قدرت نے بنایا ہے تجھے صاحبِ تدبیر 

مقصود اعظم فاضلی

قدرت نے بنایا ہے تجھے صاحبِ تدبیر
کرتے ہیں جواں مرد کہاں شکوۂ تقدیر

اس شان سے جنگاہ میں جاتا ہے مجاہد
اک ہاتھ میں قرآن ہے اک ہاتھ میں شمشیر

باطل کے پرستاروں کو للکار رہا ہوں
دیوانہء حق ہوں مجھے پہنائیے زنجیر

اس مردِ تن آساں کی میں عظمت کے تصدق
جو راز خودی کا تھا جو تھا عشق کی تفسیر

اخلاق کی دولت مجھے ورثے میں ملی ہے
تہذیبِ خودی ہے مرے اسلاف کی جاگیر

سینے سے لگا لیجئے یہ فلسفہء حق
تفریق سے تنزیل ہے تنظیم سے تعمیر

انصاف کرے یا نہ کرے تجھ پہ ہے موقوف
یہ فرض ہے میرا کہ ہلا دوں تری زنجیر

اعظم میں ہر اک سمت لہو دیکھ رہا ہوں
اللہ کرے الٹی ہو اس خواب کی تعبیر

تبصرے بند ہیں۔