فلاح کا نسخہ اکسیر

مولانا عبد البر اثری

’’اِنَّ اﷲَ یَأْمُرُبِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَاءِ ذِیْ الْقُرْبَیٰ وَ یَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘(النحل:۹۰)
’’بے شک اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کاحکم دیتا ہے اور بے حیائی ، بدی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘
یہ آیت جمعہ کے خطبہ ثانیہ میں عموماً پڑھی جاتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کو سن سن کر یاد ہوگئی ہے۔ اس آیت کو خطبہ ثانیہ میں مستقل پڑھنے کا سلسلہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے شروع کیا تھا۔ لیکن کیا ہم لوگوں کو معلوم ہے کہ انہوں نے یہ اہتمام کیوں جاری فرمایا؟ جس طرح آیت الکرسی قرآن مجید کی سب سے عظیم آیت ہے ۔ اسی طرح یہ آیت قرآن مجید کی سب سے جامع آیت ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے صراحت فرمائی ہے ’’بیہقی ‘‘ اور ’’حاکم ‘‘ میں ان کا بیان نقل ہواہے ۔ ’’یہ آیت خیر و شر کے سلسلے میں جامع ترین آیت ہے ‘‘۔ اس میں اسلامی تعلیمات کی بنیادیں بہت مختصر الفاظ میں سمیٹ کر بیان کردی گئی ہیں ۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کے اہتمام کی منشایہ تھی کہ مستقل بیک نظر اس کا اعادہ او راستحضار ہو جایا کرے۔ خود رسول اللہ ﷺ کو جب اجمالاً اسلام کا تعارف کرانا ہوتا تو بسااوقات آپ ﷺ مخاطب کو یہی آیت پڑھ کر سناتے ۔ مسند احمدمیں منقول ہے کہ اکثم بن صیفی کو رسول اللہ ﷺکی بعثت کی اطلاع ملی تو اس نے تحقیق کے لئے اپنے دو قاصد بھیجے۔ انہوں نے حاضر ہوکر آپﷺ سے سوال کیا آپ کون ہیں؟ اور کیالائے ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا : میں محمد بن عبداللہ ہوں، خداکا بندہ اور اس کا رسول ، پھرآپؐ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ انہوں نے بار بار سوال کیا اور آپ ہر بار یہی آیت سناتے رہے یہاں تک کہ انہیں یہ آیت یاد ہوگئی۔ واپس جاکر انہوں نے اکثم کو تمام باتیں بتائیں۔ اس نے آیت سن کر کہا ’’میں دیکھتا ہو ں کہ وہ مکارم اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور برے اخلاق سے منع کرتے ہیں‘‘۔پھر اکثم نے اپنی قوم سے کہا :’’ اس معاملے میں تمہیں دوسروں سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے ، اگر تم جلدی کرو گے تو سرکا مقام پاؤ گے اور تاخیر کرو گے تو دُم کامقام پاؤ گے‘‘۔چنانچہ وہ اپنی قوم سمیت ایمان لے آیا۔ اسی طرح ’’ابن ماجہ‘‘میں حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت ابوبکرؓ اور رسول اللہ ﷺ دعوت دین کی غرض سے قبیلہ شیبان بن ثعلب کے پاس گئے ۔ ان کے سردار مقرون بن عمرو نے پوچھا آپ ہمیں کس امرکی طرف بلاتے ہیں تو آپؐ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ یہ سن کر مقرون بن عمرو نے کہا ’’خدا کی قسم! آپ کی دعوت مکارم اخلاق او رمحاسن اعمال کی دعوت ہے وہ قوم خود جھوٹی ہے جو آپؐ کی تکذیب کرتی ہے‘‘۔ ’طبرانی‘ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ کے قریبی پرانے ساتھی عثمان بن مظعونؓ نے مردوں میں ساتویں نمبر پر ایمان قبول کیا لیکن خود ان کا بیان ہے کہ شروع میں تو میں نے خیال خاطر میں ایمان کا اعلان کردیا تھا۔ لیکن جب میں نے یہ آیت سنی تو مجھے شرح صدر ہوگیااور ایمان گہرائی کے ساتھ میرے دل میں پیوست ہوگیا۔ روایات میں یہ بھی ہے کہ دشمن اسلام ابوجہل نے جب یہ آیت سنی تو کہا ’’محمد کا خدا مکارم اخلاق کا حکم دیتا ہے‘‘۔
اس آیت کی جامعیت کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے اس کے مفہوم کو سمجھنابھی ضروری ہے ۔ ذرا اس پر بھی غور فرمائیں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اِنَّ اﷲَ یَأْمُرُ۔۔۔۔۔۔’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے‘‘ ۔۔۔ یعنی جو بات بیان کی جارہی ہے وہ زور اور تاکید کے ساتھ بیان کی جارہی ہے ۔ تاکید کا سیدھا مطلب ہوتا ہے کہ اس کی اہمیت دوبالا ہے ۔ اسی طرح یہ فرماتا ہے کہ حکم دینے والا ’’اللہ‘‘ ہے یعنی ایسی ذات جس سے طاقت ور اس کائنات میں کوئی نہیں۔ جس کے حکم کے نفاذ میں کوئی روڑا نہیں اٹکاسکتا اور نہ ہی جس کے حکم کو ٹالنا مناسب ہے ۔ آگے فرمایا گیا ’’حکم دیتا ہے ‘‘یعنی جو کچھ کرنے کے لئے کہا جارہا ہے وہ آرڈر ہے ۔ اس میں کسی چوں چرا کی گنجائش نہیں ہے ۔ اسے اپنانے میں کسی کا کوئی اختیار نہیں چل سکتا۔ یہ اخلاقی نصیحت اور وصیت نہیں کہ جی میں آیا تو مانیں گے ورنہ نہیں۔ بلکہ یہ ساری باتیں فرض کا درجہ رکھتی ہیں اور انہیں بہر قیمت ہر ایک کو اپناناہے ۔
اس آیت میں تین چیزوں (عدل، احسان اور صلہ رحمی ) کا حکم دیا گیا ہے اور تین چیزوں (فحشاء ، منکر ،اور بغی) سے روکا گیاہے۔
(۱) عدل: عدل کا مفہوم ہے ’’وَضْعُ الشَّیْیِ فِیْ مَحَلِّہٖ‘‘ کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنا۔ قرآن مجید میں ہے : ’’اَلَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَکَ‘‘ (الانفطار:7) (اللہ) ہی کی وہ ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ پس تمہارے ناک نقشے درست کئے پھر تجھے متناسب بنایا یعنی تمہارے ہر عضو کو اس کے اصل مقام پر رکھا۔ چنانچہ اللہ کو اس کا اصل مقام دیا جائے تو اسے توحید کہتے ہیں اور اگر اسے اس کے اصل مقام سے ہٹایا جائے تو اسے شرک کہتے ہیں۔ اسی لئے شرک کو ’’ظلم عظیم‘‘ بھی کہا گیا ہے ۔ اس آیت میں عدل کا جو سب سے پہلا مصداق ہے وہ یہی ہے کہ اللہ کو اس کا اصل مقام دیا جائے یعنی توحید اختیار کیا جائے ، اللہ کے حقوق اداکئے جائیں اور اس میں کسی افراط و تفریط کو روانہ رکھا جائے ۔ مثلاً نماز اللہ کا حق ہے لیکن اس کے ارکان صحیح طور پر ادا نہ کئے جائیں۔ جلدی جلدی نماز ادا کی جائے تو یہ عدل کے خلاف ہے اسی لئے اسے نماز کی چوری سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اسی طرح نماز روزہ وغیرہ کی ایک مقدار لازم قرار دی گئی ہے کوئی اسے بڑھائے تو یہ بھی عدل کے خلاف ہے چنانچہ وہ صحابہ کرامؓ جنہوں نے رات رات بھر قیام اور مستقل روزہ رکھنے کا عہد کیا تھا آپؐ نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور اعتدال کی راہ پر چلنے کی تلقین کی۔
اسی طرح بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی عدل لازم ہے ۔ جس کا جو حق بنتا ہواسے دیا جانا چاہئے ۔ اس سلسلے میں کسی جانب داری کی گنجائش نہیں اور نہ کسی انتہا پسندی کی گنجائش ہے ۔ مولانا مودودیؒ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھاہے ’’عدل کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو دوسرے یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ’’انصاف ‘‘ سے ادا کیا جاتا ہے ۔ مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے ۔اس سے خواہ مخواہ یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہواور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لئے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے ۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری بعض حیثیتوں سے عدل بے شک افراد معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے مثلاً حقوق شہریت میں مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات اور اعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان معاوضوں کی مساوات پس اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی ، معاشرتی ، قانونی اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کئے جائیں ‘‘(تفہیم القرآن جلد 2 صفحہ 565)
(۲) احسان : احسان کے دو معنی ہوتے ہیں۔ (۱) کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا (۲) کسی کام کو اچھے ڈھنگ سے انجام دینا۔ یہاں دونوں مفہوم کی پوری گنجائش موجود ہے ۔ کائنات کی ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک مطلوبہے خوا ہ وہ ماتحت ہو، غلام ہو، جانور ہو، اپنا ہو، پرایا ہو، کیونکہ انسانیت نام ہی اس کا ہے کہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ۔ کوئی ہم سے کٹے تو ہم اس سے جڑ یں اور ہر حال میں اس کا بھلا چاہیں۔
احسان عدل پر ایک اضافہ ہے ، ان دونوں کے فرق کو سمجھنے کے لئے سادہ سی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ جب کوئی چیز تولی جائے تو دونوں پلڑے برابر ہوں یہ عدل ہے ۔ لیکن اگر جھکتا ہوا تولا جائے تو یہ جھکتا تول احسان ہے کیونکہ برابر سے زائد اس نے دیا۔ یہ چیز اعمال میں حسن پیدا کردیتی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ جب کسی سے قرض لیتے تو کچھ بڑھا کر لوٹاتے تھے تاکہ احسان کا پہلو غالب رہے اور اس کے احسان کا یک گونہ بدلہ بھی ہو جائے ۔ اسی طرح ہم جو فرائض ادا کرتے ہیں وہ عدل کے درجے میں آتے ہیں اور جو نوافل ادا کرتے ہیں وہ احسان کے درجے میں آتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ فرائض کی ادائیگی میں جو کمی بیشی ہو جاتی ہے نوافل اس کی بھر پائی کردیتے ہیں۔ اسی طرح صدقات نافلہ کے بارے میں بھی صراحت ہے کہ یہ اعمال کی کوتاہیوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔
انسان احسان کے درجے کو کیسے پہنچ سکتا ہے اس کی صراحت حدیث جبرئیل میں بہت خوبصورت انداز میں کردی گئی ہے۔ فرمایا گیا ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عباد ت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو پھر یہ احساس رہے کہ گویا اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے ‘‘۔ اگر اس کیفیت کے ساتھ ہر کام انجام دیا جائے تو احسان کے درجے کو پایا جاسکتا ہے ۔
(۳) ایتاء ذی القربیٰ(صلہ رحمی) یعنی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا۔ احسان کی تعریف میں گرچہ یہ چیزبھی شامل ہے لیکن اہمیت کے پیش نظر اسے الگ سے بیان کیا گیا ہے ۔ رشتہ داروں سے چونکہ روز کے معاملات ہوتے ہیں۔ اختلافات اور دوریاں بھی پیدا ہوجایا کرتی ہیں۔ اس لئے عموماً ان کے حقوق ادا کرنے میں لوگ کوتاہی برت جاتے ہیں۔ یہ سوچتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تو میں کیوں کروں ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے صلہ رحمی کرنے والا اسے نہیں کہا ہے جو بدلے میں صلہ رحمی کرے بلکہ آپﷺ نے صلہ رحمی کرنے والا اسے قرار دیا ہے جو رشتہ داروں کے کٹنے کے باوجود ان سے رشتہ جوڑے رکھے۔ ایک موقع پر تو آپﷺ نے فرمایا رشتہ داروں کو دینے والوں کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک تو دینے کا اور دوسرے صلہ رحمی کرنے کا ۔
یہ تین بنیادی مثبت اصول ہیں جو شخصیت کی تعمیر اور معاشرے کی تشکیل میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں اسی طرح تین منفی چیزیں ہیں جن سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے ۔ اگر معاشرے کو اس سے پاک و صاف نہ کیا جائے تو بربادی سے کوئی بچا نہیں سکتا۔
(۱) فحشاء: فحشاء کھلی ہوئی بے حیائی کے کام کو کہتے ہیں جیسے زنا اور ہم جنسی، برہنگی و عریانی، گالم گلوج، بدکلامی، فلم، عریاں تصاویر، اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا یہ سب چیزیں فحشاء میں شامل ہیں۔ اس کے تحت وہ سب برائیاں آجاتی ہیں جو قوت شہویہ کے افراط سے پیدا ہوتی ہیں۔
(۲) منکر: معروف کی ضد ہے ۔ یعنی اجنبی چیز۔ جس سے انسان اور اس کی فطرت مانوس نہ ہو ۔ جسے ہر انسان بُرا سمجھے اورشریعت نے بھی برا قرار دیا ہو مثلاً جھوٹ ، والدین کی نافرمانی ، چوری ، اتہام ، شراب نوشی وغیرہ۔ اس کے تحت وہ سب معاصی آجاتے ہیں جو قوت غضبیہ کے افراط سے پیدا ہوتے ہیں۔
(۳) بغی: یعنی حد سے تجاوز کرنا ۔ سرکشی کرنا، کسی کے ساتھ زیادتی کرنا اور کسی کے حقوق پر دست درازی کرنا اس کے تحت وہ سب حرکتیں آجاتی ہیں جو قوت و ھمیہ کے غلبہ سے وجود پذیر ہوتی ہیں۔
یہاں ان تینوں منکرات کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی سمجھنا ضروری ہے کہ لفظ منکر عام ہے اور اس کے مفہوم میں فحشاء بھی داخل ہے اور ’’بغی‘‘ بھی لیکن ’’فحشاء‘‘ کو اس کی انتہائی شناعت اور گھناؤنے پن کو ظاہر کرنے کے لئے الگ کرکے بیان فرمایا گیاہے اور مقدم رکھا گیا ہے اور ’’بغی‘‘ کو اس لئے الگ بیان کیا گیا ہے کیونکہ اس کا اثر دوسروں تک متعدی ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ تعدی باہمی جنگ و جدال اور عالمی فساد تک پہنچ جاتاہے۔
اس وقت جو عالمی صورت حال ہے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں آپ کو صاف نظر آئے گا۔ فحشاء کو فروغ دیا جارہاہے ۔ منکر کو معروف سمجھا جانے لگا ہے اور استعماری قوتیں بغی کی انتہا کو پہنچ گئی ہیں۔ ظاہر ہے یہ آثار اچھے نہیں ہیں۔ اگر انہیں نہیں روکا گیا تو پھر انسانیت کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ضرورت ہے کہ دنیا کے سامنے یہ چھ نکاتی پروگرام (تین اوامر اور تین نواہی ) پیش کیا جائے کیونکہ یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی مکمل فلاح کا نسخہ اکسیر ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں بنیادوں پر انقلاب برپا کیا تھا اور یہی پیغام ہر ایک کو سناتے تھے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔