فیملی کاؤنسلنگ

(بند گلی سے نکلنے کا راستہ)

سہیل بشیر کار

ماہر نفسیات، CERTIFIED NLP TRAINER اور اسلامی اسکالر انجینئر ایس امین الحسن لکھتے ہیں: "زندگی کا سفر سب کے لیے شاہراہ کا سفر ثابت نہیں ہوتا۔ بعض کی زندگی  تنگنائیوں کا شکار ہوجاتی ہے اور ان کی گاڑی سیدھے  راستے سے اتر کر پگڈنڈیوں پر آجاتی ہے۔ بعض ذہنی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جیسے جسمانی طور پر بیمار لوگوں کے لیے دوا تجویز کی جاتی ہے۔ اسی طرح سے ذہنی پریشانیوں کا شکار اور نفسیاتی مسائل میں الجھے ہوۓ لوگوں کے لئے گفت و شنید اور کچھ  پراسیس کے ذریعے مدد فراہم کرنے کو کونسلینگ کہتے ہیں۔ انسان جب بیمار ہو جاتا ہے تو کسی کے سامنے اپنا مرض بیان کرتا ہے اور اس کے لیے متنوع قسم کے علاج تجویز کیے جاتے ہیں، جن میں گھریلو علاج بھی شامل ہیں اور تعلیم یافتہ ڈاکٹر کی تشخیص بھی شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح آج کونسلینگ بھی عامیانہ سطح سے لے کر پروفیشنل سطح تک ہوتی ہے‌ ۔عامیانہ سطح کی کاؤنسلنگ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی فرد کسی پریشانی کا شکار ہے تو اسے وہ حل تجویز کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ہر شخص کی دنیا الگ ہے، ہر شخص کے مسائل الگ ہوتے ہیں، ہر شخص کا بچپن اور اس کی تربیت دوسروں سے جداگانہ ہوتی ہے، دنیا کو دیکھنے کا نقطہ نظر بھی ہر دو فرد کے درمیان الگ ہوتا ہے۔ ہر فرد اپنے مزاج اور طرز خیال میں منفرد ہوتا ہے۔ اس لیے مسئلہ کسی شخصیت کا ہو اور حل کسی اور شخصیت کا ہو یہ ویسا ہی ہے جیسے مربع سوراخ میں ایک گول کھونٹی۔ جب کہ پروفیشنل کاؤنسلنگ یہ ہوتی ہے مسائل کے شکار فرد سے گفتگو کے بعد اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کی زندگی کی گاڑی کہاں پھنسی ہے۔ کبھی انسان کے بےجا جذباتیت کے نتیجے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں، کبھی زندگی کے ساتھی کی نفسیات کو نہ سمجھنے سے تناؤ پیدا ہوتا ہے، کبھی پرانی یادوں میں الجھے رہنے سے ڈپریشن ہوتا ہے، کبھی مستقبل کے خواہ مخواہ موہوم اندیشے ستاتے ہیں۔ پروفیشنل کونسلر  انہیں حل تجویز نہیں کرتا  بلکہ انہیں کچھ آئیڈیاز اور کچھ ٹولز عطا کرتا ہے جس کے ہاتھ میں ہوتے ہوئے فرد کا اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔”

کاؤنسلنگ دور جدید کا اہم موضوع ہے، لیکن مسلمانوں میں اس کو وہ اہمیت نہیں ملی جو کہ اسے ملنی چاہیے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو میں اس بارے میں کم لکھا گیا ہے اور مسلمانوں نے نصیحت کو کاؤنسلنگ سمجھ لیا ہے، اس وقت اعداد شمار بتا رہے ہیں کہ خاندانوں میں کافی تناؤ محسوس کیا جاتا ہے، میاں بیوی کے مسائل کو پروفشنل طریقہ سے حل نہ کرنے کی وجہ سے طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ انہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محترم عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری نے 128 صفحات پر مشتمل کتاب "فیملی کاونسلنگ (بند گلی سے نکلنے کا راستہ” لکھی۔ کتاب اہم موضوع پر لکھی گئی ہے۔ کتاب کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے مشہور و معروف عالم دین ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی  مقدمہ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "کاونسلنگ کے موضوع پر عام فہم لٹریچر بہت کم پایا جاتا ہے، اردو میں تو ایسی کتابیں موجود ہی نہیں ہیں جن میں ازدواجی اور عائلی مسائل کے حل کے سلسلے میں فنی بنیادوں پر رہنمائی فراہم کی گئی ہو، ضرورت ہے کہ اس کمی کو دور کیا جائے اور کاؤنسلنگ کے موضوع پر مفید اور عام فہم کتابیں شائع کی جائیں، زیر نظر کتاب آدھی ضرورت کو پورا کرنے والی ایک قابل قدر کوشش ہے۔ "(صفحہ 7) اس سے پہلے انہوں نے ایک کتاب” دستور زندگی "لکھی؛ جس کے بہت ہی مختصر عرصے میں پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ کتاب کو مصنف نے 43 عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے، جس میں خوش گوار ازدواجی زندگی؛ زندگی جینے کا ہنر بتایا گیا ہے۔

مصنف کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زندگی کے بارے میں رہنمائی کی ہے، مصنف کی کوشش ہے کہ ہر پہلو کا احاطہ ہو۔ ہر عنوان کو دو یا تین صفحات میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ پوائنٹ وائز بات کرتے ہیں ،مثلا ماضی کی تلخیوں سے چھٹکارا کے تحت لکھتے ہیں :”ایک دوسرے سے توقعات کی فہرست کم کرلینے سے مستقبل کا خاکہ تیار ہو جاتا ہے۔ دراصل ایک دوسرے سے زیادہ توقعات ہی مسائل جنم دیتی ہیں۔ ” (صفحہ 17)، غصہ پر کنڑول کے بارے میں لکھتے ہیں :”ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کے کیمکلز پیدا کر دیتا ہے اور ہم 15 منٹ میں کول ڈاون ہو جاتے ہیں۔ دراصل ہم بارہ منٹ کے قیدی ہیں، ہمارے جسم کے 6 بنیادی جذبے ہیں: 1، غصہ، 2،خوف، 3 حیرت، 4 خوشی، غم، 5، اداسی 6، تفریح۔ نفرت، محبت، شہوت، لطف کے والدین ہیں۔ یہ جذبہ بھی 12 منٹ کا ہوتا ہے، اگر اس کی بھٹی میں نئی لکڑیاں اور ایندھن نہ ڈالا تو 12 منٹ میں سرد پڑ جاتا ہے۔”(صفحہ 50)

مصنف کی کوشش رہی ہے کہ انسان کی سوچ مثبت انداز میں تبدیل ہو لکھتے ہیں:” ہماری سوچ ہی جنت کو جہنم اور جہنم کو جنت بناتی ہے، ہم وہی ہے جو ہم سوچتے ہیں۔ "(صفحہ 46) مزید لکھتے ہیں” مزاج کی تبدیلی کے ذریعے ہی سے میاں بیوی خوش رہ کر زندگی بسر کر سکتے ہیں "(صفحہ 120) مصنف سمجھاتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کون سے رشتے کو کیسے ڈیل کیا جائے لکھتے ہیں: "خونی رشتہ فطرت کے تحت قائم ہوتا ہے اور زوجین کا رشتہ شعور کے تحت۔ ” (صفحہ 121) اس کتاب کی خاص خوبی یہ ہے کہ جہاں یہ مرد و خواتین کے حقوق بیان کرتا ہے وہیں ذمہ داریاں بھی سکھاتا ہے، وہ الگ الگ عنوانات کے تحت مرد کی ذمہ داریاں، خواتین کی ذمہ داریاں اور زوجین کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہیں, مصنف مشترکہ اور نیوکلیر خاندان دونوں کے فائدے اور نقصانات بتاتے ہیں۔ اگر یہ سب چیزیں ذہن میں رہے تو غلط فہمیاں پیدا نہیں ہو سکتی ہے، اور زندگی خوشگوار بن سکتی ہے مصنف چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ مصنف نے سماج کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ وہ نبض شناس بھی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں اہم رول ادا کرتے ہیں، مصنف ہمارے معاشرہ کے اس طریقے کار پر تنقید کرتے ہیں ، لکھتے ہیں: "شام کو جب شوہر کام سے لوٹتا ہے تو بیوی کو میلے کپڑوں اور الجھے بالوں میں پاتا ہے، بیوی کو فرصت ہی نہیں کہ چہرے کو ٹھنڈے پانی سے دھو کر تازگی پیدا کرلے، دن بھر کام اور پسینے سےاٹے بدن کو غسل اور صاف ستھرے کپڑوں سے آراستہ کرلے۔ مزید لکھتے ہیں جہاں بیوی پہلے پہلے اپنی خوبصورتی پر توجہ دیتی ہے لیکن شادی کے بعد اور خاص کر بچوں کی پیدائش کے بعد اپنی خوبصورتی پر توجہ نہیں دیتی جس کے بہت سارے نقصانات ہوتے ہیں؛ لکھتے ہیں: "مرد کی نظر اپنے گھر کی ملکہ میں حسن، کشش، فطری احساس اور جمال تلاش کرتی ہے، خوشبو، صفائی، بننا سنوارنا، بالوں کو سلیقہ سے گودھنا، شوہر کی پسند کے کپڑے پہن کر اہتمام کے ساتھ ہشاش بشاش اپنے شوہر کا استقبال کرنے سے ازدواجی زندگی میں بہار آتی ہے؛ یہ جمالیاتی شعور ہے جو زلفوں کو صبا، آنکھوں کو حیا، چہرے کو دعا اور نغمہ نور بنا دیتا ہے، ظاہری تراش خراش کا اہتمام کرنے سے مرد کا بگڑا ہوا موڈ خوش گوار طرز زندگی اپنانے کا خوگر بنا لیجیے تاکہ سب خوش رہیں۔ "(صفحہ 72)

مصنف کو اللہ نے مختصر جملوں میں بڑی بڑی باتیں بتانے کا گر دیا ہے، وہ آسان پیرائے میں قاری کو بڑی بڑی باتیں سمجھاتے ہیں ، جس سے قاری کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے لکھتے ہیں:” فرد میں موجود منفی جذبات (تکبر، خودغرضی، حسد، ریا کاری، بے حیائی، غصہ، جھوٹ، ناشکری ،تشدد، حزن و ملال، مایوسی، رقابت) اسے خوش رہنے نہیں دیتے۔ ” (صفحہ 29) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: "اگر آپ کے جذبات قابو میں نہیں، آپ کو خود آگہی نہیں، آپ کو پریشان کن جذبات کو منظم نہیں کر سکتے، آپ میں شفقت نہیں، لوگوں سے آپ کے تعلقات مناسب نہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے ذہین ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ آپ زیادہ دور چل سکیں گے۔” (صفحہ 41)والدین کو اپنی تربیت کی طرف خوبصورتی سے ایک جگہ توجہ دلاتے ہوئے اس کی اہمیت بتاتے ہیں: "بچے اپنے ماں باپ کے کردار سے 63 فیصد سیکھتے ہیں جبکہ ماں باپ کے کہنے سے 7 فیصد، بقیہ 30 فیصد دوسرے ذرائع سے اکتساب کرتے ہیں، جیسا آپ کا کردار ہوگا بچہ ویسا ہی سیکھے گا۔ ” (صفحہ 26) کتاب میں مصنف نے کئی کیس اسٹدی بیان کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کاؤنسلنگ کس قدر ضروری ہے۔ ایک کیس اسٹدی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” گیارہویں کا طالب علم گھر سے باہر ہی نہیں نکلتا تھا۔اس نے بہنوں کی عادات واطوار اختیار کرلی تھیں۔ اس کی پسند و نا پسند یہاں تک کہ بات کرنے کا انداز اور نزاکت لڑکیوں کی طرح ہوگئی تھی ۔ یہاں تک کہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی عورتوں جیسا تھا۔کاؤنسلنگ کے لیے جب نشست لی گئ تو کاؤنسلر نے مشورہ دیا کہ آپ اسے اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کی مقامی محلہ یونٹ سے جوڑ دیں ۔کاؤنسلر کی رائے پر عمل کیا گیا اور اسے SIO سے جوڑ دیا گیا تو چند ماہ ہی میں اس نوجوان کے عادات واطوار بدل گئے اور وہ ایک سماجی کارکن بن کر ابھرا، اس کی صلاحیتوں کی بھر پور نشو ونما ہوئی۔ اجتماعیت کی برکت سے اس میں خود اپنے مسائل کو حل کرنے بہتر فیصلہ لینے اور اچھے دوستوں کی اچھی عادات اور وسیع النظری جیسی صفات پیدا ہوگئیں۔ "(صفحہ 27)

مصنف چونکہ اسلام کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں لہٰذا جگہ جگہ اسلامی احکامات کا خلاصہ بھی کتاب میں ملتا ہے۔ کتاب کے آخری باب میں مصنف نے مختصر مگر جامع انداز میں عائلی زندگی کے احکام جیسے مہر، ولیمہ، نفقہ، طلاق کی قسمیں خلع، حلالہ، حجاب، وراثت، غض بصر پر روشنی ڈالی ہے،

امید ہے یہ کتاب امت مسلمہ میں کاؤنسلنگ سینٹرس کھولنے کی رغبت دلانے میں کردار ادا کرے گی، کتاب حسب روایت ہدایت پبلشرز نے بہترین طباعت سے شائع کی ہے اور قیمت 150 روپے بھی مناسب ہے۔ کتاب واٹس ایپ نمبر 0981051676 پر حاصل کی جاسکتی ہے۔

مبصّر کا رابطہ: 9906653927

تبصرے بند ہیں۔