فطرت سے بغاوت

عبدالرحیم ندوی

(اورنگ آباد، مہاراشٹر)

اے چارہ گرو پاس تمہارے نہ ملے گی 

بیمار محبت کی دوا اور ہی کچھ ہے

پھولوں کی نزاکت، چاند کے حسن، بلبل کی نوا، مور کے رقص، پہاڑوں کی بلندی، ہواؤں کی ٹھنڈک، شبنم کی تازگی، پروانے کی تڑپ، غزالوں کی چشمِ دلربا اور دریا کی روانی کے پیچھے اسی وحدہ لاشریک کی صنّاعی و قدرت کارفرما ہے. کیا زمین کیا آسمان سب اس کے اشارے کے پابند کوئی پتہ اس کی اجازت کے بغیر نہیں گرتا، باغی ہے تو صرف وہ انسان جسے عقل و خرد بخشی گئی. جسے خود آگاہی اور خدا آگاہی کی صلاحیت ودیعت کی گئی جسے اشرف المخلوقات ہونے کا تمغہ عطا کیا گیا جس کا کام تھا کہ وہ خدا اور اس کی قدرت کا ہردم پرچار کرتا اس کے احکامات کے آگے اپنا سر جھکا لیتا اور یہ مان لیتا کہ سب کچھ اس خدا ہی کا بنایا ہوا ہے اور اس کے احکامات کے ماننے ہی میں ہم سب کی بھلائی اور بقاء ہے.

لیکن نہیں، شیطان اپنے لاؤلشکر کے ساتھ مختلف حربوں اور جدید اسلحوں سے لیس ہوکر انسانی معاشرے پر یلغار کردیتا ہے انسان کا اپنا نفس برائیوں کے دلدل میں ہونے کی وجہ سے حق کا دشمن اور مذہب بیزار ہوجاتا ہے وہ خدائی نظام کا منکر اور اس کے احکامات سے (نعوذبالله) متنفر ہوجاتا ہے.

خدا کی دی ہوی عقل کے گھوڑے دوڑا کر، خدا کی بخشی گئی صلاحیتوں کو استعمال کرکے خدائی نظام سے بغاوت مول لیتا ہے. نادان یہ بھی نہیں سمجھتا کہ میں اس رب کا بنایا ہوا ہوں میرے لئیے کونسی چیزیں فائدہ مند ہے اور کونسی مضر یہ وہی جانتا ہے اس کے احکامات کو ماننے ہی میں میری فلاح و کامرانی ہے.

عقل کے دامِ فریب میں الجھ کر وہ افراط اور تفریط کی بندشوں میں جکڑ جاتا ہے کبھی اتنا توہم پرست ہوجاتا ہے کہ خدا کو چھوڑ کر تمام اشیاء کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے تو کبھی اتنا ظاہر پرست ہوجاتا ہے کہ شکایت کرتا ہے.

 پڑ گیا ہے خدا سے کام مجھے 

اور خدا کا کوئی پتہ ہی نہیں

یہ دونوں طبقات اپنی جہالت کے سبب حماقت اور سرکشی کے سب سے نچلے گڑھے میں اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں اور خدائی لعنت و پھٹکار کے مستحق ہوتے ہیں.

ان کے علاوہ ایک طبقہ ان خدا شناس لوگوں کا بھی ہے جو توحید و رسالت کے زیور سے آراستہ ہیں مگر ان کی غیروں سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ وہ ان کے رسم و رواجوں کو خدائی احکامات پر ترجیح دیتے ہیں گویا.

 ان بتوں کی ہی محبت سے خدا ملتا ہے 

کافروں کو جو نہ چاہے وہ مسلمان نہیں

عقل و دانش پر زنگ لگ جائے اور اپنے علم کو انسان خدائی حکمت سے بالاتر سمجھ لیں تو وہ ایسے ایسے خوفناک اور تباہ کن فیصلے کرتا ہے کہ جس کا خمیازہ کئی نسلیں برداشت کرتی ہے وہ ایسے ایسے قوانین بناتا ہے کہ جس کی خباثت کے جراثیم انسانی معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتے ہیں اور ایسی ماڈرن سوسائیٹی سے وہ جنگل کے درندوں کا قانون بہتر ہوتا ہے جو فطرت کے دھارے میں تبدیلی نہیں کرتے مانا کہ جنگل کے جانور اپنے اندر مثبت و مہذب تبدیلیاں پیدا نہیں کرسکتے لیکن وہ فطرت کے اصولوں کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور یہ ماڈرن شخصیت کا حامل انسان اپنی ننھی سی عقل کو استعمال کرکے خدا کا باغی و مخالف بن جاتا ہے. آپ ہی فیصلہ کریں کہ یہ لبرل ازم کے علمبردار بہتر ہیں یا جنگل کے درندے.

اولٰئک کالأنعام بل ھم اضل کی تعبیر کیوں استعمال کی گئی کیا اسی طرف واضح اشارہ نہیں کیا گیا؟

ہم صرف ہندوستان نہیں ساری دنیا کے انسانوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسانیت کی بقاء بلکہ معراج خدائی احکامات کو تسلیم کرنے میں ہیں انسانوں کے بنائے ہوے قوانین جو خدا تعالی کے منشاء کے خلاف ہو اس میں کوئی خیر نہیں بلکہ وہ گندگی اور غلاظت کا ڈھیر ہے جس کے سامنے سے گزرتے وقت بھی گھن آتی ہے انسانی طبعیت اس کی طرف دیکھنا اور اس کی بو سونگھنا گوارا نہیں کرتی اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے احکامات اور قوانین وضع کرکے آپ ہمیں بھی اپنا ہمنوا بنا لینگے تو یاد رکھئیے:

دنیا کے طریقے ہمیں اچھے نہیں لگتے

نادان اگر ہم ہیں تو نادان رہیں گے

اردن میں موجود کھنڈرات سے دریافت کرو کہ ہم جنس پرستی کیسا شنیع فعل ہے بحرِ میّت سے پوچھو کہ خدا کا غضب کیا ہوتا ہے جب ابلیسی کارندوں اور اس کے مشیروں کی سرپرستی کسی کو حاصل ہوجائے تو وہ تاریکی کو ضیاء، شعلے کو شبنم اور نقصان کو منفعت تصور کرتا ہے یہی حقیقت ہی اس ماڈرن ازم کی جہاں  تعلیم یافتہ افراد سب کچھ بن گئے مگر انسان نہ بن سکے.

اے عصرِ رواں تیرا جہاں روشن و تاباں

سب کچھ یہاں دیکھا مگر انسان نہ دیکھا

ایک انسان ہونے کے ناطے دنیا بھر کے لوگوں کی خیرخواہی ہماری ذمیداری ہے اور اسی ذمیداری کو محسوس کرتے ہوے ہم کھلے طور پر واضح انداز میں یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ خدائی احکامات کا پابند بننے ہی میں ہم سب کی بھلائی ہے کوئی بھی غیر فطری عمل اپنے اندر کسی قسم کی خیر نہیں رکھتا بلکہ تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے.

چلو ہم دل بڑا کرکے یہ کہنے تیار ہیں کہ تم انسانوں کی آزادی اور ترقی کی نیت لئیے کام کر رہے ہوں اور انسانی معاشرے کو زوال سے عروج کی طرف لے جانا چاہتے ہو اور بیمار انسانوں کی صحت و شفاء کے حصول کے لئیے سرگرداں ہوں لیکن

اے چارہ گرو پاس تمہارے نہ ملے گی 

بیمار محبت کی دوا اور ہی کچھ ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔