مشرق ؔصدیقی کی رحلت پر

وقار عظیم فاطمی

ایک تسلسل کے ساتھ بزم مجلس احباب ملّت کے احباب اپنی منزل کی طرف  محوِ سفر ہیں جن کے ساتھ بہت سا وقت ادب کی تخلیق اور ترویج میں بسر کیا جس کی تفصیل ان کی تاریخِ وفات کے ساتھ مندرجہ ذیل ہے:

۱۔ ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی    9   ِمئی 2011ء(روحِ رواں بزم مجلس احباب ملّت)

۲۔ قیصر سلیم  7  ِ مارچ 2013ء(رکن بزم مجلس احباب ملت اور بانی فکشن فورم)

۳۔ یاور امان   17   ِجون 2014ء(رکن بزم مجلس احباب ملت)

۴۔ پروفیسر علی حیدر ملک  30   ِدسمبر2014ء(رکن بزم مجلس احباب ملت، فکشن گروپ اور اخبار ضہاں کے ادبی کالم نگار)

۵۔ رضی صدیقی5  ِدسمبر2015ء( رکن بزم مجلس احباب ملّت۔۔برادر خُرد پروفیسر نظیر صدیقی)

۶۔ خواجہ منظر حسن منظر  31  ِ دسمبر 2015ء(رکن و صدربزم مجلس احباب ملّت)

۷۔ صدیق فتح پوری  19  ِ مئی 2018ء (سکریٹری بزم مجلس احباب ملّت)   اور اب

۸۔ مشرق صدیقی15  ِ جولائی 2018ء(رکن بزم مجلس احباب ملت)

ان احباب میں کوئی بھی غیر معروف نہیں۔ بیشتر بیسیوں کتابوں کے خالق اور ادبی دنیا کے مقبول و محترم احباب تھے جن کی وفات نے یقینی طور پر دنیائے ادب میں ایک خلا پیدا کیا ہے۔

آئیے مشرق صدیقی کو یاد کرتے ہیں۔

اصل نام:کوثر علی صدیقی ولد عبدالجبار صدیقی پیدائش:۱۰/ارچ۱۹۴۴ء   تاریخِ وفات:15  ِ جولائی2018 ء

تعلق: جگدیش پورہ۔آرہ۔صوبہ بہار

مشورہء سخن عبدالحمید ساقی اور کاوش عمر سے کرتے رہے۔

ایک مجموعہ کلام "عکس شعور”دسمبر ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا جبکہ مزید کئی کتابیں تیا ر ہیں اور اشاعت کے لئے پریس کے حوالے کی جانی ہیں جن کی ترتیب کچھ یوں ہے۔

یادوں کے دریچے(تذکرے)

جگر لخت لخت(تذکرے)

یاران عصر(مجموعوں پر تبصرے)

نوائے مشرق(مجموعہء حمد، نعت، منقبت و قصائد)

حسن خیال(غزلیں )

آہنگ شعور(نظموں کا مجموعہ۔مقفع و معرا)

۱۹۶۹ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے گریجو ایشن اور ۱۹۷۰ء میں B.Ed.کیا۔۱۹۹۵ء میں "بزم اہل قلم”میں شمولیت اختیار کی جس کی تنظیم نو کے بعد عمران فرحت صدر، عبدالحمید ساقی نائب صدر اور یاور امان معتمد اعلیٰ منتخب ہوئے جبکہ ممبران میں جلیل عشرت، عبید اللہ ساگر، اکرام الحق اورنگ، نصیر الدین شاہد، ظہیر الدین شیدائی، امین شیدائی اور مشرق صدیقی شامل تھے۔نوشاد نوری سے مجموعہ پر نظر ثانی کے لئے ڈھاکا بھیجا مگر وہ اپنی علالت کی وجہ سے بھر پور توجہ نہ دے سکے۔کاوش عمر اور عبد الحمید ساقی نے مجموعے پر نظر ثانی فرمائی۔

آئینہء احوال کے ذیل میں رقم طراز ہیں "میری شاعری میں نہ تو دقیق فلسفیانہ اسرارو رموز بیان کئے گئے ہیں اور نہ ہی یہ کسی مخصوص مکتبہء فکر کی ترجمان ہے۔”

احمد الیاس اس مجموعے کے حوالے سے لکھتے ہیں "عکس شعور میں ایسے ڈھلتے ڈھلاتے اشعار بہت ملتے ہیں۔ ان میں سرگم بھی ہے، سنگیت بھی، لحن بھی اور لئے بھی۔۔۔انکی شاعری میں جدید اور قدیم طرز فکر سے ایک توازن پیدا ہوا ہے۔اس توازن ہی سے وہ اپنی انفرادیت کی پہچان بناتے  ہیں اور یہ ایک مشکل کام ہے۔”

پروفیسر علی حیدر ملک نے لکھا”مشرق صدیقی کے اشعار ان کے قلبی واردات اور سماجی تجربات پر مبنی ہیں۔ ۔۔”

آئیے کچھ اشعار دیکھتے ہیں :۔

        عشق میں بے چین رہنا عاشقی کی شرط ہے

        درد دل حد سے بڑھا تو بے کلی اچھی لگی

        ساحل پہ کھڑا دیر سے یہ سوچ رہا ہوں

        گہری تری آنکھیں ہیں کہ گہرا ہے سمندر

        پھیلی ہوئی ہے زیست سمیٹوں کہاں کہاں

        جلتا ہوا چراغ کہ بجھتا ہوا چراغ

        مجھ کو بے چین پھر نہ کر جانا

        سلسلہ درد کا رکا ہے ابھی

        اڑ رہی ہیں دھجیاں تہذیب کی

        بے حیائی کا ثقافت نام ہے

        گھر پڑوسی کا جل رہا ہے مگر

        اٹھ رہا ہے دھواں مرے گھر سے

        زندگی کا نصاب چھوڑ آیا

        سارے انمول باب چھوڑ آیا

        جوش وحشت میں اپنے گلشن کا

        ہر شگفتہ گلاب چھوڑ آیا

        وہ مجھے آئینہ دکھاتے ہیں

        چھین کر مجھ سے میری بینائی

مشرق صدیقی دو ماہ سے علیل تھے اور 15جولائی  2018ء  بروز اتوارکی شب  11.15 پر وہ اپنے اہل خاندان، عزیزوں اور دوستوں کو چھوڑ کر فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔

مشرق صدیقی بہت متحرک اور فعال ادبی شخصیت تھے اس کے علاوہ سماجی اور تعلیمی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ BWF(بہار ویلفئر فاؤنڈیشن) کے بانی اور اہم رکن تھے اس کے علاوہ آدم جی ایجوکیشن کے اورنگی کے میں قائم اسکول کے کئی ادوار میں صدر رہے اور اس کی ترقی کے لئے کوشاں۔

مجلس احباب ملت کے اہم اور مستقل رکن تھے۔

انہوں نے اپنی آخری سانسیں اپنے دوست اور سمدھی عبدالحمید ساقیؔ کے ہاتھوں میں لیں جو معروف، مستند اور اساتذہ میں شمار شاعر ہیں جن کا مجموعہ ء کلام "شعلہ ء افکار”کے نام سے مکمل ہے اور طباعت کا منتظر ہے۔۔یوں ہم ایک اچھے اور مخلص دوست سے محروم ہوگئے۔ان کی نماز جنازہ انکی رہائش گاہ کے قریب مسجد صدیق اکبر میں ادا کی گئی اور محمد شاہ قبرستان میں معروف ادیب، ناول نگار، فکشن رائٹر، فکشن فورم کے بانی، بزم مجلس احباب ملت کے اہم رکن قیصر سلیم(بدرالحسن ملک) کے قریب تدفین ہوئی جس میں عزیز و اقارب اور احباب کی بڑی تعداد کے علاوہ ادبی دوستوں نے بھی شرکت کی جس میں خاکسار کے علاوہ اے۔خیام، عبدالحمید ساقی، احمد سعید فیض آبادی، عبدالرازق عزیز نے شامل رہے  جبکہ حسن امام صدیقی، صفدر علی خان انشاء، احمد زین الدین، سید انور جاوید ہاشمی، شفیق احمد شفیق اور یوسف راہی چاٹگامی بوجوہ شریک نہ ہو سکے۔

اللہ غریق رحمت فرمائے اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمیں۔

تبصرے بند ہیں۔