تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

سیدہ تبسم منظور

(ناڈکر،ممبئی) 

تعلیم کے مقاصدمیں طلبا کی ترقی شامل ہے۔ مذہبی، سماجی، اخلاقی، معاشی وغیرہ ترقی کے لئے تعلیم ہی ذمے دار اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ علم انسان کو انسانیت کا سبق سکھاتا ہے۔ تہذیب،تمیز اور شرافت، حق و باطل میں میں تمیز، صراط المستقیم پر چلنا، سلیقہ اور شعور وغیرہ تمام اخلاقی اقدار بہترین تعلیم کی شکر گزار ہیں۔

  نظام تعلیم کے چار اہم رکن ہیں۔ استاد، نصاب، زبان اور طالب علم۔ ان تمام میں استاد کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ ایک قابل اور بہترین استاد کمزور  و غیر مکمل نصاب کو بھی اپنی قابلیت اور کاریگری سے کارگر انداز میں طلباء کو پڑھا سکتا ہے۔ لیکن آج ہمارے معاشرے کا درد ناک حصہ ہے کہ ہم استاد کی اہمیت کو ہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ استاد کی عزت و احترام کرنا تو دور کی بات ہے۔ وہی دوسری طرف کئی استاد ایسے بھی ہیں جو بچوں کے تئیں اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے لئے مہنگے سے مہنگے اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان اسکولوں میں جن کی عمارتیں بڑی، کشادہ اور پر کش ہوتی ہیں۔ اور ان کی نئی نئی سہولیات کی وجہ سے ہم ان اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ بڑی اور پرکش عمارتیں بہترین نظام تعلیم کی ضامن نہیں ہیں۔ جن بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کا کچھ بننے کا جذبہ ہو تو بچے سرکاری اسکولوں میں بھی تعلیم حاصل کر کے ایک اچھے اور قابل انسان بن جاتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تہذیب، تمیز اور تربیت بھی بے حد ضروری ہے۔

  اج اس سماج میں جو تعلیم کے ٹھیکیدار  بنے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے تعلیمی نصاب کو پرامن سماج میں فساد برپا کرنے کے لئے زہر آلود بنا دیا ہے۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کے لئے کس طریقے کے نظام تعلیم کا انتخاب کرنا چاہئے ؟ کیا ہم نے ہمارے بچوں کے لئے جو تعلیمی نظام منتخب کیا ہے اس کے ذریعے ہمارے بچوں کے تعلیمی مقاصد کا فائدہ ممکن ہے؟  کیونکہ آج کے حالات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ ہماری غلطیوں اور نامکمل نظام تعلیم کی وجہ سے طلباء کس حد متاثر ہیں۔ آٹھویں تک کے طلباء کو کامیاب کرانے کاحکم جاری ہے۔ جب یہ طلباء نویں دسویں جماعت میں پہنچتے ہیں تو نہ ہی انھیں لکھنا آتا ہے نہ پڑھنا۔ آگے ان بچوں کا مستقبل کیا ہوگا  ؟   گیارویں بارہویں کے بچے اپنے  پیپر میں  فلمی گیت لکھتے ہیں، یا کئی کوئی وجہ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں پاس کر دو۔ آج ہمارے معاشرے میں طلباء کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر کیا ان ڈگریوں کے مطابق قابلیت اور صلاحیت ان کی شخصیت میں دکھائی دیتی ہے؟  جواب ملے گا نہیں۔ بڑے بڑے نامور اسکولوں سے بھی کئی فارغ بچوں کا یہ حال ہے کے اگر کسی سرکاری دفتر یا بینک یا اور کہیں آفس وغیرہ میں کوئی فارم پر کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو وہ وہاں کے ملازمین کی منت سماجت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا یہ ڈگریاں  صرف دیواروں کی زینت بننے کے لئے ہیں یا پھر اپنے تعلیمی سفر کی فائل کا وزن بڑھانے کے لئے حاصل کی گئی ہیں۔ نا ہی شخصیت کے معیار کو بلند کرنے کے لئے، اب جب غیر معیاری شخصیت کے مالک اپنی ڈگریوں کو ذریعہ بنا کر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تو کیا وہ اپنے پیشے کے تئیں وفا دار ثابت ہو سکتے ہیں ؟  نہیں ہرگز نہیں۔ جب انھیں ملازمت دی جائے تو ڈگری کے ساتھ ساتھ  ان کی قابلیت بھی دیکھی جانی چاہئے۔ بہت سارے ایسے بھی طلباء ہیں۔ جن کے پاس ڈگریاں زیادہ نہیں ہوتیں، کسی وجہ انہیں اپنے تعلیمی سفر کو ادھورا چھوڑنا پڑتا ہے۔ پر ان طلباء میں ہنر اور قابلیت ہوتی ہے اس کے باوجود وہ بیچارے ملازمت سے محروم رہتے ہیں۔ کئی بار تو انہیں ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ اگر ایک طالب علم میں ڈگریوں کے ساتھ صلاحیت، قابلیت،اور ہنر ہو تو وہ شخصیت اور نکھر کر سامنے آتی ہے۔

 اب جو ہوچکا سو ہوچکا اسے بدلا تو نہیں جاسکتا۔ لیکن آنے والے وقت کے لئے ہمیں بہتر سے بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سرکاری اسکولوں کے نصاب پر نظر ڈالتے ہوئے اس میں شامل غلطیوں اور نا مناسب اسباب سے محکمہ تعلیم کو آگاہ کرتے ہوئے اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تاکہ ان کا بھی تعلیمی معیار بلند ہو سکے۔ ملازمت فراہم کرنے والے اداروں نے امیدواروں کا تقرر تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر کرنا چاہئے۔ تاکہ آعلی معیاری ملازمین اپنی قابلیت کی وجہ سے اپنی ملازمت کو سر انجام دے سکیں۔    انسان کی شخصیت کا ذمے دار صرف اسکول یا استاد نہیں بلکہ گھر اور گھر کے اطراف کا ماحول، ان میں رہنے والے لوگ انسانی شخصیت کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ ماں کی گود ہی اولاد کا پہلا مدرسہ ہے۔ انسان وہی سے سیکھنا شروع کرتا ہے۔ اور تعلیم کا یہ پہلا سلسلہ مرتے دم تک انسان کےساتھ ہوتا ہے۔ اچھی تعلیم چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے حاصل کی گئی ہو انسان کی عمدہ اور بہترین شخصیت کی ضامن ہے۔ جس طرح ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ بلکل اسی طرح بہترین تعلیم سے عمدہ شخصیت نکھر آتی ہے۔

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

 ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے  اسے پھیر

(علامہ اقبال )

تبصرے بند ہیں۔