قائدِ تحریک اسلامی : مولانا سید ابو الاعلی مودودی

مولانا سید ابو الاعلی مودودی کو فلمی دنیا کی ایک مشہور شخصیت کا خراجِ عقیدت 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

برادر مکرم جناب محمد خالد اعظمی نے زیرِ نظرکتاب میرے پاس بھیج کر میری رائے جاننی چاہی کہ کیا اسے دوبارہ شائع کرنا مناسب ہوگا ؟ میں نے مثبت رائے دی تو وہ یہ خواہش کر بیٹھے کہ اس پر میں کچھ تعارفی کلمات لکھ دوں۔ میں نے عرض کیا کہ مشہورادیب اور مصنف جناب سید اسعد گیلانی کا اس پر مقدمہ موجود ہے ، جوکافی ہے ، مگرانہوں نے کہا کہ یہ کتاب ہندوستان سے شائع ہو تو اس پر یہیں کے کسی صاحب ِقلم کا مقدمہ بہتر معلوم ہوتاہے۔ دوسرے ، کوئی کتاب ستّر(70)برس کے بعد دوبارہ شائع کی جائے تواس کا وجہِ جواز (Justification) بیان کرنا ضروری ہے۔ میں نے عزیز دوست کی دل جوئی کے لیے سوچا کہ کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھ لوں اور کچھ سطریں تحریر کردوں ، لیکن اسے پڑھنا شروع کیا تودل اس کی طرف کھنچتاچلاگیا۔ ؎

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، جن سے محبت وعقیدت میرے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ، ان کا حسین تذکرہ اور علی سفیان آفاقی (1933۔ 2015) جیسے ادیب اور صحافی کا منجھا ہوا قلم۔ میں پڑھتارہا ، پڑھتارہا ، یہاں تک کہ کتاب ختم کرکے دم لیا۔ مجھے یقین ہے کہ جوشخص بھی اس کتاب کو اپنے ہاتھ میں لے گا وہ اسی کیفیت سے دوچار ہوگا۔

اس کتاب کی اہمیت کئی پہلوؤں سے ہے : اوّل یہ کہ مولانا مودودیؒ پر بہت سی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ وہ بیسویں صدی عیسوی میں برِّصغیر کے ان نمایاں ترین اورخوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جن پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے۔ ان پر لکھنے والوں میں ان کے مخالف بھی ہیں ، جنہوں نے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے ہیں ، ان پر بے بنیاد اعتراضات کیے ہیں اور انہیں ’ضَالّ ومُضِلّ‘ تک قراردیا ہے اور حامی بھی ، جنہوں نے عقیدت میں ڈوب کر ان کی سوانح نگاری کی ہے۔ لیکن یہ کتاب ایک غیر جانب دارانہ مطالعہ ہے۔ اسے لکھتے ہوئے نہ مخالفت کے پہلو تلاش کیے گئے ہیں نہ عقیدت میں ڈوب کر اس کی تصنیف کی گئی ہے۔ یہ ایک انصاف پسند اور بے لاگ مصنف کی قلمی کاوش کا نتیجہ ہے۔ دوم یہ کہ مولانا مودودیؒ پر لکھی جانے والی کتابوں میں عموماً ان کے افکار ونظریات سے بحث کی گئی ہے ، یا ان کی علمی ، دینی ، سماجی اور سیاسی خدمات کو نمایاں کیا گیا ہے ، لیکن اس کتاب میں مولانا کو بہ حیثیت ایک مثالی انسان پیش کیاگیاہے اور ان کے اخلاق و کردار کی عظمت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مفکّر ، مصنّف ، مصلح ، داعی ، بانئ تحریک اور سیاست داں مودودی کو تو سب جانتے ہیں ، لیکن انسان مودودی سے کم لوگوں کو واقفیت ہے۔ یہ کتاب مولانا کی انسانی عظمت اور اخلاقی بلندی سے روٗشناس کراتی ہے۔ سوم یہ کہ یہ کتاب فلمی دنیا کی ایک عظیم شخصیت کے قلم سے ہے۔ علی سفیان آفاقی صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز روزنامہ تسنیم لاہور سے کیا ، پھرمختلف جرائد ، مثلاً ہفت روزہ چٹان ، روزنامہ نوائے وقت ، روزنامہ آفاق ، روزنامہ صحافت ، ہفت روزہ اقوام ، روزنامہ زمیندار اور روزنامہ آثار سے وابستہ رہے۔ ماہ نامہ سیّارہ ڈائجسٹ اور ہفت روزہ فیملی میگزین لاہور کے ایڈیٹر بھی رہے ، لیکن 1958ء میں صحافت سے قطع تعلق کرکے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کرلی۔ انھوں نے فلم رائٹر ، پروڈیوسر ، ڈائرکٹر ، ہر حیثیت میں کام کیا اور تقریباً پچاس فلمیں بنائیں۔ انھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک کے سفر کیے اور ان کے سفر نامے بھی لکھے۔ یہ کتاب جناب علی سفیان آفاقی کے صحافتی مزاج اور ادبی ذوق کا عکسِ جمیل ہے۔ انہوں نے اس میں مولانا مودودیؒ پر اپنی کچھ تحریریں شامل کی ہیں اور بعض دیگر حضرات کی تحریریں اور انٹرویوز اور مولانا کے کچھ مکاتیب بھی جمع کردیے ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی کے بعض ذمے دار اور ملازم بھی ہیں ، مولانا کی اہلیہ اور صاحب زادے عمرفاروق بھی اور ان کے پڑوسی بھی۔ اس طرح انہوں نے مولانا کے اخلاق وکردار کا ایک حسین گل دستہ قارئین کے سامنے پیش کردیا ہے۔ آفاقی صاحب کا اسلوب بہت دل کش ، سلیس اور شگفتہ ہے۔ قاری پڑھتے ہوئے ذرا بھی گرانی محسوس نہیں کرتا اور روانی کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔

کتاب کی ابتدا آفاقی صاحب نے جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ’تسنیم‘سے اپنی وابستگی سے کی ہے ، جس کا آغاز جون 1950 ء سے ہوا تھا۔ چھ ماہ جاری رہ کر یہ روزنامہ حکومت کے عتاب کا شکار ہوکر بند ہوگیا۔ آفاقی صاحب نے اس زمانے کی دل چسپ یادیں سپردِ قلم کی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس روزنامہ میں کام کرنے والے زیادہ تر افراد کا جماعت اسلامی سے ضابطہ کا تعلق نہیں تھا۔ اس میں ایڈیٹر ، منیجر ، نیوز رائٹر سب کا مشاہرہ یکساں تھا۔ ”اشتراکیت کا پہلا سبق میں نے عملی طورپر جماعت کے اخبار تسنیم میں دیکھا۔ “ انہوں نے لکھاہے کہ ایک بار میں نے مشاہرہ میں اضافے کا مطالبہ کیا اور اس پر اصرار اور احتجاج کیا۔ جواب میں کہا گیا کہ تمام ملازمین کے مشاہرہ میں ایک ساتھ اضافہ ہوگا۔ دوسرے دن ایڈیٹر صاحب نے میرے کان میں چپکے سے کہا کہ گھر جاتے وقت منیجر صاحب سے مل لیجیے گا۔ میں پہنچا تو وہاں ایڈیٹر صاحب کے قلم سے منیجر صاحب پاس یہ حکم نامہ موجود تھا کہ آفاقی صاحب مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہیں ، اس لیے میری تنخواہ میں سے پچیس روپے گھٹا کر یہ رقم ان کی تنخواہ میں شامل کردی جائے۔

آفاقی صاحب نے ادبی محاذ پر جماعت کی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بجاطور پر تنقید کی ہے کہ اسلامی ادب یا ادب برائے اسلام کا نعرہ تو لگایا گیا ، لیکن اسے فنّی بنیادوں پر ترقی نہیں دی گئی اور ادبی تحریک ’مولویانہ تنگ نظری‘ کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اس کی انہوں نے ایک دل چسپ مثال دی ہے۔ ایک اجلاس میں ایک نوجوان نے نظم پڑھی ، جس میں اس نے اپنی محبوبہ کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ابھی دنیا میں جہالت کی تاریکیاں ہیں ، لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک گئے ہیں ، اس لیے یہ وقت پیار و محبت کی باتوں کے لیے مناسب نہیں ہے ، مجھے ان تمام بدعتوں کے خلاف جہاد کرنا ہے ، تجھے اس وقت تک میرا انتظار کرنا ہوگا جب تک میں ان برائیوں کو روکنے میں کام یاب نہ ہوجاؤں۔ اس پر اجلاس میں یہ بحث ہونے لگی کہ محبوبہ کا تصور غیر اسلامی ہے ، محبوبہ اگر بیوی ہی ہو تو بھی اسے یوں سرِعام مخاطب کرنا جائز نہیں۔

مولانا مودودیؒ کے بچپن کے احوال آفاقی صاحب نے خود مولانا کی ایک خود نوشت سے لیے ہیں ، جو انہوں نے بہت پہلے ’میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کی دینی واخلاقی تربیت میں ان کے والد کا اہم کردار ہے۔ ایک مضمون میں انہوں نے مولانا کے بڑے بھائی جناب ابوالخیر مودودی سے انٹرویو لے کر یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مولانا کے ذہنی سانچے کی تشکیل کے بنیادی عوامل کیاتھے؟ اس سے معلوم ہوتاہے کہ جماعت اسلامی کی تشکیل سے بہت پہلے مولانا نے ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی حالات پر غور و فکر شروع کردیا تھا ور اس کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کردیاتھا۔ ایک انٹرویو مولانا کے صاحب زادے عمرفاروق کا ہے ، جو ’جگومیاں‘ کے نام سے مشہور تھے۔ اس انٹریو سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کا اندازِ تربیت کیاتھا۔ جگو میاں نے بہت صاف گوئی سے بتایا کہ میں پہلے گنڈے دارنمازیں پڑھتا تھا ، لیکن آج کل وہ بھی چھوڑ دی ہیں۔ ایک مرتبہ میری والدہ نے مجھے فہمائش کی کہ افسوس ہے ، تم نماز سے بے بہرہ ہو۔ لوگ کیا کہتے ہوں گے کہ ایسے مذہبی باپ کا بیٹا نماز روزہ سے بے گانہ ہے۔ اس پر والد صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا : ” بیٹا !نماز پڑھو توخدا کے لیے پڑھنا۔ میرے لیے یا کسی اور کے لیے نہ پڑھنا۔ “ ایک مضمون مولانا کی اہلیہ کا شاملِ کتاب ہے۔ اس میں انہوں نے مولانا کی گھریلو زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔

دفترِ جماعت کے ملازم جناب یحییٰ نے اپنے انٹرویو میں بتایا ہے کہ مولانا کا اپنے ملازموں کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا۔ انہوں نے تقسیمِ ملک کے وقت دارالاسلام پٹھان کوٹ کے احوال بیان کیے ہیں کہ جب ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے ہر وقت حملہ کا خطرہ لگا رہتا تھا ، کس طرح مولانا نے جامع منصوبہ بندی کرکے حفاظتی تدابیر اختیار کی تھیں۔ یحییٰ صاحب نے بتایا کہ ایک رات جب حملے کا قوی اندیشہ تھا ، مولانا خود بھی پوری رات نہیں سوئے اور جاگ کر چاروں طرف گشت کرتے اور پہرہ دیتے رہے۔ عورتوں کو مولانا کے مکان میں اکٹھا کردیا تھا اور انہیں ہدایات تھیں کہ مٹی کا تیل ، پتھر اور اسی قسم کی چیزیں تیار رکھیں۔ جب سارے مرد ختم ہوجائیں اور حملہ آور اس مکان کی طرف پیش قدمی کریں تو عورتوں کو آخری دم تک مقابلہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ مولانا نے سمجھا دیا تھاکہ کوئی عورت خود کشی کرنے کی کوشش نہ کرے ، بلکہ لڑکر جان دے دے۔ مولانا کے پڑوسی جناب حبیب اللہ اوج ، جن کا تعلق مسلم لیگ سے تھا ، ان کے انٹرویو سے واضح ہوتاہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود مولانا پڑوسیوں کا کتنا خیال رکھتے تھے اور ان کی خوشی اور غم کے مواقع پر کس طرح اپنائیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔

1953 ء میں قادیانیت کے خلاف عملی جدّوجہد اور ’قادیانی مسئلہ‘ نامی کتابچہ لکھنے کی پاداش میں جب مولانا مودودیؒ کے لیے پھانسی کی سزا کا اعلان ہوا ، اس وقت جماعت اسلامی کے وابستگان کے احساسات کیا تھے؟اور خود مولانا مودودی کا ردّ عمل کیا تھا ؟ اسے آفاقی صاحب نے جماعت کے قائم مقام امیر سلطان احمد صاحب کی زبانی بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق جب وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مولانا سے ملنے جیل میں گئے تو انہیں بہت مطمئن پایا۔ رخصت ہوتے وقت مولانا نے اپنے بیٹے عمرفاروق کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا : ” بیٹا ذرا نہ گھبرانا۔ اگرمیرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے توبندہ بخوشی اپنے رب سے جاملے گا اور اگر اس کا ابھی حکم نہیں تو پھر چاہے یہ الٹے لٹک جائیں ، مجھ کو نہیں لٹکاسکتے۔

آفاقی صاحب نے کتاب میں جناب نعیم صدیقی کے واسطے سے مولانا مودودیؒ کی لائبریری کا معائنہ کیا اور ان کے زیرِ مطالعہ رہنے والی بعض کتابوں پر ان کے حواشی اور نوٹس نقل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا کے بارہ (12)غیر مطبوعہ خطوط بھی شاملِ کتاب ہیں۔ یہ خطوط علمی نوعیت کے ہیں۔ ان میں مولانا نے بعض قرآنی بیانات پر واقع ہونے والے اشکالات کا ازالہ کیاہے۔ ایک خط میں وسیلہ اور دوسرے خط میں تراویح کی تاریخ اور اس کی حیثیت پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیاہے۔ آخر میں مصنف نے مولانا سے لیے گئے اپنے دو انٹرویو شاملِ کتاب کردیے ہیں۔

یوں تو مولانا مودودیؒ پر بہت سی سوانحی کتابیں شائع ہوچکی ہیں ، جن میں جناب نعیم صدیقی کی ’المودودی‘ اور جناب سید اسعد گیلانی کی’مولانا مودودی سے ملیے‘ قابلِ ذکر ہیں۔ ایک کتاب جناب احمد ابوسعید کی ابھی چند ایام قبل شائع ہوئی ہے ، جس میں ماہ و سال کے آئینے میں مولانا کی حیات و خدمات کا تفصیلی بیان ہے۔ اس کے باوجود ، زیرِ نظر کتاب اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں اس کے متعدد ایڈیشن منظرِعام پر آئے ہیں۔ امید ہے ، ہندوستان میں بھی اس کا استقبال کیاجائے گا۔

1 تبصرہ
  1. شاہ عبدالوہاب کہتے ہیں

    یہ کتاب کہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے

تبصرے بند ہیں۔