فلسطینی نو عمروں کی داستانِ شجاعت

سید صفوان غنی

  مضمون کی سرخی بظاہر عجیب سی معلوم ہوتی ہے لیکن وہ لوگ جو انٹرنیٹ اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے فلسطین کی خبروں پر نظر رکھتے ہیں ان کے لئے اس مضمون میں زیادہ کچھ نیا نہیں ہے۔اخبار و رسائل اور انٹرنیٹ کی دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا دن ہوگا جب فلسطین کا ذکر نہ ہوتا ہو۔ ڈونالٹ ٹرمپ کے ذریعہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالسلطنت بنائے جانے کے فیصلہ کے بعد اسرائیل، فلسطین اور یروشلم پھر سے سرخیوں میں ہے۔البتہ اس بار کے واقعہ کے بعد فلسطینی حریت کا ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے۔وہ ہے وہا ں کے بچے اور نوجوان۔

جب کسی خاص گروہ یا خطہ پر ظلم کی داستان طویل ہو جاتی ہے اور محکومیت سے نجات کا راستہ نظر نہیں آتا تو پھرنوجوان اور بچے عَلم سنبھال لیتے ہیں ۔تحریک آزادیِ ہندکی تاریخ سکھ دیو، راج گرو، بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خان جیسے جانبازوں کی قربانیوں کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ان چاروں حریت پسندوں کی عمر تختہ دار پر چڑھتے وقت محض ۲۳ سے ۲۷ سال کے بیچ تھی۔جتندر ناتھ داس(عمر ۲۵ سال) کی موت بھوک ہڑتال سے ہوئی۔علائوالدین شیخ (۲۹ سال )بھارت چھوڑو تحریک میں گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے۔خودی رام بوس کی عمر صرف ۱۸ سال تھی جب انہیں پھانسی پر لٹکا یا گیا۔

  کچھ ایسا ہی پیٹرنPattern) (اب فلسطین کی تحریک میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔حالانکہ فلسطین میں ہونے والے احتجاج اور مظاہروں میں بچوں کی شمولیت پہلے سے ہوتی رہی ہے لیکن حالیہ چند برسوں میں اس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔دو نام جو ڈونالڈ ٹرمپ کے یروشلم والے بیان کے بعد بہت ہی نمایاں طور پر سامنے آئے وہ جنت جہاد اور (بالخصوص) عہد التمیمی کے ہیں ۔ جنت جہاداپنے آپ کو دنیا کی سب سے کم عمر صحافی مانتی ہیں ۔جنت کی عمر ابھی صرف ۱۰ سال ہے۔ الجزیرہ کو دیے اپنے انٹرویو میں وہ کہتی ہیں :

"My camera is my gun, The camera is stronger than the gun … I can send my message to small people, and they can send it to others.”

جنت کی خواہش بڑی ہو کر CNN یا   Fox Newsجوائن کرنے کی ہے۔اس کے مطابق یہ چینلز فلسطین کے متعلق رپورٹ نہیں کرتے ہیں ۔وہ چاہتی ہے کہ فلسطین کی خبریں زیادہ دکھائی جائیں ۔جنت جہاداور عہد تمیمی کا تعلق مغربی کنارہ West Bankکے ایک گائوں نبی صالح سے ہے۔اسی گائوں میں حضرت صالح  ؑ کا مزار ہے۔

عہد تمیمی کی عمر ۱۶ سال ہے۔شکل و صورت اور لباس سے وہ یوروپین یا آئیرش لگتی ہے۔سنہرے بال، نیلی آنکھ اور ٹی شرٹ و جینس میں ملبوس یہ دو شیزہ 2012میں دنیا کے سامنے اس وقت متعارف ہوئی جب اسرائیلی فوجی اس کی ماں کو گرفتار کر کے لے جارہے تھے۔اس وقت عہد کی عمر صرف ۱۱ سال تھی۔ اسرائیل فوجی کے آگے سینہ سپر، مُکہ دیکھاتی تصویرعہد تمیمی کی شجاعت اور فلسطینی حریت کی علامت بن گئی۔اس غیر معمولی بہادری کے لئے ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے عہد کو Handala Courage Awardسے نوازا۔

  نبی صالح میں ہر جمعہ غیر قانونی اسرائیلی بستی کی توسیع کے خلاف پر امن مظاہروں میں سب سے آگے تمیمی خاندان ہی ہوتا ہے۔عہد کے والد باسم تمیمی فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم اور جبر و تشدد کو "Silent Ethnic Cleansing”یعنی خاموش نسلی سفائی کہتے ہیں ۔عہد تمیمی کے خاندان کی تحریک فلسطین میں بے شمار قربانیاں رہی ہیں ۔1993میں عہد کی پھوپھی بسمہ تمیمی کو اسرائیلی فوجیوں نے زینہ سے نیچے گرا کر شہید کر دیا تھا۔2011میں اس کے چچا مصطفی تمیمی گیس گرینیڈ کے ذریعہ شہید کر دیے گئے۔اس کے اگلے سال ماموں رشدی تمیمی گولی لگنے سے شہید ہو گئے۔ باسم تمیمی تین سال تک بنا ٹرائل کے قید میں رکھے گئے۔2015میں عہد پھر اسرائیلی فوجی سے نہتے بھڑ گئی، اس باراس کے ساتھ اس کے والد اور والدہ بھی تھے۔ معاملہ عہد کے چھوٹے بھائی کو فوجی کے ذریعہ زدوکوب کئے جانے کا تھا۔یوٹیوب پر موجود اس ویڈیو کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایک لڑکی میں کیسے اتنی دلیری ہو سکتی ہے۔اس واقعہ کے بعد عہد تمیمی کی شجاعت مغربی میڈیا کو بھی تسلیم کرنی پڑی۔ این بی سی کو دیے ایک انٹرویو کا اقتباس دیکھیں :

"All I did was help my brother – if the soldier’s mother was also present she would have hit me because in the end he is her son and this is what we did…There are many Palestinian children who went through the same thing or something more difficult but there was no camera to film them…We the Palestinians are not going to wait for Saladin to liberate us..We are going to make our own Saladin and liberate ourselves…

(میں نے صرف اپنے بھائی کی مدد کی ہے۔اگر فوجی کی ماں وہاں ہوتی تو وہ بھی مجھے مارتی، آخر کو وہ فوجی اس کا بیٹا ہے۔یہی میں نے کیا۔ کئی فلسطینی بچے اس جیسے تشدد اور کئی دفعہ اس سے شدید تشددکا شکار ہوتے ہیں لیکن وہاں کیمرہ نہیں ہوتا جو یہ سب قید کر سکے۔ ہم فلسطینی صلاح الدین ایوبی کا انتظار نہیں کریں گے کہ وہ آئے اور ہمیں آزاد کرائے۔ہم اپنا صلاح الدین خود بنائیں گے تاکہ ہمیں آزادی مل سکے۔)

 ۲۶ ستمبر ۲۰۱۷کو یورپین پارلیمنٹ میں عہد تمیمی نے ’’Role of Women in the Palestinian Popular Resistance‘‘ موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی۔پچھلے مہینہ یعنی۱۵ دسمبرکو جمعہ کے بعد نبی صالح کے لوگ مظاہرہ کر رہے تھے۔ اسی دوران عہد کا چچا زاد بھائی فضل تمیمی اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں شدید زخمی ہو گیا۔عہد اپنی چچا زاد بہن نور اور ماں کے ساتھ ان دو فوجیوں کوتھپڑ رسید کر دیتی ہے۔ اسے شجاعت اور بہادری کی انتہا نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔عہد، اس کی ماں اور نور گرفتار کر لی گئیں ۔ عہد فی الحال حراست میں ہے، اس کے خلاف ۱۲مختلف دفعات لگائے گئے ہیں ۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی گرفتاری بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔اسرائیل کے وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ اسے جیل میں ہی مرنے دینا چاہیے۔اسرائیل کے ہی ایک مشہور کالم نویس بین کاسپٹ نے کہا ہے:

"in the case of the girls, we should exact a price at some other opportunity, in the dark, without witnesses and cameras”.

(لڑکیوں کے معاملہ میں ہم لوگوں کو ایک انعام مقرر کر دینا چاہیے کہ کسی خاص موقع پر جب تاریکی ہو، کیمرہ اورگواہ نہ ہوانہیں مار دیا جائے۔)

اسرائیل کی مشہورو معروف نیوز ویب سائٹ Ha’aretz.com نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے :

’’  "Israel will pay a heavy price for its aggression against this girl who resists the occupation, who acted with minimal violence toward the representatives of the army who invaded her home and had earlier critically wounded her cousin,”۔

  شینیلا کھوجا مولجی نے الجزیرہ پر لکھے اپنے ایک کالم میں سوال کیا ہے کہ آخر کیوں عہد کو میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دوسرے ادارے وہ اہمیت نہیں د ے رہے جو ملالہ کو دیا گیا تھا؟عہد کے ساتھ دوہرا معیار کیوں ہے؟ آگے وہ خود اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اس خاموشی کے پیچھے کئی وجوہ ہیں ۔پہلی وجہ عالمی برادری کا ریاستی طور پر کئے جانے والے تشددState Sanctioned Violenceکو جائز مان لینا ہے جبکہ غیر ریاستی عناصر Non-state actorsجیسے طالبان، بوکو حرام وغیرہ کی معاندانہ کاروائیوں کو غیر قانونی نظر سے دیکھا جانا ہے۔

  لیزا گولڈمین ایک دہائی سے مشرق وسطی بالخصوص فلسطین کور کرتی رہی ہیں ۔ 972mag.comپر لکھے اپنے ایک مضمون کی سرخی انہوں نے لگائی ہے:Nabi Saleh is where I lost my Zionism”(نبی صالح جہاں میں نے اپنی صیہونیت کھو دی)۔وہ لکھتی ہیں کہ میں نے کئی مہینے نبی صالح کے مظاہروں کو نزدیک سے دیکھا ہے مجھے کوئی ایک بھی اسرائیلی رپورٹر نہیں نظر آیا۔لیکن جب وہ واپس تل ابیب گئیں تو وہاں کے ریڈیو پر یہ خبر چل رہی تھی کہ ویسٹ بینک کہ کچھ گائوں میں فساد ہواہے اور فوج نے بڑے تحمل سے کام لیا۔اسی مضمون میں وہ آگے تحریر کرتی ہیں :

’’میں نے فوجیوں کے ذریعہ نوجوان لڑکیوں کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے فوجی گاڑی میں پھیکتے دیکھا ہے۔روڈ کی تپش اتنی زیادہ تھی کہ میرے جوتے کے تلوے بھی پگھلے جا رہے تھے۔۔۔یہ تمام تفصیل جو میں نے مظاہروں میں دیکھی ہے اس لئے لکھ رہی ہوں تاکہ بتا سکوں کہ کیوں اور کیسے اس جگہ نے مجھے Radicalizeکیا ہے۔نبی صالح میں فوجی تشدد کو کور کرنے کے بعد میرے ذہن و دماغ پر بہت برا اثر پڑا تھا جسے میں ابھی بھی محسوس کرتی ہوں ۔ـ‘‘

ایک بڑی میڈیا برادری فلسطین کے تعلق سے متعصب رہی ہے۔اس کے باوجود کچھ صحافی جو گرائونڈ رپورٹنگ کرتے ہیں ان کے غیر جانب دار ہونے کی وجہ لیزا کہ اس جملہ سے معلوم ہوتی ہے:

My radicalization was not only a consequence of witnessing brutal violence perpetrated right in front of my eyes, by soldiers of the army that was supposed to protect me. It was also a result of my seeing the Tamimi family endure that violence week after week, seeing their relatives injured, arrested and killed, and still not coming to the conclusion that the price of resistance was too high. They simply refuse to submit.

’’میرے ریڈیکلایزیشن کی وجہ صرف وہ  بدترین تشدد نہیں ہے جو میری آنکھوں کے سامنے فوجی کرتے رہے ہیں جن کا کام میری حفاظت کرنا تھا۔یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ میں نے تمیمی خاندان کو ظلم و تشدد کا مقابلہ صبر کے ساتھ کرتے دیکھا ہے۔ ان کے خاندان کے لوگ زخمی ہوئے، گرفتار کئے گئے اور کئی مارے بھی گئے اس کے باوجود وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ مزاحمت کی قیمت بہت زیادہ چکانی ہوگی۔ انہوں نے ہار نہیں ماننے کی ٹھان رکھی ہے۔‘‘

لیزا کے مضمون کا ایک ایک جملہ پڑھنے لائق ہے۔طوالت سے بچنے کے لئے یہاں صرف چند اقتباس ہی دیے گئے ہیں ۔

 گرفتاری سے چند روز قبل ابے مارٹن نے انٹرویو کے دوران عہد سے پوچھا کہ آپ یہ کس قسم کا ہار پہنے ہوئی ہیں ۔ عہد نے بنا کسی فخر، جوش اور جذباتیت کے بتایا کہ یہ ہار فوجیوں کی داغی گئی گولیوں کو اکٹھا کرکے انہوں نے بنایا ہے۔اس میں کی ایک گولی میرے چچا کو لگی تھی جس سے وہ شہید ہوئے تھے۔ ہم موت سے زندگی بناتے ہیں ۔

   فلسطین نے جاں نثاروں کی ایک نئی صف تیار کر لی ہے۔ ان کے پاس گولی اور بم نہیں ہے کیمر ہ اور سوشل نیٹ ورکنگ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ان کے پاس وہ عزم ہے جو فلسطینیوں کا امتیاز رہا ہے۔یہی عزم ابراہیم ابو ثریا کو دونوں پیر اسرائیلی بمباری میں گنوا دینے کے بعد بھی مظاہرین کا ساتھ دینے سے نہیں روک سکا۔ حتی کہ اس نے شہادت حاصل کر لی۔یہی عزم ایک بچی جنت جہاد کو جزبہ جہاد سے سرشار رکھتا ہے اور یہی عزم عہد تمیمی کو وراثت میں ملا ہے۔ جہاد کا یہ عہد اور عہد کا یہ جہاد شاید جلد ہی فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کا شاخسانہ ثابت ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔