ایک بری عادت جو قابل ترک ہے!

محمد سالم قاسمی سریانوی

 کل ہمارا ایک مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں گشت تھا، مغرب کی نماز کا وقت ہوا، امام صاحب ایک حافظ قرآن تھے، امامت فرمائی، وہی صاحب اس مسجد کے پیش امام بھی ہیں ، پہلی رکعت میں ایک سورت کے درمیان سے دو آیت پڑھی، دوسری رکعت میں بھی اسی طرح درمیان سورت سے اٹھایا اور چند آیتیں پڑھ کر رکوع کردیا، میری پوری نماز بے چینی اور کرب کی نذر ہوگئی؛ کیوں کہ امام صاحب نے جو انتخاب کیا تھا وہ جملے اور مفہوم کے اعتبار سے سابق ولاحق دونوں سے غیر مربوط تھا، کوئی بات مکمل نہیں تھی،( جس کی وجہ سے مجھ جیسے ناقص الفہم والصبر لوگ ضرور کرب کے شکار ہوجاتے ہوں گے) لیکن نماز تھی، کیا کرسکتے تھے، خیال آیا کہ بعد فراغت امام صاحب سے مل کر صورت حال کا تذکرہ کروں گا، لیکن امام صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکی۔

  یہ صورت حال جس کا میں نے تذکرہ کیا بہت ہی عام ہے، بارہا ادھر ادھر جانے کا اتفاق ہوا اور یہ عادت دیکھنے کو ملی ہے، یہ ایک عادت ہے جس کا احساس وشعور نہیں ہوپاتا، مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ یہ عادت بالکل غلط ہے، اس پر جمنا اور اس کے مطابق امامت فرمانا درست نہیں ہے، چہ جائے کہ(بقول فقہاء) نماز ادا ہوجاتی ہے، بعض مرتبہ دوران قرأت اتنی بے چینی اور افسوس ہوتا ہے کہ طبیعت نماز سے اچاٹ ہونے لگتی ہے اور ذہن دوسری طرف منتقل ہونے لگتا ہے، کیوں کہ یا تو امام صاحب ایسی جگہ سے قرأت شروع کرتے ہیں جس کا پورا ربط گزشتہ سے ہوتا ہے، اور شروع ہونے والی بات اسی کا تکملہ وتتمہ ہوتی ہے، اسی طرح کبھی بات شروع ہوتی ہے، اور اس کا مضمون ادھورا ہی رہتا ہے اور صاحب رکوع فرمادیتے ہیں ، جس سے مضمون پورا خبط ہوجاتا ہے اور نماز کرب کا شکار ہوجاتی ہے، اس کی ایک نہیں سینکڑوں مثالیں میری زندگی سے گزر چکی ہیں۔ (تحریر کی طوالت سے واقعات چھوڑ رہا ہوں ، ورنہ  ایسے ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ آپ بھی اپنا سر پیٹ لیں گے اور الامان والحفیظ کا ورد کرنے لگیں گے) فالی اللہ المشتکی

 چلیے! حفاط اور جاہلوں کی بات چھوڑ دیتے ہیں ، وہ آیت کا مطلب اور اس کا مفہوم نہیں سمجھتے ہیں ، لیکن علماء جو کہ نائبین رسول کہلاتے ہیں ان کو بھی دیکھاجاتا ہے کہ وہ بھی اسی عادت کے عادی نظر آتے ہیں اور ذرا بھی اس پر توجہ نہیں دیتے کہ بات کہاں سے شروع رہی ہے اور کہاں ختم ہورہی ہے، مضمون کیا ہے اور کہاں سے شروع کرنا مناسب ہے اور کہاں ختم کیا جائے!! اگر درمیان ہی سے پڑھنا ہو تو کم ازکم علماء کو تو اس کا خیال کرنا چاہیے کہ آیات مربوط ہوں ، ناقص نہ ہوں۔

   جب کہ مناسب یہ ہے کہ درمیان سے نہ پڑھا جائے؛ بل کہ سنت قرأت کی رعایت کرتے ہوئے اُس درجہ کی مکمل سورتیں پڑھی جائیں ، جیسا کہ فقہاء نے احادیث کریمہ کی روشنی میں استنباط کیا ہے۔

 یہ کہنے میں بھی کوئی جھجھک نہیں کہ آپ ﷺ سے ایسا ثابت ہے، لیکن آپ کا یہ معمول نہیں تھا، کبھی کرتے تھے۔ اسی وجہ سے فقہاء نے لکھا ہے کہ بہتر اور اولی یہ ہے کہ پوری سورت پڑھے اور ایک یا دو آیتوں پر اکتفاء نہ کرے۔ (ملاحظہ ہو فتاوی ہندیہ: ۱/۷۸، زکریا دیوبند، شامی:۲/۲۶۱، زکریا دیوبند)

 آج کل اس طرح قرأت کرنا عام ہوچکا ہے، اور لوگ اسی کے عادی ہورہے ہیں ؛ اس لیے یہ چیز قابلِ ترک ہے، بل کہ یہ چیز ائمہ کو بتائی جائے کہ کبھی ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ ایسا کرنے میں معنی اور مفہوم کی ضرور رعایت ہونی چاہیے، لیکن بہتر اور اولی یہ ہے کہ پوری سورت پڑھی جائے، چاہے وہ کوئی بھی سورت ہو، البتہ مسنون قرأت اور مقتدیوں کا خیال ضرور کیا جائے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    تبلیغی جماعت کی جدوجہد کا محور و مرکز کردار کی تعمیر نہیں بلکہ انسان کو عبادات کی طرف راغب کرنے کی حد تک ہے ۔ پہلی صف میں کھڑے ہونے کے فضائل ، تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز میں داخل ہونے کے فضائل ، اور اس طرح کے دیگر فضائل سے بندے کی کردار سازی نہیں ہوتی
    میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اس طرح بندہ عبادات کے سائیڈ افیکٹس کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جن میں زعم تقویٰ ، خود کو ہی درست سمجھنا ، دوسروں کو جہنمی پلید اور گھٹیا گمراہ سمجھنا وغیرہ شامل ہیں

تبصرے بند ہیں۔