قدرتی آفات: غور و فکر کے چند پہلو

ابو عفاف عبدالوحيد سلفي رياضي

قدرتی آفات وتباہی کا سلسلہ ابتداء آفرینش سے جاری ہے۔ ان کی آمد کا صحیح اور بالضبط علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے جنہیں رب کائنات نے پہلے ہی سے مقدر کر رکھا ہے۔ یہ قدرتی آفات وحوادث بندوں کو ڈرانے اور آگاہ کرنے کے لئے ہوتے ہیں تاکہ وہ عبرت پکڑیں اور اپنی اصلاح کریں۔

درحقیقت انسان اللہ کی قدرت وطاقت کے سامنے اتنا کمزور اور ضعیف ہے کہ اپنی بے شمار سائنسی ترقیوں اور ٹکنالوجی کے باوجود انہیں روکنے میں ناکام ہوجاتا ہے اور اس کے کبروغرور کا قلعہ آناً فاناً منہدم ہوجاتا ہے۔ دنیا کی آنکھوں نے کبھی طوفانِ نوح کا مشاہدہ کیا، تو کبھی قوم لوط کی بستیوں کو زمین دوز ہوتے دیکھا، کبھی قوم عادسخت ہوا اورقومِ ثمود چیخ کے عذاب میں تہہ تیغ کردی گئی تو کبھی قوم شعیب کڑک اور بدلیوں کی نظر ہوگئی، تو کبھی دنیا کے سپر پاور امریکہ کوسمندری طوفان اور برفانی تودوں میں سسکتے دیکھا، کبھی بنی نوع انسانیت طاعون، وبائی امراض، مسخ وخسف کی شکار ہوئی تو کبھی سونامی نے شہروں، بستیوں اور انسانی آبادیوں کو خش وخاشاک کی طرح اپنی موجوں میں تباہ وبرباد کیااور کبھی دنیا نے اتراکھنڈ، بہاراور آسام کے دلدوز سیلابی تباہی کا نظارہ کیا۔ غرضیکہ اللہ کا عذاب جب آجاتا ہے تو انسان اپنی تمام تر استعداد کے باوجود بے بس اور لاچار ہوجاتا ہے۔

جس طرح ہرسال دنیا کے مختلف ممالک سیلاب وطوفان کے زد میں آتے ہیں اسی طرح ہمارا ملک بھی ان آفات سے محفوظ نہیں ، بلکہ ہر سال ملک کے مختلف خطوں میں سیلاب، طوفان اور وبائی امراض کا قہر ٹوٹتا ہے اور ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ سال ۲۰۱۸ ؁ء بھی اس طرح کی آزمائشوں اور تباہی کا عنوان رہا۔ ماہ اگست میں سرزمین کیرلا نے تباہی کے وہ دلدوز مناظر دیکھے کہ گزشتہ ایک صدی سے زائد میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے قدرتی مناظر کے آغوش میں بسنے والے شہر اور بستیاں تباہ وبرباد ہوگئیں۔ مسلسل بارش ، دریاؤں کی طغیانی اور خطرات کے نشان کو پار کرتا ہوا پانی کا ریلا اس طرح بے قابو ہوا کہ اس کی زد میں آنے والے تمام شہر اور بستیاں ندیوں اور جھیلوں میں تبدیل ہوگئیں۔ سیلاب اتنا طاقتورتھا کہ بچاؤ کے سارے انتظامات فیل ہوگئے اور ہر چہار سو تباہی وبربادی کی ہولناک تصویریں دیکھ کر دل دہل گیا اور پانچ سو سے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اب بھی مفقودہیں، ہزاروں کی تعداد میں گھر زمیں بوس اور منہدم ہوگئے، دس ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں تباہ وبرباد ہوگئیں۔ لاکھوں ایکڑ کھیتیاں اور فصلیں اس عذاب کے بھینٹ چڑھ گئیں ، دس لاکھ سے زائد انسان خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے، کل ۱۴ (چودہ)اضلاع میں سے ۱۱ (گیارہ) اضلاع اس سیلابی طوفان سے متأثر ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کیرلا کا تین چوتھائی رقبہ اس سیلاب کی زد میں آیااور اس ناگہانی تباہی نے اہل کیرلا کے لئے لامتناہی انسانی بحران کے دروازے کھول دیئے کہ وہ معمولی اسباب زندگی کے لئے بھی مجبور ہوگئے۔ کیرلا گورنمنٹ کے ایک اندازے کے مطابق ۲۰ ہزار کروڑ سے زائد املاک تباہ وبرباد ہوگئے۔

ایسی عام تباہی کے وقت ہر وہ انسان جس کے سینے میں دھڑکتا دل ہے اپنا دست تعاون دراز کرتا ہے ، علاقائیت، رنگ ونسل اور دیگر تمام حدود وقیود سے باہر نکل کر تڑپتی انسانیت کا سہارا بنتا ہے اور جس سے جتنا ہوسکے دامے، درمے ، سخنے ، قدمے ان تباہ حال لوگوں کی مدد کرتا ہے۔چنانچہ ملک کے چپے چپے سے صدائے تائید بلند ہوئی اور ہر طرح کے تعاون کے لئے اس ملک نے زندہ دلی، بیداری اور اخوت وبھائی چارگی کا ثبوت دیا۔ انفرادی اور اجتماعی پیمانے پر غذائی اشیاء اور رسد رسانی کا سلسلہ شروع ہواجس سے ان مجبور وپریشان حال لوگوں کو تن ڈھکنے، سر چھپانے ، سانس لینے اور اپنے غم والم کو ہلکا کرنے میں کافی مدد ملی۔ آج بھی کیرلا سرکار مقامی رضاکاران اور ملک کے مختلف خطوں سے سرگرم افراد اور منتظمین ان کا غم بانٹنے، غذائی اجناس فراہم کرنے، طبی سہولیات مہیا کرنے اور ان کی باز آبادکاری کے لئے پیہم کوشاں اور سرگرداں ہیں۔

ایسی عام تباہی کے موقع پر جب انسان خالص انسانی بنیادوں پر مدد کرنے کے بجائے سیاسی بازیگری کا کارڈ کھیلتا ہے اور اسے سیاسی ومذہبی زاویے سے پرکھتا ہے تو کافی افسوس ہوتا ہے۔ اسے قومی تباہی کے زمرے میں شمار نہیں کرتا، مناسب امداد میں ٹال مٹول کرتا ہے تو کافی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ حقیقت میں زخم پر نمک چھڑکنے جیسا عمل ہوتا ہے۔ اس ہولناک تباہی کے موقع پر مرکزی حکومت کو سیاست سے اوپر اٹھ کر ہر طرح کا تعاون پیش کرنے اور اس کی بھر پائی کے لئے جتنا بھی مالی امداد مطلوب ہے اسے حتی الامکان مہیا کرانے کی یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ جمہوریت میں فیڈرل گورنمنٹ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ تمام صوبوں کو ایک نظر سے دیکھے۔ ان کے دکھ درد، عمومی تباہی، سیکیورٹی، تحفظ اورامن وشانتی کے لئے ہمہ وقت تیار رہے۔ فیڈرل ڈھانچے میں اگر مرکزی حکومت تعصب کا شکار ہوجائے، بعض صوبوں کو بعض پر فوقیت کی سیاست پر گامزن ہو، رنگ ونسل، لسانی وجغرافیائی اورسیاسی وسماجی بنیادوں پر ایک کو دوسرے پر ترجیح دے تو یہ انتہائی خطرناک اور مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ جمہوریت کی بنیادوں میں دراڑ اور فیڈرل اسٹرکچر کو فریکچر کرنے کا بیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے مرکزی حکومت سے اعتماد اٹھتا ہے اور خود مختاری کی ذہنیت کو شہ ملتی ہے۔ اس لئے کسی بھی فیڈرل سیٹ اپ میں یونین گورنمنٹ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک کے تمام صوبوں کو ایک نظر سے دیکھے اور عمومی تباہی وطوفان کے وقت ان کی پشت پناہی اور حفاظت کرے۔ ظلم وناانصافی کا احساس ان کے شہریوں میں کبھی پروان نہ چڑھنے پائے۔

میرے بھائیو! سیلاب، طوفان، وبائی امراض، زلزلے، آتش فشاں اور نا گہانی آفات کے جو بھی دنیاوی اور سائنسی اسباب گنائے جائیں مگر اسلامی نقطۂ نظر سے ان کا اساسی سبب یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی جانب سے یہ پہلے ہی سے مقدر ہوتے ہیں جن کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ وہ ہر حال میں آکر رہیں گے انسان چاہے جتنا ان کے لئے حفاظتی انتظامات واقدامات کرلے۔ ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ آفات وطوفان بطور عذاب اس وقت نازل کرتا ہے جب شرک وبدعات عام ہوجائیں، ظلم وغارتگری کا بول بالا ہو، عدل وانصاف کی امیدیں معدوم ہوجائیں، ظالم بے خوف دندناتا پھرے اور مظلوم کی دادرسی کرنے والا کوئی نہ ہو، تاکہ لوگ ان سے عبرت ونصیحت حاصل کریں، توحید کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ، اللہ سے ڈریں، برے اعمال سے تائب ہوجائیں، اللہ کی طرف رجوع کریں اور یہ جان لیں کہ اللہ کی قوت وطاقت کے سامنے تمام قوتیں ہیچ ہیں۔

اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے کثرت سے زلزلے ، طوفان، ہلاکتیں ، امراض اور قتل وغارت گری ہوگی، ظلم وستم عام ہوگا، امن وسکون اٹھتا جائے گا اور انسانیت کا جنازہ بھی نکل جائے گا۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ایسی صورتحال میں اللہ تعالیٰ پر اپنے ایمان ویقین کو پختہ کرے، اس کے قضاء وقدر پر ایمان لائے، اپنے آپ کو سنبھالے، دنیاداری سے باز آئے، توحید کے دامن کو تھام لے، اپنی کمزوری، بے بسی اور بے مائیگی کا اعتراف کرے اور اللہ تعالیٰ کو ہی مدبّر الامور والأسباب مان کر اپنی زندگی کو راہِ حق پر لگا دے۔

تبصرے بند ہیں۔