فقہی اختلافات اسباب وعلل اور تدارک

قمر فلاحی

یہ بات بہت زیادہ حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ عقائد سے لیکر عبادات تک اور فرائض سے لیکر سنن ونوافل تک کوئی مسئلہ شاید ایسا ہے جس میں فقہی اختلافات نہ ہو آخر اس کی وجہ کیا ہے، میرے خیال سے اس کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں.
(1) احادیث کا مدون نہ ہونا:
فقہاء کے زمانے میں حدیث مدون نہیں تھی جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واضح طور پہ نہ ملنے کی وجہ سے انہوںنے اجتہاد اور قیاس کا راستہ اپنایا. ….
(2) احادیث میں ایک ہی مسئلہ کیلئے وسعت:
بعض اعمال ایسے ہیں جس میں آپ ص کے کئی اعمال ثابت ہیں مثلا نماز میں ہاتھ باندھنے کیلئے سینے پہ ہاتھ باندھنے اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے ،دونوں کیلئے روایت ہےلہذا جن فقہا کو جو عمل ملا اسے اپنی فقہ میں شامل کردیا.
(3) صحابہ کا اجتہاد :
اختلاف کی ایک وجہ صحابہ کی عمل رسول سے ناواقفیت کی بنا پر یا حالات کے پیش نظر تعذیری فیصلہ تھا جس کو فقہاء نے بنیاد بنایا اور اختلاف ہوگیا مثلا حج تمتع اور اور حج قرآن میں کونسا افضل ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوگیا.تعذیری طور پر حضرت عمر نے تین طلاق کو تین کر دیا.سارے منارےاور قبوں کو توڑ دینے کا حکم دیا وغیرہ،ماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت آٹھ رکعت تراویح سے متلعق ہونا اور بعض آثار سےمتعدد رکعات کا ثابت ہونا وغیرہ.
(4) لغات میں ایک لفظ کے کئی معنی کاہونا:
بعض جگہوں پر جہاں فقہاء کو شریعت کے احکامات واضح طور پہ نہیں ملے تو انہوں نے لغت کو بنیاد بنایا اور کثیر النوع معنی کی وجہ اختلافات ہوگئے مثلا وامسحوا برووسکم میں "ب” بمعنی تبعیض کیلئے مانا اور مکمل سر کے مسح کے مقابلہ میں سر کے بعض حصہ کا مسح کرنا جائز قرار دیا………
لغات کی پیروی نے دین کا نظام درھم برھم کر دیامثلا قادیانی اور بریلویت لغت کی پیداوار ہے جب احادیث میں خاتم الرسل کا ذکر آیا تو قادیانی نے لغت کو بنیاد بنایا اور کہا کہ خاتم بمعنی آخری نہیں بلکہ افضل ہوتا ہے اور لغت سے دلائل پیش کر دئے…………رفع عیسی علیہ السلام کا انکار کیا اور دلیل پیش کی رفعنا لک ذکرک یعنی رفعنا معنی عرش پہ اٹھانا نہیں ہوتا ہے.نعوذ باللہ.
(5) درباری فقہاء :
کچھ فقہاء ایسے بھی تھے جو بادشاہوں کے زیر اثر تھے اور بادشاہوں مخصوص فقہ سے تعلق رکھتے تھے لہذا اس کے دور میں مخصوص فقہ کو عروج ملا اور ہر فقہی مسئلہ کو کسی نہ کسی طرح شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش ہوئی اور حکومت نے اس پہ مہر لگا دی.

تدارك اور حل:

ان تمام اختلافات کا سد باب اب اس طرح ہو سکتا ہے صحیح احادیث میں جس مسئلہ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اسے من وعن لیا جائے، اس میں کوئی ترمیم نہ کیا جائے.اب احادیث مدون ہوچکی ہیں اور تمام احادیث کی صحت و ضعف بھی واضح ہوچکی ہیں لھذا ضعیف سے گریز کیا جائے اور صحیح پہ عمل کیا جائے .ہر صحیح حدیث پہ عمل کرنے والا متبع شریعت ہے خواہ ان کے اعمال ہم سے جدا ہوں یہ دین کے اندر وسعت کی دلیل ہے اس وسعت سے فائدہ اٹھایا جائے.جس عمل پہ سنت کی مہر نہیں ہے وہ باطل ہے اور عند اللہ قابل قبول نہیں ہے.براہ راست قرآن و احادیث کا مطالعہ کیا جائے اور اس سے رہنمائی حاصل کیا جائے.دین اسلام بغیر فقہی بحثوں کے مکمل تھا اسے اسی طرح مکمل مانا جائے.تمام ہی فقہاء کرام کے امام کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ان کی امامت ونبوت پہ امت کو راضی کیا جائے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سپریم کورٹ کی حیثیت رکھتی ہے اسے لور کورٹ کے فیصلے سے چیلنج نہ کیا جائے یہ بہت بڑا گناہ ہے.یہودیوں اور عیسائیوں کے تفرقہ میں پڑنے کی وجہ علماء پرستی اور فقہ پہ انحصار تھا یہی روگ ہمیں لگ گیا ہے جس کی وجہ شافعی مسجد حنفی مسجد حنبلی مسجد ہر جگہ ملتی ہے اللہ کی مسجد رسول اللہ کی مسجد کہیں نہیں ملتی.اعلی حضرت والا قرآن تھانوی والا قرآن سر سید والا قرآن تو ملتا ہے اور مانگا جاتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم والا قرآن یا تو کم ملتا ہے یا کم مانگا جاتا……..ہمارے ناموں سے پہلے احمد و محمد ضرور لگا ہوتا مگر ہم حنفی مالکی شافعی کہلانے پہ فخر کرتے ہیں محمدی ہونے پہ نہیں. اللہ ہماری حفاظت فرمائے آمین.

تبصرے بند ہیں۔