فن رپو رتاژ نگاری: ایک مطالعہ

محمدرضا ایلیاؔ

تحریر کی وسا طت سے پیش آمدہ واقعات و حا د ثات کوعلمی و فنی کمالات سے قارئین کے دل و دماغ میں اتار دینے کے ہنر کو رپورتاژکہتے ہیں۔ حقیقت پر مبنی رپورتاژنگاری کو پر کشش الفاظ، نرالے انداز، انو کھے طرز میں تحریر کرنا اس کی بنیادی اوراساسی اصولوں میں شمار کیا جا تا ہے۔ ان سب باتوں کے لیے لازمی ہے کہ ماضی کے تذکرے کامطالعہ کرنے کے بعدا س میں حالا ت حا ضرہ کی بول چال اور محاورات کو حسن و خوبی کے ساتھ شامل کر لیا جائے۔ اگر رپورتاژ کے مفہوم کو وصی اللہ کھو کھر کی مرتب کر دہ قاموس ’’ جہانگیر اردو لغت‘‘ کے توسط سے سمجھنے کی کو شش کریں تو وہ تحریر کرتے ہیں کہ

’’ چشم دید واقعات کا ایسا بیان جو حقیقت کو مسخ کیے بغیر پر تخیل ادب کی تعریف میں آسکے۔ ‘‘ اسے رپورتاژ سے تعبیر کرتے ہیں۔ دراصل لفظ رپورتاژ فرانسیسی زبان کے لفظ ’’Rapportage‘‘ کی تارید ہے جس کے معنی خفیہ رپورٹ کے ہیں۔ (۱)

وہیں دوسری طرف ہم اگر’’ آن لائن اردو لغات‘‘ ملا حظہ کریں تو اس میں رپورتاژ کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں ملتا ہے :

’’ رپو رتاژ سب سے پہلے ۱۹۶۳ میں ’’ جدید کے دو تنقید ی جا ئز ہ ‘‘ میں مستعمل ملتا ہے۔ انگریزی زبان ’’Reportage‘‘ سے اردو میں تصرف کے ساتھ داخل ہوا۔ عربی رسم الخط میں بطور اسم مستعمل ہے۔ رپو رتاژ اسم معرفہ۔ مذکر ہے۔ (۲)

لا نگ مین یونیورسل ڈکشنری میں لا نگ نے رپورتاژ کی تعریف یوں کی ہے۔

’’خبرنگاری کا عمل۔ ایسی تحریر جس کا مقصد سانحہ کی حقیقی تصویر پیش کر نا ہو۔ ‘‘(۳)

ڈیوڈگرامبس نے لٹریری کمپینئن ڈکشنری میں رپورتاژ کا مطلب کچھ اس طرح لکھاہے :

’’ایسی خبر نویسی یا حالات حاضرہ کی اصل رپورٹنگ جو براہ راست مشاہدے ؍ دستاویزی حیثیت، حادثات یا حالات، خبرنویسی یا نیو ز اسٹوری پر مبنی ہو۔ ‘‘(۴)

علی سر دا ر جعفری ’’رپو رتاژ ‘‘کے بارے میں اپنے تاثرات کااس انداز میں اظہار کر تے ہیں :

’’یہ صنف ادب رپورتاڑ بالکل نئی ہے۔ لیکن بے انتہا اہم ہے۔ یہ صحافت اور افسانہ کی درمیانی کڑی ہے۔ اور اس سے ہمارے ادب کو بے انتہا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ رپورتاڑ ہمارے مقاصد کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے ذریعہ سے ہم بڑے بڑے کام لے سکتے ہیں ‘‘۔ ۵

کتاب ’انتخاب سجاد حیدر یلدرم‘کی مرتبہ ثریا حسین رپورتاژکی وضاحت کر تی ہوئی تحریر کرتی ہیں ـ:

’’ رپورتاژ ایک فرانسیسی لفظ ہے اور چند سال سے اردومیں مستعمل ہو چکا ہے۔ رپورتاژ میں رپو رٹر بیرونی حقائق کے ساتھ ساتھ ادبی رنگ میں اپنے ذاتی تاثرات کو بھی پیش کر تا ہے جب کہ رپورٹ یا سفر نامہ محض حقائق پر مشتمل ہو تا ہے۔ (۶)

جس وقت ؍ زمانے میں قلمکار تحریر کر رہا ہے اس وقت کی بولی جانے والی زبان کا بھی استعمال اچھی رپورتاژ نگاری کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جو ہم زبان استعمال کریں وہ عام فہم ہو نے کے ساتھ ساتھ روز مرہ کے الفاظ کے ساتھ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ واقعات اور حادثات میں متروک الفاظ و کلمات کا بکثرت استعمال کریں۔ غیر مستعمل الفاظ سے پر ہیز کرتے ہوئے مستعمل اور ایسے جدید الفاظ کی مدد سے تزئین کا ری کریں جو گزرے ہوئے وقت کی عکا سی کرتاہو۔

رپو رٹر کو اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ سامنے کی بات نیز سطحی باتوں کے ذریعہ فوراً نتیجہ اخذکر لیتا ہے جبکہ آنے والے دنوں میں سچائی جب اس کے برعکس ہوتی ہے تو رپو رٹر س معذرت کر کے بات کو ختم کر دیتے ہیں۔ اب تو عام سی بات ہو گئی ہے کہ تازہ رپورٹ کے مطابق یوں ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر رپورتاژنگار کا صرف یہ کام نہیں ہے کہ وہ واقعات و حادثات کو سطحی نظر سے دیکھ کر فیصلہ کر دے بلکہ گزرے ہوئے واقعات، لمحات کی تہہ تک جائے اور ہر ہر نکات کو عمدہ طریقہ سے تحقیق کر کے تجزیہ کرے۔ یہ بات بھی ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ جو تجزیہ ہم کر رہے ہیں اس کو سادگی کے پیراہن میں بالکل نہ پرو ئیں بلکہ اچھے، پر لطف اوردل کو موہ لینے والے انداز میں پیش کریں۔ بات کی تہہ تک جانے کے بعد ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے جیسے کہ رنگ لا تی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد۔ ’حنا ‘رپورٹر کے مثل ہے اور گھسنے کے بعد جو رنگ آتا ہے وہ رپو رتاژ ہے۔

جملے کی ہیرا پھیری سے، تخیلات کی تبدیلی سے بہت کچھ بدل جا تا ہے۔ ایک واقعہ، ایک ہی منظر کو الگ الگ انداز میں پیش کر کے اپنی تحریر کے رنگ دو بلا بنا سکتے ہیں۔ ہاں توآپ متوجہ ہیں ! دیکھئے یہ وہ عجیب منظر !

۰      خونخوار شیر ہرن کا شکارنہیں کر سکتا۔ یہ اس کی عاجزی کی علا مت ہے۔

۰      چالاک ہرن نے برق رفتاری سے اپنی تیز رفتار چوکڑی کی مدد سے شیر کو مات دے دی۔

۰      شیر نے صحیح وقت کا انتخاب نہیں کیا۔ جس کا فائدہ ہرن کو جیون دان کی شکل میں ملا۔

۰      شیراپنے لنچ کے لیے دوڑ رہاتھا اس لیے ہا ر گیا۔ ہرن اپنی زندگی کے لیے بھاگ رہا تھا اس لیے وہ جیت گیا۔

۰      ہرن کی زندگی کے سامنے شیر کی بھوک نے دم توڑ دیا۔

یہاں اگر غورکیا جائے تو واقعہ ایک ہے مگر بیان اوررپورٹر کا انداز بالکل مختلف اور برعکس ہے۔ مختلف رپورتاژوں نے واقعات کی صداقت کو نظریات، تخیلات کے ذریعہ اپنے اپنے دلچسپ انداز میں پیش کر کے قارئین، ناظرین کو با ندھے رکھا۔ اب عوام کے اوپر منحصر ہے کہ کس کو کس انداز میں پسند کر تا ہے۔

ڈاکٹر احتشام حسین کے نزدیک صنف رپور تاژ ادب کا حصہ تو ہے مگر اس کی شکل و صورت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے۔ تاجور سامری کی رپورتاژ ’’ جب بندھن ٹوٹے‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’رپو رتاژ کو ہم واقعات کی ادبی اور محاکا تی رپو رٹ کہہ سکتے ہیں۔ ادب کی شکل نہ تو واضح ہے اور نہ اتنی پرانی کہ اس کے حدود تعین کیے جائیں گے۔ ‘‘(۷)

لکھنؤکی تاریخ، واقعات، حادثات، بلندی اور تنزلی کے مناظر کو بہت سے لوگوں نے قلمبند کیا مگر بعض کو شوق اور دلچسپی کے ساتھ پڑھا جا تا ہے نیز کچھ خاص تحریر ایسی ہیں جن کو مکمل پڑھے بغیر سکون نہیں ملتا، کچھ تو ایسی ہیں جن میں بوریت کا احساس ہو نے لگتا ہے جب کہ وہ عمدہ اور تحقیقی ہوتیں ہیں۔ تاریخ لکھنؤ میں ’’ گزشتہ لکھنؤ‘‘ کے حوالے مر زا جعفر حسین نے لکھا اور ان کا انداز کچھ اور ہے۔ یہی تاریخ لکھنؤاور اجڑتا ہوا اودھ کو’’ یادوں کی برات‘‘ میں جو ش ملیح آباد ی کی تحریر کا مطالعہ کریں تو ان کا انداز بالکل دلکش ہے۔ زیادہ تر لو گوں کو پسند بھی آتا ہے کیونکہ انہوں نے تحریر کو نوک جھونک، نرالے انداز کے ساتھ لکھا ہے۔ یہی حال رپورتاژکا ہے ہمیں اس انداز میں لکھنا چاہئے کہ رپورتاژ مکمل ہوجائے تشنگی بھی باقی رہے نتیجہ تصور کی منزل میں نہ ہو بلکہ تصدیق ہو جائے۔

ڈاکٹرخلیق انجم ’’اردو میں رپورتاژنگاری ‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :

’’اردومیں با قاعدہ رپورتاژنگاری کا ارتقاترقی پسند مصنفین کے ہاتھوں ہوا۔ سجادظہیر نے ’روشنائی ‘میں لکھاترقی پسند مصنفین کے ان جلسوں کی تفصیلی روداد اور ان کی فضا کو حمید اختر بڑی خوبی کے ساتھ قلم بند کر تے تھے۔ ہر جلسہ میں وہ بحیثیت سکریٹری انجمن کے گزشتہ ہفتے کی روداد پڑھتے تھے۔ عام طور سے سکریٹری کی رپورٹ ایک خشک اور رسمی سی چیز ہوتی ہے لیکن حمید اختر نے ان رپورٹوں میں بھی ادبی رنگ پیدا کر دیا اور اس طرح غالباً وہ ایک نئی ادبی صنف کے مو جد سمجھے جا سکتے ہیں۔‘‘(۸)

رپورتاژ کو حا دثات، گزرے ہوئے واقعات کا ثمرہ کہا جا تا ہے۔ اس کا مطلب یوں سمجھ لیجئے کہ حیات انسانی کے ہر پہلو واقعہ، حا دثہ اور رنج و غم خو شی و فرحت کو آنکھوں دیکھا حال کی اس طرح منظر کشی کر نا کہ جذبات کی پوری طرح سے ترجمانی ہوجائے۔ منظر یا ما حول کا نقشہ دلکش انداز میں اجا گر ہو جائے۔ رپو رتاژ کے لیے یہ لا زمی ہے کہ فروعی اطلاعات کو چھو ڑتے ہوئے اصول اطلا عات کو لفظ بہ لفظ، ہو بہو یعنی جس طرح، جس شکل میں، جس وقت، جس ساعت، جس لمحہ میں دیکھئے اس کو بعینہ بیان کرے تبھی صحیح معنی میں رپو رتاژ کا حق ادا ہو گا۔ یا یوں کہا جائے تو کوئی مبا لغہ آرائی نہیں ہو گی کہ رو نما ہو نے والے واقعہ و حادثہ میں شمہ بھر بھی تبدیلی کے بغیر بیان کر دے۔

شرر نے اجتما ع کی اس رودادکے بارے میں لکھا جو ۹؍ مئی بروز یک شنبہ ۱۸۸۷ ء کو قیصر باغ لکھنؤ کے تاریخی میدان میں انجمن دار السلام کی جانب سے منعقد ہوا تھا۔ جس میں شرر کے مطابق بیس سے پچیس ہزار لو گوں نے شرکت کی۔ انہوں نے آنکھوں دیکھے مناظرزمانہ حال میں لکھا۔ ایک اقتبا س ملا حظہ ہو :

’’ان پر شوق آنکھوں نے کیا دیکھا، ایسا کچھ دیکھا کہ آنکھوں کو تمنا رہ گئی، نہیں دیکھا، نہیں دیکھ رہی ہیں۔ ہم ایک وجد کے عالم میں جھوم رہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان خطیبوں کی معجز بیانیاں دلوں میں آگ لگائے دیتی ہیں۔ ایک طرف جناب منشی امتیاز احمد صا حب جوش و خروش کے ساتھ تقریر کر رہے ہیں، غصے میں ابھر نے والے خون کی طرح اسلامی جو ش رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے اور بے ساختہ وجد میں آکر مسلمانوں کے پر جوش ہجوم سے سبحان اللہ، جزاک اللہ۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب مر زا محمد ہا دی رسوا صا حب اپنی عالمانہ تقریر سے ایک بہت بڑی جما عت کو اسلام کا جان فروش خادم بنائے دیتے ہیں۔ ‘‘(۹)

رپورتاژ نگار وں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ہر گز ہر گز یہ نہ دیکھے کہ اس کی رپورتاژنگاری سے عوام یا زما نہ یا آئندہ وقت میں اس کے اثرات کیا مر تب ہوں گے۔ ہمت مر داں مدد خدا کے اصول پر چلتے ہوئے حق بیانی اور علمی لیا قت، فنی صلاحیت، تحریر ی مہا رت، قلمی قوت سے گزشتہ مناظر کو رقم کر دے۔ رپو رتاژ کے لیے سب سے عمدہ اور حالات حا ضرہ میں بخوبی سمجھی جانے والی مثال کمنٹری ہے۔ تمام شا ئقین ریڈیو ؍ٹی وی پر بر سوں سے سنتے چلے آر ہے ہیں۔ کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والا ہر انسان کمنٹری کو سنتا ہے مگر کبھی آپ نے غور کیا کہ کمنٹری کو ہم انتی غور سے کیوں سنتے ہیں ؟اس کی طرف ہمارا رجحان اتنا زیا دہ کیوں ہے ؟ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ کمانٹیٹر ایسے انداز میں اور موجودہ وقت کے کچھ طنز و مزاح کے ساتھ، تاریخ میں اس سے متعلق گزرے ہوئے واقعات کو شامل کر تے ہوئے کمنٹری کر تا ہے یہ اس کی حسن بیانی ہے۔ جبکہ اگر آپ غور کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کھلاڑی تو اپنے سادہ انداز میں کھیل رہا ہے اس طرح کا کچھ مظاہر ہ نہیں کر رہاہے مگر کمانٹیٹر کھلاڑیوں کے حرکات و سکنات کو پر لطف انداز میں پیش کر تا ہے اور سامعین اور ناظرین خوشی سے جھوم جا تے ہیں۔ رپور تاژنگاری کے فن کو سمجھنے کے لیے کمنٹری بہترین مثال ہے۔

ترقی پسندوں نے رپورتاژکے فن کو بہت دلچسپ بنا کر پیش کیا اور اس فن کو ایک با قاعدہ صنف کی حیثیت دی گئی۔ جنہوں نے رپورتاژ لکھے ان کی با قاعدہ طور پر ماہنا مہ رسالے ؍ جریدے میں اشاعت ہوئی بعدمیں جو طویل رپو رتاژ تھے وہ کتابی شکل میں منظر عام پر آگئے۔ اس بات کی تائید میں ہم عبدالعزیز کی کتاب کو بطور ثبو ت پیش کر سکتے ہیں۔ اس کے مقدمے میں کچھ یوں تحریر ہے :

’’ سید سجاد ظہیر، کر شن چند، ابراہیم جلیس، تاجور سامری، عادل رشید، فکر تونسوی، جمنا داس اختر، انور عظیم، پرکاش پنڈت، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عبا س، شاہد احمد دہلوی، قرۃ العین حید ر اور نئے لوگوں میں قاضی عبد الستار، سید ضمیر حسن دہلوی نے اہم مختصر، طویل رپورتاژ لکھے جو مختلف رسائل مثلاً ’’شاہراہ‘‘، ماہنامہ ’’کتاب ‘‘ وغیرہ میں شایع ہوئے۔ طویل رپورتاژ مثلاً ’’ پو دے ‘‘، ’’ خزاں کے پھول ‘‘، ’’ جب بندھن ٹو ٹے ‘‘، ’’ ستمبر کا چاند ‘‘ وغیرہ علیحدہ کتابی صورت میں سامنے آئے۔ ‘‘(۱۰)

قرۃ العین حیدر کے رپو رتاژ ’’ ستمبر کا چاند ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اک بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ میدان جنگ کے مختلف واقعات اور اس کی ہولنا کیاں، اقتدار کی عروجیت و شکست کے ہی مناظر نہیں پیش کیے ہیں، بلکہ جنگ کے اختتام پر کیا اثرات مر تب ہو تے ہیں اس میں موجود ہیں۔ اس کے علا وہ دیگر متعدد مو ضوعات ہیں جس پر رپو رتاژ لکھے گئے ہیں مثلاًخشک سالی، آسمانی آفات، زلزلہ، وبائی بیماری وغیرہ وغیرہ میں جو تباہ کاریاں وجود میں آتی ہیں ان پر بھی رپورتاژ لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔

با مقصد رپو رتاژ نگار کی خوبی یہ ہو تی ہے کہ زما ن و مکان کا تعین اس انداز میں پیش کیا جائے کہ جو حقیقت بعض کی نظر وں میں نہیں تھی وہ سب پر عیاں ہو جائے۔ رپو رتاژنگار رپو رتاژ لکھنے کا سبب ہی یہی ہو تا ہے کہ وہ اپنی نظروں کے سامنے گزرئی ہوئی صداقت کو دوسرے تک پہنچا سکے جو اس کے متلا شی ہیں۔ یعنی عینی شاہدخیالوں میں اس مقام تک پہنچ چکا ہو تا ہے جہاں وہ واقعہ یا سانحہ رو نما ہوچکا ہو تا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بعض لو گوں کا خیال ہے کہ تاریخی تر تیب بھی رپورتاژ کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں کشمیری لال ذاکر ’’ یہ صبح زندہ رہے گی ‘‘ میں رقمطراز ہیں :

’’ میں روزنامچہ یا تاریخ نہیں لکھ رہا ہوں کہ تاریخ وار اپنی روداد تحریر کروں، میں تو صرف ایک رپورتاژ لکھ رہا ہوں۔ اس میں تاریخوں کی اتنی اہمیت نہیں ہے، جنتی شخصیات کی اور میر ے تاثر ات کی ہے۔ لہٰذا تاریخوں پر میری توجہ کم رہے گی۔ (۱۱)

مگر سچ تو یہ ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی اطلاع مو صول ہو تی ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے اور اسے وہ تلا ش کر نے کی پو ری کو شش کرنے میں مصروف ہو جا تا ہے کہ یہ واقعہ یا سانحہ کب اور کس جگہ رو نما ہوا ہو گا۔ قاری کے مطالعہ میں تیزی آجا تی ہے اور وہ بے چین سا رہتا ہے جب تک اسے زمان اور مکان کا پتا نہ مل جائے۔ اگر اسے اطمینان بخش جواب مل جا تا ہے وہ پر سکون حا لت میں واپس آجا تا ہے۔ اگر اسے وہ چیز دستیاب نہیں ہو تی تو وہ عالم تصور میں چلا جا تا ہے۔ اسے قصہ یا کہانی سے تشبیہ دینے لگتاہے ٹھیک اسی وقت رپو رتاژ کا مقصد پامال ہو جا تا ہے۔ جب سجا د ظہیر کا رپو رتاژ جسے ’’ یا دیں ‘‘ کے نام سے جا نا جا تا ہے اور اس کو اردو کا پہلا رپو رتاژ مانا جا تاہے۔ اس کا آغاز ہی تاریخ سے ہو تا ہے ملا حظہ ہو۔

’’ ۱۹۳۵ ء عجب سال تھا۔ میں اس زما نے میں لندن میں اپنی طالب علمی کے آخری دن گزار رہا تھا۔ ‘‘(۱۲)

جبکہ ثریا حسین رپورتاژکی وضاحت کر تی ہوئی تحریر کرتی ہیں ـ:

 ’’چندسال قبل ایک اردو روزنامے میں شعبہ اردو کے ڈاکٹر رفیق حسین نے لکھا تھا کہ اگرچہ کر شن چند ر کے ’’پو دے ‘‘ کو اردو کا پہلا نا ول رپورتاژ کہا جاتا ہے لیکن یلدرم کے ’’ سفر بغداد ‘‘ کو جو ۱۹۰۴ء میں شایع ہوا، اردو کا اولین رپورتاژ کہنا زیا دہ صحیح ہو گا۔ زیا رت قاہرہ و قسطنطنیہ ۱۹۱۱ ء یلدرم کا دوسرا رپورتاژ تھا۔ ‘‘ (۱۳)

اس کے علا وہ اگر آپ اظہار اثر کومطالعہ میں لائیں تویہ بھی تاریخ کو اہمیت دیتے ہوئے قاری کو بھر وسہ دلا نے اور ان کے اعتماد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنے رپورتاژ ’’ تر قی پسند مصنفین کی کل ہند کا نفر نس ‘‘ کی ابتدا کر تے ہوئے کچھ اس انداز میں مصروف تحریر ہیں :

’’ اور آخر ہندوستان کی دلہن دلی کا دل ۱۷؍ اپریل ۱۹۷۶ کو جگمگا اٹھا۔ دلی کا یہ دل جدید و قدیم تہذیبوں کا گنگا جمنی سنگم، بستی نظام الدین کا علا قہ ہے۔ ‘‘(۱۴)

 رپور تاژ نگار کوکسی بھی رپورتاژرقم کر نے سے پہلے صرف قوت سامعہ پر نور ایقان نہیں کر نا چاہئے بلکہ بصیرت پر اعتماد کرنے کے لیے نفسیاتی بصیرت کی مدد لینی چاہئے۔ کیونکہ موجودہ وقت میں برقی رو کے ذریعے جو آواز فضا میں گونجتی ہے اس کو سننے کے لیے ایک خاص قسم کا آواز گیر آلہ ہو تا ہے۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سما عت پر نہیں بصارت سے کام لینا چاہئے۔ جیساکہ طلعت گل اپنی کتاب ’’ اردو میں پورتاژ کی روایت ‘‘ میں تحریر کر تی ہیں :

’’ رپو رتاژ نگار اپنے کانوں پر بھر وسہ نہیں کر تا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور دل سے محسوس کرتا ہے کچھ لو گوں کا خیال ہے کہ آنکھوں سے دیکھنے کے علا وہ سنے سنائے واقعات و حادثات پر بھی رپورتاژ لکھا جا سکتا ہے۔ یہ درست نہیں کیونکہ رپورتاژمیں مصنف کا موضوع سے براہ راست تعلق بنیا دی حیثیت رکھتا ہے اور رپو رتاژ کا بیان مستند مانا جا تا ہے۔ ‘‘(۱۵)

محققین کے مطابق رویت حقیقتاًنظروں سے نہیں عقل سے ہوتی ہے۔ حواس خمسہ میں بصارت بھی شامل ہے جو بعض دفعہ دھو کادے جا تی ہے۔ مثلاً اگر کسی بلند مقام یا پہاڑ کی اونچائی سے کسی انسان کو دیکھیں تو وہ ما چس کی ڈبیا کے ما نند نظر آئے گا تو کیا رپو رتاژ نگار اس کو بعینہ رقم کر دے جب کہ اس نے خو داپنی آنکھوں سے دیکھا اور دل نے محسوس کیا ہے۔ جی نہیں بلکہ یہاں پر عقل سے کام لینا پڑے گا۔ یا یوں کہا جائے تو زیا دہ بہتر ہو گا کہ یہاں پرعقلی بصارت کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات

۱……جہانگراردو لغت، وصی اللہ کھو کھر، ص۸۰۹

۲……http://urdulughat.info/words/3304

۳……Longman universial Dictionary 1982, Page -826

۴……Literacy Companion Dictionary By Savid Grambs 1984 Words about words- Page 313

۵……علی سردار جعفری۔ پیش لفظ۔ خزاں کے پھول۔ از عادل رشید۔ ص ۱۱

۶…… انتخاب سجاد حیدر یلدرم۔ مرتبہ ثریا حسین۔ ص ۲۰

۷……تارجور سامری، جب بندھن ٹوٹے۔ تعارف احتشام حسین ص۵

۸……مقدمہ۔ اردومیں رپو رتاژ نگاری۔ ص، ۷

۹…… دلگداز۔ اپریل ۱۸۸۸۔ ص ۵۹

۱۰……اردومیں رپورتاژنگاری، عبد العزیز، ص ۸

۱۱…… یہ صبح زندہ رہے گی، کشمیری لال ذاکر ؔ ص، ۲۲

۱۲……یا دیں۔ سجا د ظہیر۔

۱۳…… انتخاب سجاد حیدر ۔ ص ۲۰

۱۴…… تر قی پسند مصنفین کی کل ہند کا نفر نس۔ اظہار اثر

۱۵…… اردو میں رپو رتاژ کی روایت۔ طلعت گل ص ۲۷۔ اپریل ۱۹۹۲

تبصرے بند ہیں۔