فہم قرآن

محمد طارق اعظم

قرآن فہمی کے دو درجے ہیں، تذكر اور تدبر۔ تذکر یعنی نصیحت حاصل کرنا اس بارے میں خود قرآن پاک کا ارشاد ہے "ولقد یسرنا القرآن للذكر فھل من مدکر "اور تحقیق ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنایا ہے تو ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔

یہ تذکر ہر ایک مسلمان سے مطلوب ہے خواہ عام ہو خاص۔ تدبر اس درجے میں جس سے تذکر حاصل ہو یعنی خدا کا خوف اور آخرت کی یاد وغیرہ محبوب اور مطلوب ہے۔

فہم قرآن کےلیے علوم آلیہ یعنی علم اللغات، علم التفسیر، علم الحدیث، علم الکلام وغیرہ کے حصول کی شرط ایک مجتہد اور محقق کے لیے ہے کہ ان علوم آلیہ کے حصول کے بغیر کوئی تفسیر بالرائے یا مجتہدانہ انداز میں قرآن کی تفسیر نہ کرے۔ اس کے بغیر قرآن کی من مانی تفسیر کرنا از روئے حدیث گناہ ہے۔ ایسے شخص کے لیے بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ جو شخص قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہے اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنالے۔‘‘( ترمذی، کتاب تفسیر القرآن )

علوم القرآن کے سمندر میں غواصی اور گہرے تدبر کےلیے ان علوم آلیہ کا حصول ناگزیر ہے۔ اگر ان علوم کے حصول کی شرط عوام کے لیے بھی لگا دی جائے تو اکابر علماء نے قرآن کریم کے ترجمے اور تفسیریں جو کی ہیں سب لغو معلوم ہوں گی، جبکہ یہ ترجمے اور تفسیریں عوام کو ہی پیش نظر رکھ کر کی گئی ہیں۔ اور اس صورت میں تکلیف ما لا یطاق بھی لازم آئے گا۔ اور قرآن کے مذکورہ دعوے کے بھی خلاف ہوگاکہ قرآن آسان اور عام فہم زبان میں نازل کیا گیا ہے اور پوری انسانیت کےلیے یہ ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے۔

ہاں اس قدر ضرور ہے کہ عوام اس سلسلے میں علماء سے خود کو بےنیاز نہ تصور کریں، بلکہ علماء کے مشورے سے اور ان کی نگرانی میں معتبر ترجمہ قرآن اور تفسیر کا مطالعہ کریں اور مشکل مقامات کو ان سے سمجھیں۔ سب سے بہتر شکل یہ ہےکہ کسی عالم استاذ سے ترجمہ قرآن اور تفسیر درسا پڑھا جائے۔

اس مسئلے کی تفہیم کے لیے معارف القرآن ( مفتی شفیع عثمانی صاحب) کے یہ اقتباسات ملاحظہ کریں:

عوام کے لیے بھی تدبّر قرآن ضروری ہے:

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآن۔ (نساء پ۵)

دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب میں غور کرے لہٰذا یہ سمجھنا کہ قرآن میں تدبر کرنا صرف اماموں اور مجتہدوں ہی کے لیے ہے صحیح نہیں ہے۔ البتہ تدبر اور تفکر کے درجات علم وفہم کے درجات کی طرح مختلف ہوں گے۔ ائمہ مجتہدین کا تفکر ایک ایک آیت سے ہزاروں مسائل نکالے گا، عام علماء کا تفکر ان مسائل کے سمجھنے تک پہنچے گا، عوام اگر قرآن کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر تدبر کریں تو اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہوگی، جو کلید کامیابی ہے، البتہ عوام کے لیے غلط فہمی اور مغالطوْں سے بچنے کے لیے یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً پڑھیں،  یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند و معتبر تفسیر کا مطالعہ کریں،  اور جہاں کہیں شبہ پیش آئے تو اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ ماہر علماء سے رجوع کریں۔(معارف القرآن ۲؍۴۸۸ سورۂ نساء)

نصیحت و عبرت کے لیے قرآن آسان ہے لیکن قرآن سے احکام کا استنباط صرف علماء مجتہدین کا حصہ ہے:

’’وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ‘‘ (پ:۲۷)

قرآن کریم نے اپنے مضامین عبرت و نصیحت کو ایسا آسان کرکے بیان کیا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا عالم و ماہر فلسفی اور حکیم اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح ہر عامی جاہل جس کو علوم سے کوئی مناسبت نہ ہو وہ بھی عبرت و نصیحت کے مضامین قرآنی کو سمجھ کر اُس سے متأثر ہوتا ہے۔

اس آیت میں یَسَّرْنَا کے ساتھ لِلذِّکْرِ کی قید لگا کر یہ بھی بتلادیا گیا ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے مضامین سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی حد تک اس کو آسان کردیا گیا ہے جس سے ہر عالم وجاہل چھوٹا اوربڑا یکساں فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن کریم سے مسائل اور احکام کا استنباط بھی ایسا ہی آسان ہو وہ اپنی جگہ ایک مستقل اور مشکل فن ہے جس میں عمریں صرف کرنے والے علماء راسخین ہی کو حصہ ملتا ہے، ہر ایک کا وہ میدان نہیں۔

اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جو قرآن کریم کے اس جملہ کا سہارا لے کر قرآن کی مکمل تعلیم اس کے اصول وقواعد سے حاصل کئے بغیر مجتہد بننا اور اپنی رائے سے احکام و مسائل کا استخراج کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے۔ (معارف القرآن ۸؍۲۳۰، سورۂ قمر)

تبصرے بند ہیں۔