سلیم شوق پورنوی: سیمانچل کے ادبی افق پر طلوع ہوتا نیا ستارہ 

 احسان الاسلام قاسمی

(پورنیہ، بہار)

تعارف

نام  =  سلیم صدیقی

قلمی نام  =  شوق پورنوی

تاریخ پیدائش  =  12 جنوری 1993 ء

والد  =  محمد مسلم صدیقی

والدہ  =  انصری خاتون

شریک حیات  =  روشنی

شادی کی تاریخ  =  7 ستمبر 2017  ء

آبائ وطن  =  بالسر . پوسٹ  : مجگواں

وایہ  : قصبہ .  ضلع  : پورنیہ .

حالیہ پتہ =  بی ٹی ایم لے آؤٹ .  فرسٹ اسٹیج.  گلی 7th – مین روڈ .

گروپن پارلیہ .  بنگلور .

موبائل نمبر  – 08667357643

دینی تعلیم  =  فضیلت و افتاء ( دیوبند)

عالم  =  مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسٹی ( جاری )

عصری تعلیم  =  بی اے ( مولانا آزاد یونیورسٹی )

پیشہ  =  درس و تدریس

شاعری کی ابتدا  =  طبع آزمائ چودہ سال کی عمر سے .

باقاعدہ شاعری کا آغاز  =  2014 ء سے .

اصناف شاعری میں طبع آزمائ  =  نظم، غزل، نعت .

استاد جن سے فیض حاصل کیا  :  اول مولانا سرور حسین قاسمی جو کہ ایک بہترین مزاحیہ شاعر ہیں پھر ان کے حکم کے مطابق جناب تلک راج پارس جبلپوری سے منتسب ہوا .  الحمد للہ اب تک ان سے منسلک ہوں . کبھی کبھی دیگر شعرا سے بھی اصلاح کی سعادت حاصل کر لیتا ہوں .  ان میں جناب احمد ندیم مورسنڈوی، علامہ مسیح الدین نذیری قاسمی، کامران غنی  خاص طور پر قابل ذکر ہیں .

اشاعت  =  اردو زبان کے کئ رسائل و اخبارات میں نعتیہ اور غزلیہ کلام کی اشاعت جن میں سالار ویکلی بنگلور، روزنامہ انقلاب پٹنہ، جنگ جدید دہلی، گھر گھر کی آواز  پٹنہ، نداۓ قاسم  پٹنہ، اخبار مشرق، ہندوستان ایکسپریس دہلی اور نشان منزل  پورنیہ وغیرہ.

مجموعہ کلام  =  زیر ترتیب .

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے

دوستو !  آج میں اپنے دل میں برسوں سے پلنے والے ایک خوف کا بیان کرنا چاہتا ہوں .  میں نے اپنی نوجوانی کے دور میں شعر و ادب کی بہت ساری اچھی محفلیں دیکھی، پورنیہ میں بھی اور ارریہ، کشنگنج، کٹیہار  وغیرہ شہروں میں بھی .  واہ !  کیا لوگ تھے ہمارے سینئرز بھی .  کن کن کا نام لوں اور کن کن کا گن گان کروں  ؟ اب ان میں سے کافی کم لوگ ہی بقید حیات ہیں .  ہمارے دور میں بھی ایک نئ ٹیم کی تشکیل ہوئ جسمیں بھائ مشتاق احمد نوری اور اصغر راز فاطمی کے بعد بھائ رفیع حیدر انجم، رضی احمد تنہا، دین رضا اختر،  رہبان علی راکیش، سنجے کمار کندن  اور  حشمت صدیقی وغیرہ اور تھوڑا آگے چل کر   ایس ایچ معصوم، انور ایرج اور ہارون رشید غافل………. اور اس سے آگے سناٹا ……  گہرا سناٹا  !!

یہی وہ خوف ہے جو برسوں دامنگیر رہا کہ آنے والے وقت میں  سیمانچل کا ادبی منظر نامہ کیسا ہوگا …..  کچھ ہوگا بھی یا نہیں  ؟

مجھے بے حد خوشی ہے کہ حالیہ چند برسوں میں جہانگیر نایاب، قسیم اختر، سلیم صدیقی،  خورشید انجم، عذیق الرحمن، نور الدین ثانی، شاداب وفا پورنوی، رضوان ندوی  اور ساجد اقبال وغیرہ  جیسے نئ نسل اور نۓ خون سے تعلق رکھنے والے شعرا اور ادبا سامنے آ رہے ہیں جو سیمانچل کے بدرنگ ہوتے جارہے آنچل میں ایک نیا رنگ بھرنے کی کاوشوں میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں.  برسوں بعد مجھے یہ اطمینان حاصل ہوا کہ ہمارے بعد بھی یہ محفلیں یونہی آباد ہوتی رہینگی، سجتی رہینگی  اور اس پرآشوب دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ضرور باقی رہینگے جو تن من دھن سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرنا اپنا فرض اولین سمجھینگے . یہ نہ صرف ہمارے لۓ یا سیمانچل کےلۓ بلکہ پوری اردو دنیا کےلۓ نہایت خوش آئند بات ہے جس کا میں نہایت گرم جوشی سے استقبال کرتا ہوں اور اس نئ نسل سے تعلق رکھنے والے امنگوں اور جذبوں سے بھرپور جواں سال شاعر جناب سلیم صدیقی عرف شوق پورنوی سے آپ تمام حضرات کا تعارف کروانا چاہتا ہوں  .

سلیم پورنوی کو گرچہ ابتدائ عمر سے ہی شعر گوئ کا شوق رہا اور طبع آزمائ جاری رہی تاہم بحر و وزن سے واقفیت کے بعد 2014  ء سے انہوں نے شاعری کا باضابطہ آغاز کیا . تین چار برس کی مختصر مدت میں ان کے فن میں جو اٹھان اور غزل کے جوبن پر جو نکھار آیا ہے وہ اس بات کی غماز ہے کہ ” ہونہار بروان کے ہوت چکنے  پات ". الفاظ کے انتخاب، لفظوں کے برتنے کے ڈھنگ، نئ تراکیب کے استعمال  اور اظہارِ خیال کے لۓ نئ راہوں کے چناؤ کے ساتھ ہی انداز بیان  سہل اور شگفتہ ہے .

ان کی شاعری سے میری پسند کے چند اشعار :

یہ سرد راتیں مجھے چین ہی نہیں دیتیں

چلے بھی آؤ کہ اب تم کو ہم لحاف کریں

.

تمہارے شہر میں ایسا بھی ہم نے دیکھا ہے

وہ بھوکے سوتے ہیں جو روٹیاں بناتے ہیں

.

مجھے یہ فکر ہے بچے بنینگے کیا آخر

جو کاغذوں پہ سدا روٹیاں بناتے ہیں

.

مجھے پتہ ہے یہ تم بے قصور ٹھہروگے

تمہارے چہرے پہ ہے خول پارسائ کا

نعت 

رحمت کی ہے تو شاں و رفعنا لک ذکرک

تو رب کا ہے مہماں و رفعنا لک ذکرک

طہ ہو کہ مزمل و مدثر و یسین

قرآں ہے ثنا خواں و رفعنا لک ذکرک

دشمن کو دعا دینا گلے سے بھی لگانا

ہے تیری یہ پہچاں و رفعنا لک ذکرک

ہے کون جو تعریف کرے تیری مکمل

ہے رب کا یہ فرماں و رفعنا لک ذکرک

توحید کا محور ہے تو اسلام کا معیار

حق کا ہے تو عرفاں و رفعنا لک ذکرک

بو بکر و عمر حضرت عثماں و علی پر

ہے تیرا ہی احساں و رفعنا لک ذکرک

دنیا کے سلاطین ہیں جاروب کشوں میں

تو سب کا ہے سلطاں و رفعنا لک ذکرک

تجھ جیسا جہاں میں کوئ آیا نہ کبھی بھی

ہم سب کا ہے ایماں و رفعنا لک ذکرک

ہے کتنا مکرم و مقدس و معظم

ہے عقل بھی حیراں و رفعنا لک ذکرک

دنیا کے گھٹانے سے نہیں شان گھٹے گی

کہتا ہے یہ قرآں و رفعنا لک ذکرک

اے شوق ! وہی افضل و اعلی ہے جہاں میں

ہے جو بھی مدح خواں و رفعنا لک ذکرک

…………

دلکشی آپ ہیں، دلبری آپ ہیں

قلب و اذہان کی تازگی آپ ہیں

آپ ہیں والضحی والقمر والدجی

سب سے اعلی و اولی نبی آپ ہیں

آپ کے در کے محتاج شاہ و گدا

سرور دو جہاں واقعی آپ ہیں

آپ نور خدا، آپ شمع ہدی

دین و ایماں کی روشنی آپ ہیں

بے کسوں، بے بسوں اور مظلوموں کی

زندگی، روشنی اور خوشی آپ ہیں

تاج ختم نبوت ملا ہے جسے

اور کوئ نہیں وہ نبی آپ ہیں

یوں تو دنیا میں آۓ سخی ہیں بہت

شوق، سخیوں کے لیکن سخی آپ ہیں

…………

عبادت ناز کرتی ہے، ریاضت ناز کرتی ہے

محمد ‘ ص ‘ کے غلاموں پر اطاعت ناز کرتی ہے

صحابہ سب کے سب سچے سبھی وعدے کے ہیں پکے

مگر صدیق اکبر پر صداقت ناز کرتی ہے

ہزاروں ہوتے آۓ ہیں جہاں میں منصف و عادل

مگر فاروق اعظم پر عدالت ناز کرتی ہے

بہت دلدار دنیا میں ہوۓ پیدا مگر لوگو

میرے عثمان پر لیکن سخاوت ناز کرتی ہے

تن تنہا وہ خیبر کے قلعے کو فتح کر ڈالا

علی کے زور بازو پر شجاعت ناز کرتی ہے

نبی کے روضے پر جاکر پڑھوں گا نعت میں اے شوق

وہاں کے ذرے ذرے پر نظافت ناز کرتی ہے .

…………….

غزلیات

چلو کہ جام بھریں رقص واشگاف کریں

چلو کہ حجرہء ساقی میں اعتکاف کریں

سنا ہے شیخ بھی آۓ ہیں بادہ خانے میں

کہو کہ شیخ خرابات کا طواف کریں

چلو کہ چل کے محبت کا اعتراف کریں

اصول اہل عداوت سے اختلاف کریں

یہ سرد راتیں مجھے چین ہی نہیں دیتیں

چلے بھی آؤ کہ اب تم کو ہم لحاف کریں

امیر شہر کے قدموں میں میں نہیں گرتا

وہ چاہے سارا زمانہ مرے خلاف کریں

فقیہ شہر کی طاعت تو لازمی ہے مگر

ہمیں یہ حق ہے کہ ناحق سے اختلاف کریں

مجھے گھسیٹ کے لائیں نہ اب سیاست میں

خدا کے واسطے اس سے مجھے معاف کریں

جناب شوق زباں پر شکایتیں کیسی

کہا تھا کس نے میاں عین شین قاف کریں

……………

کوئ پھر یاد کر رہا ہے مجھے

پھر سے برباد کر رہا ہے مجھے

میرے ہاتھوں میں دے کے وہ کاسہ

دیکھو فرہاد کر رہا ہے مجھے

بوجھ دے دے کے میرے کندھوں پر

خوب فولاد کر رہا ہے مجھے

پھنس کے پھندے میں آپ ہی بلبل

یارو !  صیاد کر رہا ہے مجھے

میری ہستی بہت ہی ویراں تھی

غم سے آباد کر رہا ہے مجھے

یار !  سیاسی محل بنانے کو

شوق بنیاد کر رہا ہے مجھے

………….

ہر طرف آج گل فشانی ہے

آج مستی میں رات رانی ہے

چاک سینہ ہے، تار دامن ہے

یہ بھی تیری ہی مہربانی ہے

شاعری شاعری نہیں میری

درد دل کی یہ ترجمانی ہے

جو بھی ملتا ہے زخم دیتا ہے

دل تو زخموں کی راجدھانی ہے

اس کو جادو سحر سے کیا ہوگا

عشق تو شوق آسمانی ہے

…………..

چڑھتے سورج کے سبھی یار پجاری نکلے

دوست سمجھا تھا جنہیں وہ تو شکاری نکلے

میں نے سمجھا تھا کہ تم وجہ مسرت ہو مری

تم بھی اوروں کی طرح وقت گذاری نکلے

اتنی آسانی سے میں ہارنے والا تھا کہاں

مرے احباب ہی دشمن کے حواری نکلے

ہم نے تم کو محبت کا خدا سمجھا تھا

تم تو احساس مروت سے بھی عاری  نکلے

زہد کے بھیس میں پھرتی ہے اداکاری بھی

شکل عیسی میں کئ لوگ مداری نکلے

فرط جذبات میں اے شوق برا حال ہوا

مجھ سے ٹکڑا کے  وہ جب نین کٹاری نکلے

…………..

آخر کو ہار ہی گئ تدبیر آپ کی

ہم نے اتار پھینک دی زنجیر آپ کی

غربت جہاں جہاں پہ پسینے بہاتی ہے

بنتی اسی جگہہ پہ ہے تعمیر آپ کی

کوفہ مزاج لوگ ہیں بستی میں سب کے سب

بے فائدہ ہی جاۓ گی تقریر آپ کی

جو دیکھتا ہے شوق وہی بولتا بھی ہے

اس پر لٹک رہی ہے کیوں شمشیر آپ کی

…………….

دل کے سادہ کاغذ پر پیار کی سیاہی سے

عشق لکھتا رہتا ہوں، عشق پڑھتا رہتا ہوں

نفرتوں کے ڈیروں پر دشمنوں کے شہروں میں

جذبہء محبت کا درس دیتا رہتا ہوں

مجھ پہ جو بھی گذرے ہیں حادثات دنیا کے

بیٹھ کر اکیلے میں وہ ہی لکھتا رہتا ہوں

کاغذی گلابوں سے خوشبو آ نہیں سکتی

میں بھی ضد کا پکا ہوں رنگ بھرتا رہتا ہوں

شوق میں نے سیکھا ہے صلح جنگ سے بہتر ہے

امن کا علم لے کر چلتا پھرتا رہتا ہوں

……………..

فقط اک گھر بسانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

کہ زخم دل چھپانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

بڑے بہروپۓ ہو روتے روتے کھلکھلاتے ہو

مجھے تو مسکرانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

اداکاری، ریاکاری سے واواہی تو ملتی ہے

مگر تاثیر لانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

یہاں پر کون جھوٹا ہے یہاں پر کون سچا ہے

فقط اتنا بتانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

مری خود داریاں شاید اسے بھی دور کردینگی

کہ حال دل بتانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

کوئ تو چند لمحوں میں غزل تخلیق کرتا ہے

کسی کو گنگنانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

زباں سے پیار کا دعوی بہت آسان ہوتا ہے

مگر دل سے نبھانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

…………….

سر سے دستار گری ہاتھ سے ہتھیار گرے

مصلحت اوڑھ کے جب قوم کے سردار گرے

کشتئ قوم بھلا پار کہاں سے لگتی

موج طوفاں سے گھبرا کے جو پتوار گرے

اور ہونگے جو ترے در پہ گرا کرتے ہیں

غیر ممکن ہے جو مجھ سا کوئ خوددار گرے

وہ کہ ہر روز عداوت کی بنا رکھتے ہیں

اپنی کوشش ہے کہ نفرت کی یہ دیوار گرے

ہم تو سمجھے تھے اٹھانے وہ ہمیں آئیں گے

بس یہی سوچ کے رستے میں کئ بار گرے

شوق دنیاۓ ادب کے کئ استاد سخن

بحر و اوزان میں لنگڑاتے کئ بار گرے

…………….

محبت کی جسارت ہو رہی ہے

اجی کیسی حماقت ہو رہی ہے

نوازش کا کوئ مطلب تو ہوگا

مجھی پر کیوں عنایت ہو رہی ہے

ترا چہرا مری غزلوں میں ابھرے

تری ہر دم زیارت ہو رہی ہے

قلم کو  قتل کا آلہ بنا کر

جہاں میں اب صحافت ہو رہی ہے

کسی کو کیسے اب اپنا بنائیں

کہ رشتوں کی تجارت ہو رہی ہے

یہ دل آمادہء غارت ہے پھر سے

مجھے پھر تیری چاہت ہو رہی ہے

ادب کے نام پر اے شوق اب تو

ادیبوں کی تجارت ہو رہی ہے

………….

قلم کی نوک دودھاری کروں گا

ستم پر وار میں کاری کروں گا

میں تنہا ہوں مگر ہمت ہے مجھ میں

کہ صحرا میں شجر کاری کروں گا

ترے دیدار کی پیاسی ہیں آنکھیں

ترے نینوں سے مے خواری کروں گا

مجسم حسن تیرا ماشاء اللہ

تجھی پر اب غزل کاری کروں گا

چمن کو کردیا ویراں اسی نے

جو کہتا تھا میں گل کاری کروں گا

دیار ہجر پہ اے شوق تنہا

غم دل سے ضیا باری کروں گا

تبصرے بند ہیں۔