قربانی: احکام و مسائل

رضی الہندی

قربانی کے لئے عربی زبان میں "الاضحیۃ” کا لفظ مستعمل ہے اور اس شئ کو کہتے ہیں جسکو ذبح کیا جائے۔

   شرعیت اسلامیہ میں اس مخصوص جانور کا نام ہے جو کہ مخصوص عمر کے، مخصوص دن میں اسکی شروط اور اسباب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قربت اور رضا جوئی کے لئے ذبح کیا جائے۔

  قربانی ایک مستحب عبادت ہے بعض لوگ اس کے وجوب کے قائل ہیں جو کہ انکا اپنا باطل اجتہاد ہے۔

  قربانی ہر آزاد مسلمان یوم اضحیٰ کو اپنے نفس کی طرف سے کر سکتا ہے اور اپنے اہل خانہ کی اور سے بھی کرسکتا ہے۔

  قربانی کے کچھ مخصوص جانور ہیں جن کو سنتی کہتے ہیں اور دیگر کو غیر سنتی۔ بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے اور اونٹ یہ مسنون جانور ہیں اور بھینس یہ اجتہاد کی رو سے ہے زمانہ نبوت میں اسکا وجود نہیں ملتا بعد کے فقہاء کرام نے اس کو گائے کی جنس سے مانکر اسکی قربانی کو جائز قرار دیا ہے۔

 اور مجتہد علماء کی ٹیم اسکو ناجائز مانتی ہے تو ایک لچک بھی رکھنے والی فکر ہے کہ سنتی جانوروں کے مفقود ہونے کی صورت میں جائز ہے۔

    قربانی کے جانوروں میں سے دنبہ، بکری، اور بھیڑ کو ایک کی طرف سے ایک ہی قربان کیا جائے گا اس پر علماء اسلام کا اتفاق ہے اس پر بھی کہ گائے و اونٹ کو ایک آدمی کی طرف سے بھی قربان کیا جاسکتا ہے اور ایک سے زائد سات افراد کی طرف سے بھی کفایت کر جائے گا۔ علماء مجتہدین کی ٹیم نے اونٹ کو نو افراد کی طرف سے بھی قربان کرنے کو جائز بتایا ہے۔ بعض اقوال اس کے بھی ملتے ہیں کہ ان دونوں بڑے جانوروں کو سات سے کم افراد کی طرف قربان کیا جاسکتا ہے۔

  قربانی فقراء ومساکین اور مسافروں کیلئے واجب نہیں جوکہ اس کو واجب سمجھتے ہیں۔

  قربانی کا افضل وقت دس ذی الحجہ کا دن ہے جبکہ عید کی نماز اور خطبہ ہوچکا ہو اسکے پہلے کی قربانی قربانی میں شمار نہیں ہوگی، اسکے علاوہ مزید گیارہ و بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو بھی قربانی کی اجازت  شریعتِ محمدی میں ہے۔

   قربانی کے جانور کے انتخاب میں چند احتیاط از حد ضروری ہیں، جانور اندھا نہ ہو، اہینچا (آنکھوں میں عیب) نہ ہو،  ایسا نحیف و کمزور نہ ہو کہ اس کی ہڈی میں گودا و رس نہ ہو، کان کٹا نہ ہو، پونچھ کٹا بھی نہ ہو،

ایک رائے فقہاء کی ہے کہ کان و پونچھ کے کٹنے کے عیب نمایاں نہ ہوں تو اس جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے۔

   بلا سینگ کے جانور، خصی جانور، خارش زدہ جانور، پاگل صفت جانور کی قربانی جائز ہے۔

   بھیڑ سے یک سالہ کی قربانی جائز جبکہ بکری مسنہ ہونا چاہئے۔

  قربانی کے گوشت کو کھانا کھلانا جائز ہے اور یہ امت محمدیہ کا خاصہ ہے۔ اور اس کو بانٹنا اور ذخیرہ اندوزی کر رکھنا بھی جائز ہے۔

  قربانی کے جانور کی خال کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ورنہ صدقہ کردیں۔

  قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا چاہئے یہ بہتر و افضل ہے۔ تاہم دوسرے مسلم بھائی سے کرانا بھی جائز ہے اور اہل کتاب سے ذبح کرانا مشکوک عمل میں شمار کیا جائے گا۔

  قربانی کے متعلق یہ تمہیدی کلمات میں نے تحریر کردئے ہیں اب انکو قرآن و احادیث کی عدالت میں پیش کر ایک ایک مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ آگے کی تحریر میں سمجھا جائے گا۔

 اردو کا لفظ قربانی قربان سے مشتق ہے اور لغوی اعتبار سے قربان سے مراد "ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ رب العالمین کا تقرب حاصل کیا جائے چاہے ذبیحہ ہو یا کچھ اور۔ ۔”

قربانی کی مشروعیت پر  اللہ تعالیٰ نے فرمایا

(ولکل امۃ جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللہ علی ما رزقہم من بھیمۃ الانعام ……الحج34)

"اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں "_

دوسری جگہ ہے

 (فصل لربک وانحر۔۔۔الکوثر…2)

"اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر”_

تیسرے مقام پر ہے

(قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین ……الانعام ……162)

"کہہ دیجئے میری نماز، قربانیاں، حیات اور مرنا سارے جہانوں کے پالنہار اللہ تعالیٰ کے لئے ہے "_

اور فرمایا:

(والبدن جعلناھا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر……الحج…361)

"اور ہم نے تمہارے لئے قربانی کے اونٹوں کو شعائر اللہ میں سے بنا دیا، تمہارے لئے اسمیں ہر بھلائی ہے "_

 ان آیات میں قربانی کی مشروعیت پر نص صریح ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ  کسی غیر کیلئے قربانی کرنا حرام و شرک ہے۔

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربانی فرض تھی لیکن امتیوں کیلئے یہ نفل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے _

 عَنْ أَنَسٍ””أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ””(البخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ (البخاری)

   ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ الْحَدِيثَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "”وَنَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ سَبْعَ بُدْنٍ قِيَامًا، ‏‏‏‏‏‏وَضَحَّى بالمدينة كَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ مُخْتَصَرًا””. (البخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور روایت میں ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سات اونٹ کھڑے کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کئے اور مدینہ میں دو چتکبرے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی۔ (البخاری)

   ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ:‏‏‏‏ كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا فِيكُمْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  كَانَ الرَّجُلُ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ ثُمَّ تَبَاهَى النَّاسُ فَصَارَ كَمَا تَرَى .(صحیح ابن ماجہ)

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے، تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔

(سنن ابن ماجہ۔ ۔۔البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق صحیح سند ہے مزید ترمذی شریف میں بھی ہے)

 الغرض یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قربانی ایک مشروع عمل ہے۔

اسکی شرائط میں سے یہ بھی ہیکہ جو آدمی فرداً قربانی کرنا چاہے تو وہ ذی الحجہ کے ہلال کے بعد اپنے بال اور ناخن نہ کانٹے گا اور نہ ہی تراشے گا۔اور اگر ایک جانور اپنے و اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربان کرے گا تو پورا گھر بال و ناخن کو ھلال ذی الحجہ کے بعد قربانی کرنے تک نہ چھیڑیگا۔

تبصرے بند ہیں۔