قائدین ملّت، ذرا احتیاط سے!

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کے تعلق سے موجودہ حکومت کے ارادے نیک نہیں ہیں _ وہ تین طلاق کے سلسلے میں قانون بنانے کا ارادہ رکھتی ہے _ اس سے روکنے کے لیے پرسنل لا بورڈ کے ذمے داران کیی جہات سے کام کر رہے ہیں _ ان کی حکمت عملی کے مطابق اِدھر کچھ دنوں سے ملک کے مختلف حصوں میں خواتین کے بڑے بڑے جلوس اور مظاہرے ہو رہے ہیں _ ان میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت باپردہ اور برقع پوش خواتین اور دوشیزاؤں پر مشتمل ہوتی ہے _ وہ اسلامی شریعت / پرسنل لا کی حمایت میں سڑکوں پر مارچ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں _ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈس ہوتے ہیں ، جن میں مختلف سلوگن درج ہوتے ہیں _ کبھی یہ جلوس خاموش ہوتے ہیں اور کبھی خواتین مارچ کرتے ہوئے نعرے بھی لگاتی ہیں _ آخر میں جلوس جلسہ گاہ میں تبدیل ہوجاتا ہے، جس میں قائدینِِ ملّت اپنی دھواں دھار تقریروں کے ذریعے حکومت کو وارننگ دیتے ہیں کہ وہ پرسنل لا میں تبدیلی کی جرأت نہ کرے، اس لیے کہ مسلم خواتین کی بڑی تعداد اس کے خلاف ہے اور وہ اپنے پرسنل لا میں کویی تبدیلی نہیں چاہتی _ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے مظاہروں کی خبریں تھوڑی دیر میں ملک کے کونے کونے میں ہی نہیں ، بلکہ پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہیں _ یہ تصویریں دیکھ کر دوسروں کی طرح مجھے بھی بہت اچھا لگتا ہے اور یہ اطمینان ہونے لگتا ہے کہ مسلم خواتین کی بہت بڑی تعداد اب بھی اپنے دین اور شریعت سے گہری وابستگی رکھتی ہے اور اس پر ادنی سی بھی آنچ نہیں آنے دینا چاہتی _

لیکن میں محترم قائدینِ ملّت سے بہت ادب و احترام کے ساتھ ڈرتے ڈرتے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اس حکمتِ عملی پر نظر ثانی کریں اور اسے زیادہ مؤثر بنانے پر غور کریں _

آج کے دور میں اپنی طاقت دکھانے اور اپنی بات منوانے کا ایک مؤثر ذریعہ جلوس اور مظاہرے ہیں _ حکومت کو اندازہ ہوجائے کہ فلاں شخص یا گروپ کے ساتھ اتنے زیادہ افراد ہیں تو وہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے پہلے دس بار سوچتی ہے _ لیکن ہمیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے مسلم خواتین کو استعمال کرنے کے معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے _

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ خواتین کے بڑے بڑے جلوس اور مظاہرے منظّم کرنے کے بجائے ان کے، چھوٹے چھوٹے بھی اور بڑے بڑے بھی، صرف جلسے اور اجتماعات منعقد جائیں _ انھیں سڑکوں پر دوڑانے اور ان سے نعرے لگوانے کے بجائے ان کے لیے محفوظ جگہوں پر اطمینان و سکون کے ساتھ بیٹھ کر دین کی باتیں سننے کے مواقع فراہم کیے جائیں _

قلعہ کی دیواریں مضبوط ہوں تو دشمن کی سنگ باری اور ہتھ گولے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، لیکن اگر دیواریں پھسپھسی ہوگئی ہوں تو دشمن آسانی سے گھس پیٹھ کر سکتا ہے _ جسم کی قوتِ مدافعت مضبوط ہو تو جراثیم کی یلغار سے کچھ نہیں بگڑنے والا، لیکن اگر قوّتِ مدافعت کم زور ہوجائے تو آدمی مجموعہ امراض بن جاتا ہے _ دشمن ہمارے نظامِ خاندان کی چولیں ہلا دینا چاہتا ہے _ ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے اور اپنی خواتین میں مضبوط قوتِ مدافعت پیدا کرنے کی کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے _

ہمیں اپنے اجتماعات میں ، اور خاص طور پر خواتین کے اجتماعات میں دو باتوں پر زور دینا چاہیے :

1_ ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازم ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا عزم کرے اور ان کی نافرمانی سے حتی الامکان بچے _

2 _ اگر ان کے درمیان خاندانی تنازعات ابھریں تو انھیں ہرگز ملکی عدالتوں میں نہ لے جائیں ، بلکہ شرعی پنچایتوں اور دار القضاء سے رجوع کریں اور شریعت کے مطابق انھیں حل کرائیں _ اور یہ اظہار کریں کہ چاہے فیصلہ ہمارے حق میں ہو یا خلاف، ہم اس پر سرِ تسلیم خم کردیں گے _

اگر ہم مسلمان مردوں اور عورتوں کی بڑی اکثریت کو اس کا قائل کر لے جائیں اور ان کے دلوں میں یہ بات راسخ کردیں تو ہمارے دشمن چاہے جتنی کوشش کرلیں ، وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے _

اِس وقت، جب میں یہ بات لکھ رہا ہوں ، مجھے احساس ہے کہ اگر مسلم عوام قائدینِ ملّت کی یہ باتیں مان لیں تو وہ اپنے خاندانی تنازعات کی صورت میں کہاں رجوع کریں گے؟ پورے ملک میں جتنے دار القضاء قائم ہیں ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ اسے بتانے میں شرم آتی ہے _ قائدینِ ملّت کو کم از کم یہی کوشش کر نی چاہیے کہ وہ پورے ملک میں دار القضاء کا جال بچھا دیں اور ایسا ماحول بنانے کی کوشش کریں کہ مسلمان اپنے تنازعات کا تصفیہ انہی کے ذریعے کروائیں _

میں اپنے اس احساس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہماری ساری توانائیاں یہ ثابت کرنے میں خرچ ہورہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ان کے بدخواہوں کا سراسر پروپیگنڈہ ہے _ ہمارے یہاں سب خیریت ہے _ مثلاً طلاق کے موضوع پر ہمارے قائدین یہ کہتے ہوئے پائے گیے ہیں کہ طلاق کا تناسب مسلمانوں سے زیادہ دوسروں کے یہاں ہے، لیکن وہ اس پر غور کرنے کی زحمت کیوں نہیں کرتے کہ جو تناسب ہے وہ کیوں ہے؟ اور اس میں کمی لانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں ؟ یہ حقیقت ہے کہ مسلم مطلّقہ عورتوں میں خاصی تعداد ظلم کا شکار ہوتی ہے _ بغیر کسی قصور کے انھیں گھروں سے نکال دیا جاتا ہے اور طلاق کے تین بول ان کی زندگیاں تاریک بنا دیتے ہیں _ ایسی مظلوم خواتین کی داد رسی کے لئے قائدینِ ملّت نے کیا سوچا ہے؟ اور کیا کیا ہے؟

بہت سے مرد حضرات اپنی بیویوں کی زندگیاں اجیرن بنا دیتے ہیں _ جب بے کس خواتین کا پیمانہ صبر لب ریز ہوجاتا ہے تو وہ ایسے ظالم شوہروں سے گلو خلاصی چاہتی ہیں _ شوہر انھیں طلاق نہیں دیتے، وہ خود سے اپنے اوپر طلاق عائد نہیں کرسکتیں ، خلع حاصل کرنا چاہتی ہیں ، لیکن کیسے حاصل کریں ؟ اوّلا دار القضاء ہیں نہیں ، جو ہیں وہ بھی خلع کے لیے اتنی طویل اور اکتا دینے والی کارروائی کرتے ہیں کہ عورتیں عاجز آجاتی ہیں اور ان کی ہمّت جواب دے جاتی ہیں _ ظلم و ستم کی ماری یہ عورتیں اور ان کے سرپرست اگر مجبوراً ملکی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں ؟ شریعت پر عمل کی خواہش رکھنے کے باوجود اگر شریعت کے مطابق ان کے مسایل حل نہ ہوں تو وہ کیا کریں ؟ کہاں جائیں ؟

یہ وہ نازک اور حسّاس مسایل ہیں جو قائدینِ ملّت کی توجہ چاہتے ہیں _ شریعت کو بیرونی حملوں سے بچانے کے وہ جو کوششیں کر رہے ہیں وہ بڑی قابلِ قدر ہیں ، لیکن اتنی ہی سرگرمی سے داخلی محاذ پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے _ کشتی کی چولیں ہل رہی ہوں تو وہ زیادہ دیر تک موجوں کے تھپیڑے برداشت نہیں کرسکتی _ ہمیں جلد اس کی فکر کرنی ہوگی اور اس میں مضبوطی لانے کی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی _

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔