹال مٹول سے کام نہ لیں۔ خاص کر ماہ مبارک میں فریضہ کی ادائیگی کا ثواب ستّر گنا بڑھ جاتا ہے لہٰذا اس موقع سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔

تحقیر نہ کریں: زکوٰۃ کو صحیح مصرف پر خرچ کرنا نہایت ضروری ہے۔ تاکہ نظام زکوٰۃ کا پورا فائدہ سامنے آسکے۔ اور ساتھ میں ان شرائط کا لحاظ بھی لازم ہے جن کا ذکر فقہ کی کتابوں میں کیا گیا ہے۔ اس لئے زکوٰۃ ادا کرنے والے صاحبان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحقیق کریں کہ جس ادارے یا جس جماعت کو زکوٰۃ دی جاتی ہے کیا وہ ادارہ او رجماعت شریعت کے اصول کے مطابق زکوٰۃ اپنے مصارف میں صرف کرتی ہے یا نہیں؟ اگر کرتی ہوتو شوق سے زکوٰۃ دی جائے ورنہ منع کردیاجائے۔ لیکن اس تحقیق میں اتنی شدت نہ ہو کہ ہم ہر چندہ کے لئے آنے والے شخص کو شک کی نگاہوں سے دیکھیں اور اس کے ساتھ حقارت کا معاملہ کریں۔ اس لئے کہ دینی مدارس کے چندہ کے لئے آنے والے حضرات کا اس زمانہ میں صاحب نصاب لوگوں پر بڑا احسان ہے کہ وہ گھر بیٹھے آکر ان کی زکوٰۃ لے جاتے ہیں۔ ورنہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب مالدار زکوٰۃ لے کر نکلیں گے اور کوئی شخص اسے قبول کرنے پر تیار نہ ہوگا۔ (مسلم شریف ۱/۳۲۶) ان حضرات کی تحقیر اللہ کی نظر میں کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان کا تعلق علم دین سے ہے۔ اسی نسبت سے ان کی قدر کرنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں مالدار حضرات سے چند گزارشات پیش ہیں۔

۱۔      مدارس یا دینی خیراتی ادارے کا کوئی فرد اگر چندہ لینے آئے تو چندہ دے کر اس پر احسان نہ رکھیں بلکہ اس کے احسان مند ہوں کہ اس نے ہمیں ایک دینی کام میں اعانت کا موقع دیا اس سے ثواب میں انشاء اللہ زیادتی ہوگی۔

۲۔      جس کو جو کچھ بھی دینا ہے، پہلی مرتبہ ہی دے دیاجائے باربار چکّر نہ کٹوائے جائیں اس لئے کہ ایسے سفرا کو کئی علاقوں میں کام کرنا ہوتا ہے، معطی حضرات کی ٹال مٹول سے سارا پروگرام درہم برہم ہوجاتا ہے۔

۳۔      جس شخص کو دینے کا ارادہ نہ ہو اس سے نرمی سے منع کردیا جائے سختی سے دھتکارانہ جائے۔

لینے والے بھی خوف کریں:

زکوٰۃ کی رقم وصول کرنا بھی بڑی ذمہ داری کا کام ہے جب تک زکوٰۃ کا مال اپنے مصرف میں خرچ نہ ہوجائے، لینے والے کا ذمہ بری نہیں ہوسکتا، اس لئے مدارس کے ذمہ دار اور خیراتی اداروں کے سربراہوں کو بھی نہایت حزم واحتیاط لازم ہے۔ انہیں بہرحال آخرت کی جوابدہی پر نظر رکھنی چاہئے اور زکوٰۃ کا پائی پیسہ مصرف میں ہی لگانا چاہئے۔ خواہ مخواہ او ربلا ضرورت تملیک کرکے شک وشبہ کی راہ نہ نکالنی چاہئے۔ قوم کے لوگ اگر آپ پر اعتماد کرکے اپنی زکوٰۃ کا امین آپ کو بناتے ہیں تو آپ کو اس امانت کا پورا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے ورنہ دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بھی آپ نہیں بچ سکتے۔ اللہم وفقنا لما تحبہ وترضاہ۔ (ندائے شاہی، فروری ۱۹۹۵ء)

تبصرے بند ہیں۔