قافلہ کیوں لٹا؟

عالم نقوی

افغان  مؤرخ اور دانشور تمیم انصاری کی امریکہ سے 2009 میں شایع ہونے والی  کتاب Destiny Disrupted کو محمد ذکی کرمانی نے ’قافلہ کیوں لُٹا ‘ کے نام سے اردو قالب میں  اپنے ہی ادارے ’اویروز اکیڈیمی علی گڑھ ‘سےمارچ 2017 میں شایع کر کےپوری اردو دنیاپر احسان عظیم کیا ہے ورنہ اب تک تو انگریزی کی علمی اور تحقیقی  کتابوں کے تراجم اور اشاعت  کی روایت میں آگے رہنے کا شرف بالعموم اَہلِ پاکستان ہی کو حاصل ہوتارہا ہے۔   دنیا کی تاریخ کو اسلامی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی شاید اس سے اچھی کوشش اس سے پہلے نہیں کی گئی۔ کتاب کا عنوان فراق جلال پوری کے اس مشہور شعر سے مستعار ہے کہ :

   تو ادھر ادھر کی نہ بات کر  یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا ؟

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے

محمد ذکی کرمانی ہی کے لفظوں میں ’’یہ ایک عظیم کتاب ہے اور تمیم انصاری ایک عظیم مصنف۔ بعض کتابیں مطالعے کے دوران ہی قاری کا نقطہ نظر تبدیل کرتی جاتی ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں اس کیفیت سے دوچار ہوا جو آج سے چالیس سال قبل مشہور اردو نقاد حسن عسکری کو پڑھتے ہوئے مجھ پر طاری ہوئی تھی۔ یعنی مغرب سے ہٹ کر ایک ایسے بیانیہ کا وجود اور اس کی فعالیت کا احساس جسے ہم اپنا کہہ سکیں۔ ارتقا شخصی ہو یا قومی، ملی بیانیوں کا اِدرَاک وہ پہلاقدم ہے جسے اٹھائے بغیر ارتقا کا یہ سفر طے نہیں ہو سکتا۔ چودہ سو سالہ تاریخ کو ایک ایسے بیانیہ کی لڑی میں پِرونا جو اَپنا ہو، اور ایک واضح وابستگی کے ساتھ اس طرح تجزیہ کرنا کہ معروضیت کہیں قربان نہ ہو نے پائے، اس کا وہ وَصف ہے جس نے اِس کتاب اور (اس کے) مصنف (دونوں)کو ایک ممتاز مقام عطا کر دیا ہے۔ (ص 9)

اسلام کی تاریخ اِس عصری معنویت کی تلاش اور اس کی اثر انگیزی ہی سے عبارت ہے۔ واضح رہنا چاہیے کہ تاریخ محض قافلوں کے لُٹنے کی داستان نہیں بلکہ اُ ن کوششوں کی تاریخ بھی ہے جو ان لٹے ہوئے قافلوں کو دوبارہ مجتمع کرنے اور ان پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے کی گئیں جو اُن کے لُٹنے کی وجہ بنے تھے (پہلی صدی ہجری کےنصف ِآخر ہی سے) معاشرے کی مجموعی صورت حال یہ ہوگئی کہ حکومت اور سیاست کے بہت سے پہلو دین کی پابندیوں اور اخلاقیات سے ماورا ہوگئے جس کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ خزانے کے استعمال اور سیاسی مخالفوں کے ساتھ رویوں میں دینی تو بہت دور کی بات ہے عام انسانی اخلاقیات کو بھی روا نہ رکھا گیا۔ اُمَوِیوں کا اپنے مخالفین کا خون بہانا، عباسیوں کا عوام کو دھوکہ دینا اور دھوکے سے قتل کردینا وغیرہ ایسے واقعات ہیں کہ لگتا نہیں کہ محض چند دہائیوں قبل یہ لوگ رسالت مآب ﷺ کی مجلسوں میں بیٹھے تھے اور ہدایت سے مستفید ہوئے تھے۔ ۔ ابتدا  میں تو خوارج  نے حکمرانوں اور اُن اَفراد کو جو اُن کے خیال میں کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوتے، قتل کردینا دین کا تقاضہ جانا لیکن یہ گروہ بتدریج ایک خفیہ گروہ میں تبدیل ہوا اور اپنے منظم وجود کو تو کھو بیٹھا لیکن اس کی فکر کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی بھی ان سے شدید طور پر متاثر نظر آتی ہے۔

مسلمانوں میں (آج) جو قتل و غارتگری نظر آرہی  ہے اُس  پر  خارجی(یعنی خوارج کی) فکر کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔۔ صاف نظر آتا ہے کہ خوارج سے شروع ہوکر۔۔۔نجدی فکر اوررویوں میں کئی باتیں مشترک ہیں، اپنے نقطہ نظر کو صحیح ترین اور دوسروں کو گمراہ سمجھنا اور سیاسی طاقت حاصل ہوجائے تو سختی اور بزور قوت اس نقطہ نظر کو قائم کرنا بلکہ مخالفت کرنے والوں کو قتل کر دینے کو بھی دین کاتقاضہ  سمجھنا (وغیرہ)۔۔یہ سختیاں اپنے ساتھ محرومیاں بھی لائیں۔ ۔فلسفہ اور منطق میں یونانی اثرات بتدریج کم ہوئے تو نہ صرف دینی فکریات میں عقل کا رول کم ہوا بلکہ عقلی علوم بھی اس کی زد میں آئے۔ ۔ سائنس کے مشہور مؤرخ جارج سارٹن کے مطابق بارہویں صدی تک کوئی چار صدی پر محیط عرصے میں ہر صدی میں دنیا کا سب سے بڑا سائنس داں کوئی عرب مسلمان ہی ہوا کرتا تھا لیکن تیرہویں صدی آتے آتے وہ عالمی برتری متاثر ہونے لگی اور اس میدان میں یہ زوال بڑھتا ہی چلا گیا۔ ۔ کوئی ایک ہزار سال کے عرصے میں یعنی سولہویں صدی تک مسلمانوں نے علوم و فنون، سائنس، فن تعمیر اور ادب وغیرہ میں جو کچھ کیا وہ اب ٹھٹھر کر رہ گیا۔ اس میں اضافہ یا نیا پن گویا ختم ہو چکا تھا۔ ۔ عالم اسلام میں جو کچھ ہوا اس میں اپنی اندرونی کمزوریوں کا بڑا دخل تھا (ص 11 تا 23)۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ تمیم انصاری سے قبل عالم اسلام کی تاریخ پر مجتہدانہ نظر ڈالنے کی کوئی کوشش اس سے قبل نہ ہوئی ہو۔ علامہ اقبال، سید قطب، علی شریعتی، خرم مراد،شکیب ارسلان، میاں محمد افضل،اسرار عالَم اور راشد شاذ  وغیرہ کی بیشتر کتابیں فی الواقع اسی تناظر میں  مسئلے کو سمجھنے اور سمجھانے کی سنجیدہ کوششیں ہیں۔ ابھی حال ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی اس سلسلے کی ایک کوشش کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن، اہل ایمان کے دائمی دشمنوں اور خوارج، دونوں کی پیدا کردہ تلبیس ِ حق و باطل نے صورت حال کو اتنا بگاڑ دیا ہےکہ اصلاح کی کوئی کوشش فوری طور پر مؤثر اور کارگر ہوتی نظر نہیں آتی۔ایسے میں مسائل کی تہوں کو پرت در پرت کھولنے اور ’عذاب دانش حاضر ‘ کی تاریخ کے پس منظرمیں اُسے سمجھنے کی  مزید کوشش کے طور پر تمیم انصاری کی یہ کتاب جو محبی ذکی کرمانی کے طفیل اردومیں ’قافلہ کیوں لُٹا ‘ کے نام سےموجود ہے، اُسی علمی اور تحقیقی مساعی کی توسیع ہے جو درج بالا فہرست کے علما اور دانشور پچھلے ایک سو سال کے عرصے میں تسلسل سے کرتے آرہے ہیں۔

کتاب اور اس کے  موضوع اورمقاصد پرگفتگو کرنے سے پہلے آئیےموجودہ کشاکشِ عالَم پر ایک نظر ڈالیں۔ ماضی میں، سر ِ دست، بہت دور تک جھانکنے کی کوشش نہ بھی کریں تو، کم از کم، ایک سو برس کے واقعات کو نگاہ میں رکھنا بہر حال ضروری ہے۔ 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ، 1948 میں فلسطین کی سرزمین پر اسرائل کا غاصبانہ قیام، 1982  میں صبرہ اور شتیلہ فلسطینی پناہ گزیں کیمپوں میں قتل عام، 1990 میں کویت پر عراق کا قبضہ اور پہلی جنگِ خلیج کا آغاز ، 2001 میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے بعد  2003 میں عراق و افغانستان کی بربادی کی شروعات جو ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے، 2006 میں پہلی حزب اللہ اسرائل جنگ، 2008 میں غزہ کی معاشی ناکہ بندی کی ابتداجو تا حال جاری ہے،  2009 اور 2012 میں دوبار غزہ پر اسرائیلی فوج کشی 2011 میں لیبیا کے مرد آہن معمر قذافی کا قتل اور شام میں خانہ جنگی کی ابتدا ، 2012 کے پارلیمانی الکشن میں کامیابی کے بعد  مصر میں محمد مرسی کی سربراہی میں پہلی اخوان حکومت کا قیام اور 2013 میں جنرل السیسی کے ہاتھوں جمہوری حکومت کا خاتمہ اور 2015 میں یمن کی جنگ کا آغاز۔ شام اور یمن کی جنگ آج بھی جاری ہے اور جس کے تیسری عالمی جنگ میں تبدیل  کر دیے جانے کے تمام تر خدشات پختہ سے پختہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ مغرب اسلام اور مسلمان دونوں کو اپنے اَقدار اور اِقتدار دونوں کے  لیےمستقل خطرہ تصور کرتا ہے اور دوسرے قدرتی وسائل جن کے بڑے ذخائر قدرت نے اسی سرزمین میں رکھ چھوڑے ہیں جو عالم ِ اِسلام کہلاتی ہے ! لہٰذا تیسری جنگ عظیم کے دو بنیادی مقاصد ہیں : مسلمانوں کی طاقت کا خاتمہ اور  ان کی زمینوں پر قبضہ۔لیکن یہ مسائل اتنے سادہ بھی نہیں، اس کے اور بھی ابعاد ہیں۔ اور تمیم انصاری کی کتاب قافلہ کیوں لُٹا ‘ ان ہی اَبعَاد کو سمجھنے کی ایک ایماندارانہ کوشش ہے۔ ’’تمیم انصارنے سوال قائم کیا ہے  کہ سترہویں و اٹھارہویں صدی کے دوران جغرافیائی اعتبار سے منسلک دنیا کی تین عظیم سلطنتیں جو مغلیہ بر صغیر، صفوی ایران اور سلطنت عثمانیہ پر مشتمل تھیں بغیر کسی فوج کشی کے آخر کیوں اور کیسے بتدریج یورپیوں کے ہاتھوں میں چلی گئیں ؟ تمیم انصاری نے ان ہی مخصوص حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی  ہے  اور مترجم محمد ذکی کرمانی نے بھی اُسی فکر کو آگے بڑھایا ہے جس کا اظہار ان کے تحریر کردہ بیس صفحات کے بسیط مقدمہ کتاب اور تین صفحات کے نہایت جامع تتمہ کتاب ’نظرے خوش گزرے ‘ سے ہوتا ہے۔

ذکی کرمانی  نے درست نشاندہی کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور پھر بعد کے دور میں بھی ایک طویل عرصے تک صورت حال یہ رہی کہ رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے حمایتیوں کا گروہ وحی الٰہی اور اس سے مشتق علوم کی بنیاد پر  نہ صرف اخلاق و اقدار کے باب ہی میں اپنے تمام ہم عصروں سے آگے تھا بلکہ ان تمام علوم و فنون میں میں بھی ان سے کسی طور پیچھے نہ تھا جو دنیا میں  حکومت کے قیام اور اہتمام و انصرام  کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور جن کی طرف قرآن کریم میں بالواسطہ  اشارے موجود ہیں۔

 مثلاانفرادی طور پر ہر شخص ہتھیاروں اور ان کے استعمال کی تکنیک سے اُسی طرح واقف تھا جیسے اپﷺ کے مخالف گروہ کے افراد !تجارت اور اس کی حکمت عملی میں مخالف گروہ جو استعداد رکھتا تھا اسی استعداد کا حامل آپ ﷺ کا گروہ بھی تھا۔ ملکی انتظام و انصرام اور ایک مختلف مذہبی تشخص رکھنے والے گروہوں کو کن بنیادوں پر نئی مملکت میں رکھا جائے اس معاملے میں  آپ ﷺ  کے گروہ کی استعداد دوسروں سے کہیں بہتر تھی۔ جنگی معاملات میں تکنیکی اعتبار سے آپ ﷺ اور آپ کے رفقا ؓ کو اپنے ہم عصروں پر فوقیت حاصل ہو گئی تھی۔ ۔

لیکن وہ توازن  اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں اور بعد کی کچھ  صدیوں تک توقائم رہا لیکن سولہویں صدی اور اس کے بعد، زندگی کے کسی بھی میدان میں، بوجوہ قائم نہ رہ سکا۔۔

بات یہ ہے کہ۔ ۔اکیسویں صدی میں غلبہ تو بڑی چیز ہے، ایک آزاد وجود بھی، علم و فن کی ترقی پر منحصر ہو گیا ہے ! حربی ترقی، دواؤں کی تیاری، علاج معالجے کی حصولیابیاں، نقل و حمل کے ذرائع اور پیغام رسانی کی رفتار میں بے تحاشہ اضافہ، مصنوعی ذہانت (کمپیو ٹر۔آرٹیفیشل انٹلی جنس) اور وہ تمام کام جنہیں انسانی خیر کا نام دیا جاتا ہے ان سب کا تعلق اب علم و فن سے ہو گیا ہے۔ ترقی کے یہ سارے پہلو مل کر ہی ایک آزاد وجود اور غلبے کی ضمانت دیتے ہیں۔ لیکن اِس پہلو سے مغرب اور مسلم اقوام کے درمیان دوری،کم ہونے کے بجائے، سرِ دست، بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس دوری کو مٹانا آج فرض کفایہ بن چکا ہے ! (قافلہ کیوں لُٹا۔ مقدمہ ص 28۔30)

2 تبصرے
  1. انس بدام کہتے ہیں

    سر، جزاک اللہ
    آپ کی ایسی ہی پوسٹوں کا میں شدت سے انتظار کرتا ہوں۔ایسے کالم بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں حالیہ شایع شدہ تحقیقی، علمی اور تاریخی کتب پہ تبصرہ کیا گیا ہو! امید ہے اس سلسلہ کو قایم رکھ کر ہم طلباء کو شکریہ کے مواقع عنایت کرتے رہیں گے۔

  2. شاہ عبدالوہّاب کہتے ہیں

    انس بدام بھائ کے خیالات سے مطفیق ہوں.
    شاہ عبدالوہّاب جلگاؤں

تبصرے بند ہیں۔