فلسطین کا حق دار کون: اسرائیل یافلسطینی مسلمان؟

ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی

فلسطین کا مسئلہ اِک زمانے سے یہودیوں اور مسلم فلسطینیوں کے مابین اک نزاعی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس کی بنیاد پرنہ جانے کتنی خون کی ندیاں بہہ چکی ہیں ! نہ جانے کتنے خاندان تباہ ہوچکے ہیں ! اور نہ جانے کتنے ایمان فروش اپنے ایمان کا سودا کرکے رسوائے زمانہ ہوچکے ہیں !

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کا ہے، جبکہ رواں نصف صدی کے غاصبانہ قبضے سے پہلے تاریخ کے کسی دور میں بھی انہیں حاکمانہ اور فاتحانہ حیثیت میں وہاں رہنا، یا بسنا نصیب نہیں ہوا۔

اس کے برعکس مسلمانوں کی اس سے گہری وابستگی ابتدائے اسلام سے ہی ثابت ہے۔ قرآن پاک کی مشہور سورہ ہے، سورہ اسراء۔ اس سورہ کی ابتدا ہی اس بیان سے ہوتی ہے کہ بڑی عظمتوں کا مالک ہے وہ اللہ جو اپنے محبوب بندے ‘ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گیا، جس کے گرد وپیش ہماری طرف سے برکتوں کا سایہ رہتا ہے، وہ اسے لے گیاتاکہ وہاں اسے اپنی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ ارشادالہی ہے:

( سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ)

راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی، یعنی بیت المقدس آپ کو لے جانا، دراصل اس بات کا اعلان تھاکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالمی نبوت ہے، جس سے مسجد اقصی کا بھی ویسا ہی تعلق ہے، جیسا مسجد حرام کا۔ اور عنقریب مسجد حرام اور مسجد اقصی، دونوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھوں میں آجائیں گی۔

مسجد حرام کی کنجیاں تو فتح مکہ کے بعد ہی آپ کے ہاتھوں میں آگئیں ، اور مسجد اقصی کی کنجیاں دوسرے خلیفۂ راشدحضرت عمرؓ فاروق کے عہد خلافت میں آپ کی وفات کے چھ سال بعدمسلمانوں کے ہاتھوں میں آئیں ۔ مسجداقصی کی کنجیاں آپ کے ہاتھوں میں آئیں، یا آپ کے جاں نثاروں کے ہاتھوں میں آئیں ، دونوں ایک ہی بات تھی۔

سنہ 17 ہجری میں مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا‘ اور امیر المومنین حضرت عمرؓفاروق نے یروشلم کا تاریخی سفر کرکے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے وہاں کے عیسائی پادری سے اس کی کنجیاں حاصل کیں ۔

اس موقع پر امیر المومنین نے جس خوش اخلاقی، جس کشادہ دلی، جس عالی ظرفی اور جس بے لوثی سے وہاں کے عیسائیوں کے ساتھ معاملہ کیا، اورجیسے بلند اسلامی کردار کا مظاہرہ کیا، اس نے ان سب کا دل جیت لیا، اور ان میں سے بہت سے لوگ اسی وقت اسلام لے آئے۔ اس وقت سے مسلم امت کا بیت المقدس سے جو رشتہ قائم ہوا، وہ صدیوں تک قائم رہا، اور اس شان سے قائم رہاکہ فلسطین اسلامی تہذیب کا گہوارہ بن گیا، اور وہاں کے درودیوار سے اسلامی تہذیب کی شعاعیں پھوٹنے لگیں ۔ جب 1096 عیسوی میں اسلام اورمسلم حکومتوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا، تو اس کے نتیجہ میں کچھ مدت کے لیے دوسرے مسلم علاقوں کی طرح فلسطین پر بھی عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا، اور مسلم امت وہاں سے بے دخل ہوگئی۔ مگر یہ محرومی اورزبوں حالی زیادہ دنوں باقی نہیں رہی، جلد ہی وہ وقت آیا، کہ ملت اسلامیہ کے ایک جسور وغیور، نیک دل اور شیردل فرزند سلطان صلاح الدین ایوبی کے فلک بوس آہنی عزائم نے ظالم اور خوں خوارصلیبی طاقتوں سے ٹکّر لی، اور اس طرح ٹکّرلی کہ ان کے کبرو نخوت کے شیشے چکنا چور ہوگئے! اس نے یکے بعد دیگرے ان پر تابڑتوڑ حملے کیے، اوراپنی زبردست ایمانی حرارت، اور بے پناہ جنگی مہارت سے ا ن ظالم وجابرحکومتوں کے پرخچے اڑادیے،  بالآخر نوّے (90) سال کے ظالمانہ قبضے کے بعدوہ صلیبی طاقتیں نہایت بے بسی کے ساتھ پیچھے ہٹنے، اوربیت المقدس کو دوبارہ مسلم امت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئیں !اس وقت سے لے کر خلافت عثمانیہ کے سقوط تک، یعنی مسلسل کئی صدیوں تک فلسطین کی سرزمین مسلم امت کو اپنی آغوش محبت میں لیے رہی، اورنہایت آب وتاب کے ساتھ اسلامی تہذیب وثقافت کی نمائندگی کرتی رہی۔

پھر پہلی عالمی جنگ کے موقع پر 11؍ دسمبر1917 عیسوی کی منحوس صبح طلوع ہوئی، اور انگریز اپنے لاؤلشکرکے ساتھ فلسطین میں داخل ہوگئے، اور ناجائز طور پر اس پر قابض ہوگئے۔

پھرکچھ عرصہ بعدجب انہیں دوسرے ممالک کی طرح فلسطین سے بھی بھاگنا پڑا، تو انہوں نے شرق اوسط میں اپنے گھٹیامفادات کے تحفظ کے لیے وہاں حکومت اسرائیل کا قیام ضروری سمجھا، حکومت اسرائیل کے لیے انہوں نے فلسطین کا انتخاب کیا، اس لیے کہ ان کے ذلیل استعماری مقاصدکی تکمیل کے لیے فلسطین سے زیادہ موزوں کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی تھی۔ اسی وقت سے انہوں نے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف گھناؤنی سازشوں کے جال بننے شروع کردئیے، اور نہایت بے رحمی اور سفّاکی کے ساتھ وہاں کے مسلمانوں کوقتل کرنے، جو وہاں صدیوں سے بسے ہوئے تھے، انہیں وہاں سے بھگانے، اور ان سے فلسطین کو خالی کرانے کی ناپاک مہم شروع کردی۔ ان گھناؤنی سازشوں میں اقوام متحدہ نے ہر طرح سے ان کا ساتھ دیا، اورآج تک نہایت بے شرمی سے ان کا ساتھ دے رہی ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے، کہ کسی زمانے میں مسلمانوں نے بھی بہت سے ملکوں کو فتح کیاتھا، جس طرح دوسری قومیں مختلف زمانوں میں ملکوں کو فتح کرتی رہی ہیں ، مگر مسلمانوں کی فتوحات اور دیگر قوموں کی فتوحات میں بنیادی فرق یہ رہا ہے، کہ دوسری قوموں نے ہمیشہ ملکوں کو فتح کیا ہے انہیں لوٹنے، ان کے خزانوں پر قبضہ کرنے، اور اپنی سلطنت،  یا اپنے دائرۂ اقتدار کووسیع کرنے کے لیے، چنانچہ اس کے لیے انہوں نے وہاں کے باشندوں کو بے دریغ قتل کیا، ان کی آبادیوں کو نہایت بے دردی سے لوٹا، اور ہرطرح سے ان کی طاقت توڑنے،  اور ان کی تعداد گھٹانے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس مسلم امت نے جب بھی ملکوں کو فتح کیا ہے، وہاں کی مظلوم رعایا کو ان کے ظالم وجابر بادشاہوں سے نجات دلانے کے لیے فتح کیا ہے، انہوں نے ہمیشہ ظالم بادشاہوں اوران کی خونخوارفوجوں سے جنگ کی ہے، کبھی رعایا پر ہاتھ نہیں اٹھایا ہے۔ انہوں نے کبھی کسی بوڑھے، کسی کمزور، کسی عورت، اور کسی بچے پر ہاتھ نہیں اٹھایا، نہ کسی بھی طور سے انہیں کوئی نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی اور غم خواری کا معاملہ کیا ہے، کبھی انہیں لوٹنے اور اجاڑنے، اور وہاں کی دولت اپنے ملکوں میں منتقل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ حد یہ ہے کہ جن دشمن فوجوں سے انہوں نے جنگ کی ہے، جنگ ختم ہونے،  اور ان پر فتح حاصل ہوجانے کے بعدان کے زخمی فوجیوں کو جان سے ماردینے کے بجائے خوداپنے ہاتھوں سے ان کی مرہم پٹی کی ہے، حسب ضرورت ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا ہے، اور ہرطرح سے ان کی جان بچانے، نیزان کے اخلاق سنوارنے، اور انہیں حق کی روشنی دکھانے کی کوشش کی ہے!چنانچہ مفتوحہ ممالک کی رعایا نے انہیں ہمیشہ اپنے لیے رحمت سمجھا ہے، انہیں اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی ہے، اور جب وہاں سے وہ رخصت ہونے لگے ہیں ، تو باصرار انہیں روکنے کی کوشش کی ہے، اور اگر وہ رکنے کے لیے تیار نہیں ہوئے، تو محبت اور تشکر کے گرم گرم آنسووں کے ساتھ انہیں رخصت کیا ہے !مسلم امت کی فتوحات، اور دوسری قوموں کی فتوحات میں یہ بنیادی فرق ہے، جس کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ایک جنگ قوموں کے لیے رحمت ہوتی ہے، اور دوسری جنگ عذاب ہوتی ہے، جس سے جنگل کے درندے، اور بلوں میں رہنے والے سانپ بھی پناہ مانگتے ہیں !

بہر کیف یہ بات ہمیں کبھی نہیں بھولنی چاہیے،  کہ پہلی عالمی جنگ سے پہلے پوری تاریخ میں یہودی قوم کافلسطین سے کوئی تعلق نہیں رہا، جبکہ مسلم امت کااس سے تعلق ابتدائے اسلام سے ہے، اور یہ تعلق چند مہینوں اور چند سالوں کا نہیں ، بلکہ مسلسل کئی صدیوں پر مشتمل ہے۔ فلسطین سے مسلمانوں کابس یہی تعلق نہیں کہ وہ ان کا صدیوں پرانا وطن ہے، بلکہ ہجرت مدینہ کے بعدتقریبا سولہ سترہ ماہ تک بیت المقدس ان کا قبلہ رہا ہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ اپنی پنجگانہ نمازیں ادا کرتے رہے ہیں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے:

(عن البراء بن عازب قال صلینا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نحو بیت المقدس ستۃ عشر شہرا، أو سبعۃ عشر شہرا، ثم صرفنا نحو الکعبۃ)

گویا تاریخ کے ایک دور میں مسلم امت کے لیے بیت المقدس کی وہی حیثیت رہی ہے، جو اس سے پہلے، پھر اس کے بعد سے لے کر آج تک، بلکہ قیامت تک کے لیے خانۂ کعبہ کو حاصل رہی ہے، اور حاصل رہے گی۔ یہودی قوم کے پاس فلسطین کا حق دار ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، سوائے اس کے کہ فلسطین اللہ تعالی کے ان بے شمار رسولوں اور نبیوں کا مرکز رہا ہے، جن کا نسبی تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اک زمانۂ دراز تک فلسطین نبوت ورسالت کا مرکز رہا ہے، اور اس نبوت ورسالت کے تاج داروں کی بڑی تعداد بنی اسرائیل سے تعلق رکھتی تھی۔

حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت داؤدؑ،  حضرت سلیمانؑ، حضرت زکریاؑ،  حضرت یحییٰؑ، حضرت عیسیؑ،  اور نہ جانے کتنے انبیاء ورسل جن کے نام بھی کسی کو نہیں معلوم، اس لیے کہ قرآن پاک نے ان کی طرف صرف اشارے کیے ہیں ، ان کے نام نہیں لیے ہیں ، وہ سارے انبیاء ورسل، یا ان میں سے بہت سے لوگ اسی سرزمین مقدس میں مبعوث ہوئے، اور کار نبوت ورسالت انجام دینے کے بعد وہیں پیوند خاک ہوگئے۔ یہودی قوم ان میں سے بہتوں کواپنا نبی کہتی، ان کا وارث ہونے کا دعوی کرتی، اور بطور وراثت اس سرزمین کا حق دار ہونے پر اصرار کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ کے ان نبیوں اور رسولوں سے یہودیوں کو کیا واسطہ؟یہودی تو ان رسولوں میں سے کسی ایک رسول پربھی ایمان نہیں لائے، نہ انہیں برداشت کیا، اس کے برعکس وہ اپنی تاریخ کے ہر دور میں ان سے برسرپیکار رہے!جن کووہ قتل کرسکے، انہیں قتل کردیا۔ جن کو قتل نہیں کرسکے، انہیں جھٹلاتے اور ان کی مخالفت کرتے رہے۔ قرآن پاک میں یہودیوں کو سرزنش کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

(أَفَکُلَّمَا جَاء کُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَہْوَی أَنفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقاً کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقاً تَقْتُلُونَ۔ سورہ البقرۃ:87)

(تو کیا ایسا ہے کہ جب جب تمہارے پاس کوئی رسول آیاایسی تعلیمات لے کر جو تمہاری طبیعت کے خلاف تھیں ، توتم نے نخوت کا مظاہرہ کیا، کسی کو تو تم نے جھٹلادیا، اور کسی کے خون کے پیاسے ہوگئے!)

یہاں بجاطور پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے، کہ کیا انبیائے بنی اسرائیل پربنی اسرائیل میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ ایسا نہیں ہے، بلا شبہہ اللہ کے ہر نبی اور ہر رسول پربنی اسرائیل کے تھوڑے یا زیادہ لوگ ایمان لاتے رہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے، مگر ایمان لانے کے بعد وہ لوگ یہودی یا عیسائی نہیں رہتے تھے۔

وہ اپنے آپ کو مسلم کہتے تھے، اور مسلم ہی کہلانا پسند کرتے تھے۔

وہ اپنی قوم کو یہودیت یا عیسائیت کی نہیں ، بلکہ اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ درج ذیل آیات اس سلسلے میں کس قدر واضح ہیں :

(وَقَالَ مُوسَی یَا قَوْمِ إِن کُنتُمْ آمَنتُم بِاللّہِ فَعَلَیْْہِ تَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّسْلِمِیْن۔ ۔ ۔ ۔ سورہ یونس:84)

(موسیؑ نے کہا:اے میری قوم!اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو، تواس سے اچھی امیدرکھو، اگرتم اسلام کے شیدائی ہو!)

(حَتَّی إِذَا أَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّہُ لا إِلِہَ إِلاَّ الَّذِیْ آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَاءِیْلَ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِیْن۔ یونس :90)

(یہاں تک کہ جب وہ فرعون ڈوبنے لگا، تو اس نے پکارا:میں ایمان لایا اس بات پرکہ کوئی الہ نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں ، اور میں بھی مسلم امت میں شامل ہوں !)

(وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلاَّ أَنْ آمَنَّا بِآیَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاء تْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْْنَا صَبْراً وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْن۔ الاعراف: 126)

فرعون کے جادوگروں نے کہا:(ہم پرتمہارا غصہ صرف اس وجہ سے ہے، کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اپنے رب کی آیتوں پر، جب وہ ہمارے پاس آئیں ، اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر انڈیل دے، اور ہماری جان جائے، اس حال میں کہ ہم مسلم ہوں !)

(قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔ النمل: 44)

(ملکۂ سبا نے کہا:اے میرے رب! میں نے اپنے اوپربڑا ظلم کیا، اور سلیمان کے سایے میں رہتے ہوئے میں بھی اسلام لے آئی اللہ کے لیے، جو سارے انسانوں کا پالنہار ہے۔ )

(فَلَمَّا أَحَسَّ عِیْسَی مِنْہُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِیْ إِلَی اللّہِ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللّہِ آمَنَّا بِاللّہِ وَاشْہَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ۔ آل عمران: 52)

(توجب عیسیؑ نے دیکھاوہ کفرپر مصر، یعنی ان کے قتل کے درپے ہیں ، توپکارا: کون ہیں میرے مددگار اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے کہا: ہم ہیں اللہ کے مددگار، ہم ایمان لے آئے ہیں ، گواہ رہیے کہ ہم مسلم ہیں ۔ )

(وَإِذْ أَوْحَیْْتُ إِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ أَنْ آمِنُواْ بِیْ وَبِرَسُولِیْ قَالُوَاْ آمَنَّا وَاشْہَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ۔ المائدۃ : 111)

(یاد کرو، جبکہ میں نے حواریوں کی طرف وحی کی، کہ ایمان لے آو? مجھ پر، اور میرے رسول پر! انہوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، اور گواہ رہیے کہ ہم سب مسلم ہیں ۔ )

ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے، کہ بنی اسرائیل میں آنے والے نبیوں اور رسولوں نے کبھی بھی یہودیت یا عیسائیت کی دعوت نہیں دی، بلا استثناء وہ سب مسلم تھے، اور ان سب نے اپنی قوم کو اسلام کی ہی دعوت دی۔ اس طرح جو لوگ ان پر ایمان لائے، وہ سب مسلم کہلائے، اور جو لوگ ایمان نہیں لائے، وہ اپنی یہودیت یا عیسائیت پر نازاں رہے، اور اپنے آپ کو یہودی یا عیسائی کہتے کہلاتے رہے۔

اس موقع پر کوئی بھی ہوشمند اور عاقل انسان بآسانی یہ فیصلہ کرسکتا ہے، کہ ان انبیاء ورسل کے وارث یہودی ہوں گے، یا مسلم امت ہوگی؟ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

(إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَاللّہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ آل عمران: 68)

(ابراہیم ؑ سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کی پیروی کی، نیز اس سے سب سے زیادہ قریب یہ نبیؑ ہے، اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے ہیں ، اور اللہ ان مومنین کا سرپرست ہے)

یہودی قوم نہ صرف یہ کہ ان نبیوں اوررسولوں کی کسی بھی طور سے وارث نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ ان سب کی دشمن ہے، لہذا ان میں سے کسی کا نام لینے کا بھی اسے حق نہیں ۔ یہ بلا استثنا ان تمام رسولوں اور نبیوں کی دشمن ہے، اور خود حضرت موسی ؑ کی بھی دشمن ہے، جن کا وہ نام لیتی، اور جن کی لائی ہوئی تورات کا وہ حوالہ دیتی ہے۔

اس قوم نے حضرت موسی علیہ السلام کو کتنا تنگ کیا ہے، اور کس کس طرح انہیں اذیت پہنچائی ہے، اس کا ذکر جگہ جگہ قرآن پاک میں موجود ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:

(یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِندَ اللَّہِ وَجِیْہاً۔ سورہ احزاب:69)

(اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا، جنہوں نے موسیؑ کو اذیت پہنچائی، تو اللہ نے بچالیااسے ان کی اذیتوں سے، وہ اللہ تعالی کے ہاں بڑے رتبے والا تھا۔ )

ایک دوسری جگہ خود حضرت موسیؑ نے اپنی قوم سے اسی بات کا شکوہ کیا ہے:

(وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِیْ وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّیْ رَسُولُ اللَّہِ إِلَیْْکُمْ۔ سورہ الصف: 5)

(اوریادکرواس وقت کوجب موسی نے اپنی قوم سے کہا:اے میری قوم !تم کیوں مجھے اذیت پہنچاتے ہو؟ جب کہ تم اچھی طرح جانتے ہوکہ میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں !)

اس قوم نے جب حضرت موسی علیہ السلام کی قدر نہیں کی، تو وہ ان کی لائی ہوئی تورات کی قدر کیا کرتی ؟ چنانچہ اس نے پوری ڈھٹائی سے اس پر تحریف کی قینچی چلائی، اور اسے اپنی نفسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھال لیا !یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ اس وقت یہودی قوم کے ہاتھوں میں جو تورات ہے، یہ وہ تورات نہیں جو حضرت موسی علیہ السلام لائے تھے، حضرت موسی علیہ السلام جو تورات لائے تھے، وہ تورات اس سے بالکل مختلف تھی!اس میں بہت سی وہ باتیں ہیں ، جواس میں نہیں تھیں ، اوربہت سی وہ باتیں جو اس میں تھیں ، اس میں نہیں ہیں ۔ ضروری ہے کہ ان باتوں کو ہم اچھی طرح سمجھ لیں ، اس لیے کہ ان کے سلسلے میں بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔

آج ہمارے درمیان ایسے لوگوں کی کمی نہیں ، جو حضرت موسی، حضرت داؤد، اور حضرت سلیمان علیہم السلام کو یہودیوں کا نبی کہتے ہیں ! حالانکہ یہ سب نبی ہمارے ہیں ، یہودیوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ رسولوں اور نبیوں کا تعلق کبھی نسل وقرابت کی بنیادپر نہیں ہوتا، بلکہ ایمان وتقوی کی بنیاد پرہوتا ہے۔ جوگروہ ان کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا،  اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہوگا، وہی ان کاوارث ہوگا، اور جو ان کے راستے سے ہٹا ہوا، اور ان کی تعلیمات سے بے زار ہوگا، اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ آج ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو یہودیت اور عیسائیت کو آسمانی مذاہب شمار کرتے ہیں ، حالانکہ یہودیت اور عیسائیت کا وحی ورسالت، یاخدا اوراس کے رسولوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ تعالی کے ہاں سے آیا ہوا دین بس ایک دین ہے، دین اسلام۔ اللہ تعالی نے اپنی پیاری کتاب میں صاف صاف اس کا اعلان فرمادیا ہے۔ ارشاد الہی ہے: (ان الدین عند اللہ الاسلام)یعنی ’’اللہ کے نزدیک دین بس اسلام ہے۔ ‘‘

اسلام کے علاوہ جتنے بھی ادیان اور جتنے بھی مذاہب ہیں ، وہ انسانوں کے خود اپنے بنائے ہوئے ہیں ، ان ادیان ومذاہب کو اختیار کرکے انسان کبھی بھی اپنے رب کو نہیں پاسکتا، نہ کبھی فلاح وکامرانی کا منہ دیکھ سکتا۔ اس طرح یقینی طور پریہودیت اور عیسائیت کی بالکل وہی حیثیت ہے، جو دنیا کے دوسرے ازموں اور دوسرے انسانی مذاہب کی ہے۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود، چونکہ دین اسلام سارے انسانوں کے رب کا بھیجا ہوا دین ہے، اور وہ سارے انسانوں کی رہنمائی اور خیرخواہی کے لیے آیا ہے، اس وجہ سے اس میں کسی طرح کی تنگی نہیں ہے، اس کا سینہ سب کے لیے کشادہ ہے۔ اگر یہودی آج بھی اپنی اسلام دشمنی، اور مسلم دشمنی سے باز آجائیں ، اور فلسطین کے معزز شہریوں کی حیثیت سے فلسطین میں رہنا چاہیں ، تو مسلم قوم کووہ دوسروں سے زیادہ عالی ظرف اور فراخ دل پائیں گے۔ لیکن اگروہ مسلم امت کی غیرت وحمیت،  اور اس کے وقار کو چیلنج کرتے ہیں ، اور ظلم وبربریت سے اس کے کسی خطۂ زمین پر قبضہ کرکے اسے یہودی ریاست بنانا چاہتے ہیں ، تو مسلم امت کسی بھی حال میں یہ ذلت برداشت نہیں کرسکتی، وہ آخر دم تک اس کے لیے لڑتی رہے گی۔ اگرمسلم امت کے سروں پر مسلط کچھ حکمرانوں اور بادشاہوں کا خون سفید ہوگیا ہے، تو اس سے اسرائیل کودھوکہ نہیں کھانا چاہیے !

اسرائیل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے،  کہ آج بھی مسلم امت کی رگوں میں دوڑنے والا خون نہایت سرخ ہے، اور ایمانی حرارت سے کھول رہا ہے، وہ اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لیے ہربازی کھیل سکتی، اور اپنی قیمتی سے قیمتی متاع کو داؤں پر لگا سکتی ہے!وہ اپنے سروں پر مسلّط ظالم وجابر اور اسلام دشمن حکم رانوں اور بادشاہوں سے بھی عاجز آچکی ہے، اور اللہ تعالی کی مدد شامل حال رہی، تو وہ وقت دور نہیں جب وہ ان سب کو اپنے پیروں سے روند کرسارے عالم کے لیے نمونۂ عبرت بنادے گی!

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    فلسطین میں ہیکلِ سلیمانی یہودیوں کی مقدس عمارت تھی۔۔۔ رومیوں نے 70 عیسوی میں ہیکلِ سلیمانی کی آخری دفعہ اینٹ سے اینٹ بجا ئی ۔ یہودیوں کی خوب قتل وغارت کی اور ان کو مار مار کر وہاں سے بھگایا تھا۔۔ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ ان کو مارا گیا۔
    ان کی عبادت گاہ کو مسمار کر دیا ,جو رفتہ رفتہ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی۔ یہودی ہر سال وہاں مذہبی رسومات کے لئے انفرادی طور پر جاتے تھے ۔ لیکن یہ شر پسند قوم پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی تو 132 ء میں ان کا جیروشلم داخلہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔۔۔۔ اور پھر وہاں عیسائی مذہب کو سرکاری طور پر رائج کر دیا گیا۔
    یہود اب تو بس چھپ چھپا کے ہر سال گریہ وزاری کے لئے آتے تھے اور رو پیٹ کر چلے جاتے تھے۔۔۔۔ تا آنکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں فلسطین کا علاقہ مسلمانوں نے فتح کیا۔۔۔
    یہودیوں کے اپنے بیان( جو ایک دفعہ بی بی سی ریڈیو پر بھی نشر ہوا تھا) کے مطابق عیسائیوں نے ان پر ناقابلِ بیان ظلم و زیادتی روا رکھے ہوئے تھے کہ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے آ کر ان کو اس ظلم سے نجات دلائی۔ انہیں باضابطہ طور پر عبادت و زیارت کی اجازت دی۔۔ ہیکل سلیمانی کی اپنے ساتھیوں سے مل کر صفائی کی، اور ہیکلِ سلیمانی سے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الگ جگہ پر ایک مسجد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بنا دی. تب سے لے کر 1918 تک فلسطین کا علاقہ تقریباً مسلمانوں کے زیرِ سلطنت ہی رہا۔۔۔۔
    لیکن خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد انگریزوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کر کے وہاں لا کر بسا دیا۔ تب سے اب تک ان کا یہ دعوٰی ہے کہ فلسطین بنیادی طور پر یہودیوں کا ہے اور مسلمان وہاں ناجائز قابض ہیں ان کو وہاں سے نکالنا ہو گا۔۔ اور اب بیت المقدس میں وہ اپنا دارالخلافہ قائم کر رہے ہیں۔۔
    یہ اس قضئے کا حقیقی اور سیاسی پہلو ہے۔۔۔
    دوسری طرف مظلوم مسلمانوں کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں ہے کہ چونکہ ہمارا وہ قبلہ اول ہے اس لئے فلسطین پر ہمارا حق ہے۔۔ یہ دلیل مزید کمزور ہو جاتی ہے جب کچھ ناعاقبت اندیش مذہبی پیشوا یہ کہہ کر، کہ فلسطین کی سیادت خود اللہ نے ہی یہودی نسل کو سونپ دی اور آج وہ اپنی ریاست بنانے مین کامیاب بھی ہو چکے ہیں، اور عرب کی سیادت اللہ نے بنی اسماعیل کو سونپی اور وہ اج تک وہاں پر حکمران ہیں(بمطابق ویڈیو جاوید غامدی)،
    اس میں آخری کیل ٹھونک دیتے ہیں۔
    اور پھر جب آپ نے خود جیروشلم کو مسلمانوں کا سابقہ قبلہ تسلیم کر کے ان کا جیروشلم سے عقیدت کا جذباتی رشتہ بھی جوڑ دیا تو پھر اوپر سے فلسطینیوں کو صرف سیاسی جدو جہد کے بھاشن دینا محض افسانہ نگاری ہے۔
    سوال یہ ہے کہ جب مسلمان فلسطین میں گئے تو
    کیا مسلم فاتحین نے فلسطین سے باہر سے مسلمانوں کو وہاں لے جا کر بسایا؟
    ہر گز نہیں۔۔۔۔ جب فلسطین مسلمانوں کے زیرِ تسلط آیا تو یہودیوں نے کلمہِ شکرادا کیا اور وہاں جو آبادی موجود تھی اس کو مسلمانوں نے قطعاً وہاں سے نہیں نکالا۔۔۔۔
    وہاں کی مقامی آبادی نے اسلام قبول کیا اور اج تک وہاں وہی مقامی آبادی موجود ہے۔ اس سے تو صدیوں پہلے ہی یہودیوں کو وہاں سے مار مار کر نکال دیا گیا تھا۔۔۔۔ اور وہ لوگ ظاہر ہے کہیں مرکھپ گئے ہوں گے۔
    تو سوچئے آپ ایک جگہ پر ڈیڑھ ہزار سال سے آباد ہیں اب کوئی باہر سے آ کر کہے کہ جی یہاں سے نکلو یہ تو ہمارا علاقہ ہے تو اپ پر کیا بیتے گی!!! اس کا احساس صرف فلسطینی مسلم عوام ہی کر سکتی ہے۔۔۔۔
    پھر تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری بیوی کی وجہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کو مکہ کی طرف نکلنا پڑا تھا تو اب فلسطین پر بنی اسماعیل کا بھی حق ہے!
    جن یہودیوں کو رومیوں نے مارا ، قتل کیا ۔ جو بھی ہوا ہمیں اس سے کیا؟
    ہم تو جب فلسطین گئے تو وہاں ایک آبادی موجود تھی۔ اب بھی وہی آبادی ہے۔۔ اور یہی یہودی اس وقت حضرت عمر کے احسان مند و شکر گزار ہوئے تھے۔
    آبادیاں بوجوہ ہجرت کرتی رہتی ہیں لیکن کیا یہ دعو’ی درست ہو سکتا ہے کہ جو 50 نسلیں پہلے ہمارے ابو الآباء چونکہ فلاں جگہ پیدا ہوئے تھے تو اس بنیاد پر اب ہم اسی جگہ پر جا کر قبضہ کریں گے۔ ؟ اس طرح تو پوری دنیا کو آدم و نوح کی جائے پیدائش پر اپنا حق جتا کر وہان کی مقامی آبادی کا قتلِ عام شروع کر دینا چاہیئے۔
    کیا یہ مقامِ حیرت نہیں کہ امریکہ میں کروڑوں کی تعداد مین ریڈ انڈینز (کالے) کا خون بہا کر وہاں قبضہ کرنے والوں (موجودہ امریکی نسل) یورپین کا تو قبضہ آج تک عین درست اور جائز ہے,
    فلسطین کی مقامی آبادی کا وہاں رہنا صرف اس لئے ناجائز ہو گیا کہ
    أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ۔۔۔۔؟؟؟؟
    (لیکن یہ بات اتمامِ حجت والوں کو سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ ان کے نزدیک مشرکینِ مکہ کے ساتھ جنگوں کی اساس رسول اللہ کی زندگی کے ساتھ ختم ھو گئی)۔۔۔

    فلسطین فلسطینی آبادی کا ھے۔ مسلمان باھر سے لا کر آباد نہیں کئے گئے لہاذا ان کو نکالا نہیں جا سکتا۔۔۔۔
    پھر یہودیوں کو نہ مسلمانوں نے قتل کیا نہ ملک بدر کیا ۔۔۔۔
    اب مسلمانوں کو سزا صرف اس چیز کی مل رھی ھے کہ
    (الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ
    فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ صرف اس جرم کی پاداش میں توڑے جا رھے ھیں کہ انہوں نے محمد رسول اللہ کا کلمہ کیوں پڑھا ھے۔۔۔ ؟
    حالانکہ مسلمان ھی وہ قوم ھے جس نے اِن یہودیوں کی عبادت گاہ کی حفاظت اور صفائی کی۔ اور یہ مسلمانوں کا دینی فریضہ تھا۔ ان کی عبادتگاہ کی جگہ اپنی عبادتگاہ تعمیر کرنا تو بہت دور کی بات ھے۔۔۔۔
    وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ)
    [سورة الحج 40]

    یہودی دعویٰ:
    یہود بھی مسلمانوں کی طرح مذھب کے نام پر بھی دعویٰ کرتے ھیں۔۔۔۔ وہ تا حال اصل مسیح کے انتظار میں ھیں جو آتے ھی ان کو مصائب سے نکال دے گا۔ لیکن ان کی آمد سے پہلے ھیکلِ سلیمانی کی تعمیر لازم ھے۔۔۔۔۔ اور اب وہ یہ تعمیر کرنا چاھتے ھیں۔۔۔۔ وہ اپنے اپ کو خدا کی برگزیدہ قوم سمجھتے ھیں ان کے نزدیک غیر یہودی کا خون مباح ھے۔

    یعنی ایک طرف مسلمان اپنا کتابی حق رکھتے ھیں تو دوسری طرف یہود بھی اس پر اپنا کتابی حق سمجھتے ھیں۔۔۔۔

    دیکھا جائے تو مذھبی طور پر دونوں کا دعویٰ غلط ھے۔۔۔۔
    اسلام نسل کی بنیاد پر کسی کو حکمرانی کا حق تفویض ھی نہیں کرتا۔۔۔۔
    اگر ایک شخص کے اعمال بہت برے ھیں تو کیا اس کے نیک بیٹے کے اعمالِ صالحہ اس بنیاد پر برے قرار پا جائیں گے کہ اس کا باپ برا ھے؟ ھر گز نہیں۔۔۔ باپ کے اعمال کی سزا بیٹے کو ھر گز نہین دی جا سکتی۔۔۔ مغضوب علیہم سے کسی ایک قوم کی آنے والی سب نسلوں کا مراد لینا بالبداھت غلط ھے۔۔۔ اللہ کا غضب کسی بھی قوم پر اس کے اعمال کے سبب آ سکتا ھے۔۔ اور مشرکینِ مکہ جو دنیا و آخرت میں ھمیشہ کے لئے نامراد ھو گئے ان کی اولادیں الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کیوں نہیں؟
    مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ جیروشلم ہمارا سابقہ قبلہ ہے اور یہ کہ نبی کریم نے قبۃ الصخرا جا کر انبیا کو نماز پڑھائی اور وہیں سے آسمانو ں کو گئے ۔ اور اب چونکہ وہ ہمارے نبی تھے لہذا ہم نے وہاں مسجد اقصیٰ بنا لی۔۔۔۔
    یہ دعویٰ کر کے ہم نے اپنا کیس خود خراب کر دیا۔۔۔ ہم نے یہ تسلیم کر لیا کہ ہم نے یہودیوں کی عبادت گاہ کی جگہ پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کر لی۔۔۔۔ اب ظاہر ہے ہم نے یہود کی در اندازی کا جواز تو خود پیدا کر دیا۔۔۔۔۔
    اور مصیبت یہ ہے کہ مسلمان اپنی غلط نگہی اور اندرونی خلفشاروں کی وجہ سے اپنا کیس درست طور پر کبھی پیش نہیں کرتے۔۔۔ جب بھی کوئی مسئلہ بنا بس یہی آواز اٹھی کہ وہ ہمارا قبلہ اول ہے۔
    یاد رہنا چاہئے کہ فلسطین ” ہمارا” نہیں ہے بلکہ مظلوم فلسطینیوں کا ہے اور یہودی باہر سے آ کر یہاں ناجائز قبضہ کر رہے ہیں۔ ”
    ہمارا قبلہ پہلے دن سے کعبہ ہے جسے حضرت ابراھیم و اسماعیل نے تعمیر کیا۔ (إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ)
    ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے دو طرفہ گفتگو ہونی چاہئے۔ جس میں مذہبی عقیدت کو بنیاد بنانے کی بجائے زمینی حقائق اور جغرافیائی حالات کو بنیاد بنایا جائے۔۔۔ اور مسلمانوں کا مؤقف بجائے عقیدت کے، کنکریٹ انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور یو این او اور او آئی سی کے پلیٹ فارم کے ذریعے فلسطینیوں کو یہودی و عیسائی گٹھ جوڑ کے ظلم سے نجات دلانے کی سبیل پیدا کی جائے تا کہ ان مظلومین کو اپنے گھروں میں جینے کا حق مل سکے۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔