فضائے بدر پیدا کر!

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

     17رمضان المبارک کوتاریخ ِ اسلامی کا نہایت عظیم الشان ،ایمان افروزاور حیرت انگیز معرکہ ’’غزوہ ٔ بدر ‘‘ پیش آیا۔اسلامی غزوات اور جنگوں میں غزوہ ٔ بدر کو مختلف حیثیتوں سے اہمیت حاصل ہے ۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ غزوہ ٔ بدر کا واقعہ آج بھی دلوں میں ایمانی حرارتوں کو بھڑکانے اور شوق وجذبات کو بیدارکرنے کا غیر معمولی اثر رکھتا ہے۔اس واقعہ کوپڑھنے او رسننے کے بعد قلب ودماغ کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے اور ایمان کے لئے جانوں کو ہتھیلی میں رکھ کر اشارہ ٔ نبی ﷺ پر سب کچھ نثارکردینے والے اور میدان ِ عمل میں کامل اطاعت وفرماں برداری کا ثبوت پیش کرنے والے صحابہ کرام ؓ کی عظمتوں اور محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔حالات کا رخ بدلنے اور دشمنوں کے غرور وگھمنڈ کو خاک میں ملانے ایک پیغام اللہ تعالی نے اس غزوہ سے عطا کیا۔ایمان کی پختگی اور جذبہ ٔ فرماں برداری کے ذریعہ بڑی بڑی طاقتوں کو زیر کرنے اور شکست وناکام کرنے کا ایک سبق اللہ تعالی نے اس غزوہ کے ذریعہ دیا ہے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو بتادیا کہ کس طرح اسلام کی سربلندی کے لئے جد وجہد کرنے پڑتی ہے تب جاکر گلشن میں بہار آتی ہے اور چمن ِ اسلام لہلہا نے لگتاہے۔غزوہ ٔ بدر کے ذریعہ کیا پیغام ملتا ہے اس کو ملاحظہ کرنے سے پہلی ایک سرسری نظر اس عظیم الشان غزوہ پر ڈالتے ہیں ۔

      ہجرت کے دوسرے سال معلوم ہوا مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی سر کردگی میں ملک شام سے واپس ہورہا ہے اور مدینہ کے قریب سے گذرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہونچے گا ،تو نبی کریم ﷺ نے چند صحابہ ؓ کو اس قافلہ کے تعاقب کے لئے بھیجا تاکہ وہ سامان ِ تجارت کو روک لے ،کیوں کہ مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں میں اس تجارتی مال کو بھی بڑا دخل تھا ،جب ابو سفیان کو اس کی خبر ہوئی تو ا س نے فوراایک قاصد مکہ روانہ کیا اور پیغام بھیجا کہ اپنے سامان کی حفا ظت کے لئے آئیں ۔جب یہ قاصد مکہ پہونچا تو ابوجہل نے ایک زبردست لشکر کو تیار کیا ،آلات و ہتھیار سے لیس اور جنگی سامان سے آراستہ ایک مکمل قافلہ لے کر نکلا،ادھر ابوسفیان نے دوسرے خفیہ راستے سے سامان کو لے کر نکلنے میں کامیاب ہوگیا ،اور کہلا بھیجا کہ اب آنے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ جس کا خوف تھا وہ ختم ہوگیا مگر دشمن اسلام ابوجہل نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کاعزم کرلیا تھا اور اس کے لئے اس نے تمام سرداران ِ قریش کو اکھٹا کیا تھا اس نے واپس ہونے سے انکار کیا اور بڑھ گیا۔

  جب نبی کریم ﷺ ان حالات کا علم کو ہو ا تو آپ نے بھی صحابہ کرام کو جمع فرمایا ،نبی کریم ﷺ کا ارادہ کیوں کہ جنگ اور قتل قتال کا نہیں تھا اس لئے آپ نے بغیر اہتمام کے ہی صحابہ کرام کو قافلہ ٔ تجارت کو روکنے کے لئے بھیجا تھا لیکن اب صورت حال بدل چکی تھا ،دشمن لشکر جرار کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے ارادے کے ساتھ آرہا تھا اس لئے نبی کریم ﷺ نے انصار و مہاجرین کو جمع فرماکر پوری صور ت حال سے آگاہ کیا۔مہاجرین نے آپ کی حمایت اور اور ہر طرح کا ساتھ دینا کا عدہ کیا ، نبی کریم ﷺ نے دوسری مرتبہ فرمایا ،آپ کی خواہش تھی کہ انصار بھی اپنی جانب سے پیش کش کریں جب تین مرتبہ آپ نے فرمایا تو انصار سمجھ گئے کہ اللہ کے نبی ہمارا منشا معلوم کرنا چاہتے ہیں تو حضرت سعدبن معاذ ؓاورحضرت مقداد ؓ نے آپ کی اطاعت وفرماں برداری میں جان قربان کرنے کا اظہار پر نہایت ایمان افروز تائید کی۔

  چوں کہ جنگ کا پہلے سے ارادہ نہیں تھا اور مسلمانوں کے پا س ہتھیا ر وغیرہ کی بھی کثرت نہیں تھی ،اس لئے بڑی ہی بے سرو سامانی کے عالم میں سچے جا ں نثاروں اور  اسلام کے فداکاروں کا یہ مٹھی بھر تین سو تیرہ پر مشتمل افراد قافلہ امیر لشکر سید البشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیاد ت میں اس شان سے نکلا کہ مجاہدین اسلام کے پاس صرف دو گھوڑے اور ستر او نٹ تھے ، ایک ایک اونٹ پر دو دو تین تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے ،جن کے پاس نہ سامان تھا ، نہ کھانے پینے کے اسباب کی بہتات ،محبت رسول میں سرشار اور دین حق کے ان متوالوں کے لئے سب سے قیمتی چیز اپنے محبوب نبی کی رضا تھی ،یہ ۳۱۳ کا لشکر نکلا ۔( نبی ٔ رحمت :283)

 مسلمانوں کا صرف تین سو تیرہ کا چھوٹا سا لشکر ہے جس کے پاس نہ سواریوں کا انتظام ہے ،نہ آلات حرب کی فراوانی ،نہ ہی طاقت کو مجتمع کرنے کے لئے بہترین غذاؤں کی سہولت ،پیادہ پا، فاقہ زدہ شکم ،اور دوسری جانب دشمنوں کا ایک ہزار کا لشکرجو ہر اعتبارسے لیس اور آراستہ، بلکہ فوجیوں کے جوش و جذبے کو بھڑکانے والی ہر چیز کا اہتمام ایسی صورت حال میں جہاں اللہ کے نبی ﷺ صحابہ کرام کی ہمتوں بڑھاتے ، ابدی کامیابی کے وعدے سناتے ، خداکے انعامات سے خو ش کرتے وہیں آپ کے لئے میدان بدر میں جو ایک خیمہ بنا یا گیا تھا اس میں پوری رات روتے ہوئے گذاردیتے اور پوری الحاح و زاری کے ساتھ پروردگار عالم سے فرماتے کہ اے اللہ آج قریش تکبر اور گھمنڈ کے ساتھ آئے ہیں ،وہ تجھ کو چیلنج کرتے ہیں اور تیرے نبی کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے کہ: اللہم ان تھلک ھذہ العصابہ لا تعبد بعدھا فی الارض۔یعنی اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت فناہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری کوئی عبادت کرنے والا نہ ہوگا۔اور باربار یہی فرماتے رہتے :اللہم انجزنی ماوعدتنی ،اللہم نصرک۔اے اللہ تونے مجھ سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما،اے اللہ ! تری مدد کی ضرورت ہے ۔یہاں تک حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی !بس کیجئے ضرور اللہ آپ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے گا۔( زاد المعاد:3/157)اللہ تعالی نے اپنے نبی کی دعاؤں کو اور ان کی آہ وزاری کو قبول فرمایا اور صحابہ کرام کی استقامت اور اطاعت رنگ لائی ،مٹھی بھر افراد نے کفا ر کے دم خم کو خاک میں ملا دیا ،ان کوذلت آمیز شکست سے دوچا رہونا پڑا اوراللہ پر ایمان رکھنے والے ،نبی کی اطاعت کا دم بھرنے چند سو لوگوں نے ہزار کے لشکر کو ناکام کردیا۔چناں چہ جمعہ کے دن سترہ (17) رمضان کو مسلمانوں نے فتح پائی ۔

     اسلامی معرکوں میں غزوہ ٔ بدرکی کیا اہمیت ہے اس کو سیرت نگاروں نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔خود قرآن کریم میں اللہ تعالی نے  اس غزوہ کو  ’’یوم الفرقان‘‘ (سورۃ الانفال :41)سے تعبیر کیا گیا۔کیوں کہ یہ غزوہ تاریخ کا سب سے اہم اور حق وباطل کے درمیا ن میں فیصلہ کن غزوہ تھا ،کفر کی طاقت کے ٹوٹنے ،اور کافروں کے نشے کو ختم کرنے کے لئے ایک عظیم ترین معرکہ تھا ۔حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے بڑی اہم بات لکھی کہ:ہجرت کے دوسرے سال رمضان ہی میں بدر کی وہ فیصلہ کن اور تاریخ ساز جنگ ہوئی جس میں امت اسلامیہ کی تقدیر اور دعوت حق کے مستقبل کا فیصلہ ہو ا جس پر پوری نسل انسانی کی قسمت کا انحصار تھا ،اس کے بعد سے آج تک مسلمانوں کو جتنی اور کامیابیاں حاصل ہوئیں ،اور ان کی جتنی حکومتیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں وہ اسی فتح مبین کی رہین ِ منت ہیں جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی ۔( نبی رحمت :279)

دکتور علی محمد الصلابی نے لکھا کہ :غزوہ بد ر کے ذریعہ جہاں ایک طرف مسلمانوں کی شان وشوکت میں اضافہ ہو ،اسلام کا ستار ہ بلند ہو ا، دشمن مسلمانوں سے مرعوب ہو گئے ،منافقین کا نفاق واضح ہو گیا وہیں دوسری خود صحابہ کرام کا اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ سے تعلق مزید مضبوط ہوگیا ،اور اسلا م کے لئے ناموافق حالات کو برداشت کرنے میں خا ص مدد ملی۔(غزواۃ النبی دروس و عبروفوائد:72)غزوہ بدر کی اہمیت اور عظمت اس لحاظ سے بڑی اہم ہے کہ اس فتح کے ذریعہ اللہ تعالی نے کمزور صحابہ کو حو صلہ و ہمت عطا کیا اور ان کی ہیبت دشمنوں کے دلوں میں بیٹھ گئی ،کل تک جن مسلمانوں کو بے یار ومددگار سمجھ کر ہر قسم کا ظلم کیا جاتا اور طرح طرح کے مظالم ڈھا ئے جاتے لیکن اس فتح مبین نے ان کی عظمتوں کو بڑھا دیا اور مخالفین کے حوصلوں کو تو ڑ کر رکھ دیا ،خود کفار کے سرغنے مارے گئے جس سے ان کا پوراگھمنڈاور بڑائی کا نشہ اترگیا۔

اب آئیے ایک نظر اس غزوہ سے ملنے والے سبق اور پیغام کو بھی ملاحظہ کرتے ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے ذریعہ یہ واضح فرمادیا کہ کثرتِ تعداد کا اللہ تعالی کے یہاں اعتبار نہیں ،اللہ تعالی بڑی تعداد کی بنیاد پر غلبہ وکامرانی عطا نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالی کے پاس کمیت کے بجائے کیفیت مطلوب ہے یعنی چھوٹی تعداد بھی اگر ایمان کامل سے آراستہ اور یقین ِ محکم سے پیراستہ ہو گی تو اللہ تعالی بڑی بڑی طاقتوں کو ناکام کردیں گے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ  واللہ مع الصابرین ۔( البقرۃ :249)’’نجانے کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں ۔اور اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں ۔‘‘لہذا آج کی دنیا میں اگر کثرت کا شور مچایا جارہا ہوں اور تعداد کی زیادتی پر فخر وناز کیا جارہا ہو تو ان کی خام خیالی ہے ،اللہ اگر چاہے تو چھوٹی جماعت کے ذریعہ ان کے تمام تر فخر وغرور کو خاک میں ملادے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر چھوٹی جماعت ہو اور افراد کی تعداد کم ہولیکن ان کے پاس ایمان کامل ہوگا تواللہ تعالی ضرور ان کو کامیاب کرے گااور دشمن کو ناکام ونامراد کرے گا۔مکمل ایمان اللہ تعالی کو مطلوب ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:  یا ایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کا فۃ  ولا تتبعوا خطوات الشیطن  انہ لکم عدو مبین ۔( البقرۃ :208)اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ ،اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ایک جگہ ارشاد ہے: ولاتھنواولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔( ال عمران:139)( مسلمانو!) تم نہ کمزور پڑو،اور نہ غمگین رہو۔اگرتم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔‘‘

 تیسری بات یہ ہے کہ خدا کی مدد اور نصرت کو حاصل کرنا ہوتو اپنے آپ کو’’ تقوے والا‘‘ بنانا ہوگا۔اللہ تعالی نے غزوہ بدر میں مدد کا تذکرہ کرتے ہوئے اسی بنیادی صفت کو بھی بیان کیا،ارشاد ہے::ولقد نصر کم اللہ ببدر وانتم اذلۃ ،فاتقو اللہ لعلکم تشکرون ،اذ تقول للمؤمنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلثۃ الف من الملئکۃ منزلین۔( سورۃ اٰل عمران:123،124)اللہ نے ( جنگ) بدر کے موقع پر ایسی حالت میں تمہاری مدد کی تھی جب تم بالکل بے سروسامان تھے ۔لہذا ( صرف )اللہ کا خوف دل میں رکھو ،تاکہ تم شکر گذار بن سکو۔جب ( بد رکی جنگ میں ) تم مؤمنوں سے کہہ رہے تھے کہ:کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کو بھیج دے ؟بندہ جب تقوی والا بنتا ہے تو پھر اللہ تعالی آسانیاں پیدا فرماتاہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے : وَمنَ ْیَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجاًوَیرَزْقہُ ٗ ِمنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ۔( الطلاق:2،3)’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا،اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کو ئی راستہ پیدا کردے گا،اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطاکرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔‘‘

    چوتھی بات یہ ہے کہ باطل طاقتوں کی ایذا رسانیوں سے گھبرائے نہیں ،اور اسلا م کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے خوف زدہ ہوکر اسلام کو کمزور اور اس کے ماننے والوں کو بے سہار ا نہ سمجھ بیٹھیں بلکہ اللہ تعالی کی عظیم المرتبت ذات پر بھروسہ رکھیں کہ وہی دشمنوں کو ناکام کرے گااور اسلام کے غلبہ کے امکانات کو پیدا کرے گااور اہل ِ ایمان کو طمانینت عطاکرے گا۔خداکا دین غلبہ پانے کے لئے آیا ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْکَفِرُوْن ھُوَا لَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔( الصف:8،9)’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کے نور کو بجھادیں ،حالاں کہ اللہ اپنے نور کی تکمیل کرکے رہے گا ،چاہے کافروں کو یہ بات کتنی بری لگے۔وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی کا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کردے ،چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی بری لگے۔‘‘

     آج اگر دشمن طاقت اور اسباب ووسائل سے لیس نظر آرہا ہے تو ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اگر ہم دین کے کامل پیرو کار اور تعلیماتِ نبوی کے اطاعت گزار رہیں گے تو ان شاء اللہ ان کی ساری طاقت وقوت کچھ نہیں بگاڑسکے گی۔اس کے لئے ہمیں عملی اقدامات بھی کرنا ہوگا۔اپنے ظاہر وباطن ،روح اور جسم کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرنا ہوگا۔اسلام کی سربلندی کے عزائم دلوں میں گردش کرنے چاہیے۔اپنے مال اور اپنی صلاحیتوں کو دین کے لئے لگانے کی تمنا اور آرزو ہونا چاہیے۔خوبیوں اور کمالات کو پیداکرکے پاکیزہ نظام ِ زندگی پیش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔صرف حالات کاشکوہ کرتے رہنا اور کوئی عملی اقدام نہ کرنا یقینا یہ ایک طرح کی کج فہمی ہے ۔غزوہ ٔ بدر قیامت تک آنے والوں مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ تم سے جتنا ہوسکتا ہے تم کر گزرو باقی نتیجہ اللہ کے ہاتھ چھوڑدو ،وہ کبھی مخلصین کی محنتوں کا رائیگاں جانے نہیں دیتا اور نہ ہی اپنے باوفا بندوں کی قربانی کو اکارت ہونے دیتا ہے۔اس وقت پوری دنیا کے مسلمان ایک عجیب دور سے گزررہے ہیں ،مادیت اور روحانیت کی ایک کشمکش جاری ہے ،اسلام کے خلاف ہر روز نت نئے منصوبے اور مسلمانوں کو مٹانے کی ہر دن ایک نئی کوشش سامنے آرہی ہے ،لیکن ان حالات میں اگر ہم نے غزوہ بدر سے سبق سیکھااور اپنی زندگی میں اطاعت ِ رسول اور حکم ِ الہی کی اہمیت کو پیدا کیا تو ان شاء اللہ ہم ہی سرخرو رہیں گے۔خلاصہ یہ ہے کہ:

؎  فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

 اترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

تبصرے بند ہیں۔