قربانی اور فلسفۂ قربانی

سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ   ترتیب:ـ عبدالعزیز

دنیا کا نظام جن الٰہی قوانین پر قائم ہے ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اشیاء کو ا ن کے کمالا ت کی طرف ترقی دینے میں، جس طرح مبداِ فیاض کی طرف سے علی قدرِ مراتب، جودو بخشش کا فیضان ہوتا ہے، اسی طرح خود اشیا کو بھی کمال کے ہر نئے مرتبے میں اپنے پچھلے مرتبے کے لوازم اور مالوفات و مرغوبات کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اس قربانی کے بغیر تحصیل کمالات کے سفر میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ بخار کو پانی بننے کیلئے اپنی آزادی اور ہوائیت کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور وہ تقیّدات قبول کرنا ہوتے ہی جو مائیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پانی کو برف بننے کیلئے پھر اپنی رہی سہی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اپنے بہت سے آبی خواص کی قربانی دینی ہوتی ہے، تب جاکر اسے پتھر کی سی سختی اور شیشے کی سی صفائی اور چمک میسر ہوتی ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ بخار کیلئے حالت بخار میں رہتے ہوئے اور ہوا کی سی آزادی و لطافت رکھتے ہوئے وہ کمالات بھی جمع ہوجائیں جو صورتِ مائیہ کیساتھ مخصوص ہیں، اور وہ کمالات بھی جو برف کیلئے مقدر کئے گئے ہیں۔

یہ سنت اللہ ہے جس میں کوئی استثنا اور تغیر و تبدل نہیں، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الفتح)۔ تمام مخلوقات عالم پریہی قانون جاری ہے، اور سب کی طرح انسان بھی اسی کے زیر اثر ہے۔ نطفہ اپنی صورتِ نطفیہ کو قربان کرکے صورت انسانیہ حاصل کرتا ہے، بچہ اپنے بچپن کو قربان کرکے جوانی حاصل کرتا ہے، اور جو ان اپنی جوانی کھوکر بڑھاپے کی بزرگی حاصل کرتا ہے۔ پھر زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ترقی کرنے اور اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کیلئے انسان کو کچھ نہ کچھ قربانیاں نہ دینی پڑتی ہوں۔ بڑائی اور بزرگی کا دامن ہر میدان میں قربانی اور ایثار کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک بڑے فائدے کیلئے بہت سے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں، ایک بڑی لذت کیلئے بہت سی تلخیاں گوارا کرنی پڑتی ہیں، ایک اعلیٰ مرتبے کیلئے بہت سے ان مزوں کو ہاتھ سے دینا پڑتا ہے جو ادنیٰ مراتب میں حاصل تھے۔ جس علامہ کی جلالتِ علمی پر آپ رشک کرتے ہیں اس سے پوچھئے کہ اس نے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں اور کتنا خونِ جگر تحقیق و اکتشاف کی راہ میں کھپایا ہے؟ جس ملک التجار کی دولت کو دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھرا آتا ہے اس سے پوچھئے کہ روپیہ کمانے کی جد وجہد میں کس طرح اس نے دن کے آرام اور رات کے چین کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے؟ جس مدبر سلطنت کے اقتدار اور شان و شوکت کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں، اس سے پوچھئے کہ اسے کتنی کشمکش، کتنی پریشانیوں، کتنی ٹھوکروں اور کتنی روحانی و جسمانی اذیتوں کے بعد اس مقام تک پہنچنا نصیب ہوا ہے؟ غرض زندگی کا کوئی میدان لے لیجئے، ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ کمال اور ترقی کا ہیولیٰ لذتوں کے خون سے تیار ہوتا ہے اور کمال کے مراتب جتنے بلند ہوتے ہیں، ان کیلئے قربانیاں بھی اتنی ہی زیادہ درکارہوتی ہیں۔

دنیوی کمالات سب کے سب جزئی کمالات ہیں، اس لئے وہ قربانیاں بھی صرف جزئی چاہتے ہیں۔ دنیوی کمالات جتنے ہیں سب مادّی ہیں یا ان میں مادّے کی آمیزش ہے، اس لئے وہ قربانیاں بھی ایسی ہی چاہتے ہیں جو مادّی قسم کی ہوں یا مادّے سے لگاؤ رکھتی ہوں۔ دنیوی کمالات کا مقصود نفس یا تعلقات نفس کیلئے فوائد کا حصول ہوتا ہے، لہٰذا ان کیلئے صرف وہ چیزیں قربان کی جاتی ہیں جو نفس اور اس کے محبوبات و مطلوبات سے ماسوا ہیں۔ مگر کمال حقیقی کا معاملہ سب سے جدا گانہ ہے۔ یہ کلی کمال ہے، قربانی بھی کلی چاہتا ہے۔ مادے سے مجرد و منزہ ہے، اس لئے جسم کی نہیں نفس و روح کی قربانی چاہتا ہے۔ گو ظاہری شکل کے اعتبار سے اس کیلئے بھی بت سی ایسی قربانیاں دینا پڑتی ہیں جو مادّی قسم کی ہیں، یا مادّے سے لگاؤ رکھتی ہیں لیکن دراصل وہ مادے کی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ ان محبتوں، ان دلچسپیوں، ان لذتوں اور ان علائق کی قربانیاں ہیں جو انسانی روح اس دنیا کی مادی اشیاء کے ساتھ رکھتی ہو۔ اس کمال کا مقصود نفس یا تعلقات نفس نہیں، بلکہ حق ہے، اس لئے وہ خود نفس کی قربانی چاہتا ہے، اور بشرطِ ضرورت نفس کیساتھ ہر وہ شئے اس کیلئے قربان کرنی پڑتی ہے جو نفس کو مرغوب ہو۔

یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:

لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰل عمرٰن 92)

یعنی تم نیکی کے مقام رفیع تک پہنچ نہیں سکتے جب تک وہ چیزیں نہ خرچ کرو جنہیں تم عزیز و محبوب رکھتے ہو۔ یہ مِمَّا تُحِبُّوْنَ کا لفظ اتنی وسعت رکھتا ہے کہ جان، مال، اولاد، رشتہ دار، دوست، وطن، قوم، عزت، شہرت، ہر دلعزیزی، لذت ومسرت، عیش و آرام، عقائد و افکار، حریتِ خیال و آزادی عمل، غرض ہر محبوب شئے اس میں داخل ہے، اور ان سب چیزوں کو مِمَّا تُحِبُّوْنکے دائرے میں لے کر حکم لگایا گیا ہے کہ اگر تم نیکی کے اعلیٰ مراتب تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمہیں حق کی خاطر ان میں سے ہر چیز قربان کرنا پڑے گی۔ حق سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ تم اس سے محبت رکھو اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرہ، 165)جو چیز تمہارے دل میں اتنا گھر کر لے گی کہ اس کی محبت، حق کی محبت سے بڑھ جائے اور حق کے مقابلے میں تم اس کو عزیز رکھنے لگو، وہی بت ہے، صنم ہے، بنائے شرک و کفر ہے، نیکی کے مقام تک پہنچنے میں وہی سنگِ راہ ہے۔ اس کمال کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پہلی ضرب اسی بت پر لگاؤ اور اسے پاش پاش کرکے حق کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کردو۔

غور سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں اوّل سے لے کرآخر تک جو کچھ ہے قربانی ہی قربانی ہے۔ اسلام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے، انسان کو آزادیِ فکر و آزادیِ عمل کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اسلام لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب آپ اس کیلئے آزاد نہیں ہیں کہ جو عقیدہ چاہیں اختیار کریں اور جو راہِ عمل پسند کریں اس پر چلنے لگیں بلکہ آپ کا کام وہ اعتقاد رکھنا ہے جو خدا اور رسول ﷺ نے پیش کیا ہے، اور ان احکام و قوانین کے مطابق چلنا ہے جو خدا اور اس کے رسول ؐ نے مقرر کردیے ہیں :

اِتَّبِعُوْامَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئِ (الاعراف، 3)

جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری جانب اتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر ان کی پیروی نہ کرو جن کو تم نے دوست بنا لیا ہے۔

یہ ’اسلام‘ یا’نیکی‘کے راستے میں پہلا قدم ہے، اور اسی پر اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے کہ اچھے اچھے اسی مقام پر ڈگمگاجاتے ہیں۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں حلال اور حرام کے حدود ہیں، خبیث اور طیب کے امتیازات ہیں، فرائض و طاعات ہیں، حقوق و واجبات ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسول ؐ نے مقرر کیا ہے۔ داعیاتِ نفس قدم قدم پر انسان کو اثم وعدوان کی طرف کھینچتے ہیں، مگر اسلام مطالبہ کرتا ہے کہ حدود اللہ پر نفس کی ساری خواہشوں کوبھینٹ چڑھاؤ، لذتوں کا خون کرو، فائدوں کو قربان کردو۔ یہ تقویٰ اور پاکیزگی کی راہ بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس پر ایک قدم بھی انسان اپنے جذبات و داعیات، اپنے لطف اور اپنے فوائد کی قربانی دیے بغیر نہیں چل سکتا۔ فضل و احسان کا مقام تو بہت بلند ہے، فرائض و واجبات کے ٹھیک ٹھیک بجا لانے میں حقوق کو پوری طرح ادا کرنے، اور گناہ کے راستوں سے بچ نکلنے ہی میں نفس پرکچھ کم جبر نہیں کرنا پڑتا۔

جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ تو صرف پہلا ہی قدم ہے، یہ پورا اسلام نہیں ہے، بلکہ اسے محض اسلام میں داخلے کا امتحان سمجھئے۔ اسلام صرف یہی نہیں ہے کہ آپ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، بشرطِ استطاعت حج اور زکوٰۃ ادا کریں، معاصی سے محترز رہیں اور حقوق ادا کرتے رہیں، بلکہ اسلام کی اصلی روح یہ ہے کہ آپ حق کو دنیا کی ہر شئے سے زیادہ عزیز رکھیں اور جب موقع آئے تو کسی چیز کو بھی حق پر فدا کردینے میں دریغنہ کریں۔ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ ایک طرف حق ہو اور اس کے ساتھ جان و مال کا زیاں ہو، مصیبتیں اور تکلیفیں ہوں، رسوائیاں اور ٹھوکریں ہوں، اور دوسری طرف باطل ہو، اور اسکے ساتھ عیش و آرام ہو، لطف و مسرت ہو، اور ہر طرح کے فائدے ہوں، تو مسلمان وہی ہے جو حق کے پہلو کو اختیار کرے، اور اس کی خاطر ان سب مصائب کو بخوشی برداشت کرلے:

’’ہم ضرور تم کو کچھ خوف اور بھوک اور جان و مال اور ثمرات کے زیاں سے آزمائیں گے اور (اے نبیؐ) تو ان صبرکرنے والوں کو بشارت دے دے جن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پھرنا ہے۔ ‘‘(سورہ البقرہ، 155-156)

اگر کسی وقت خود اپنے باپ بھائی، اہل خاندان اور دوست حق کے دشمن ہوجائیں تو مسلمان وہی ہے جو حق کیلئے ان سب کو چھوڑ دے اور کسی سے تعلق نہ رکھے:

’’تو کوئی قوم ایسی نہ پائے گا جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دشمنوں سے محبت بھی رکھے، چاہے وہ دشمنانِ خدا و رسول ؐ ان کے باپ یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ ‘‘(المجادلہ22)

اگر کسی وقت قوم اور وطن کی حق سے دشمنی ہو جائے تو مسلمان وہی ہے جو حق کی خاطر قوم سے قطع تعلق کرلے اور وطن کو خیر باد کہہ دے، ورنہ اس کو منافق کہا جائیگا خواہ وہ کیسا ہی نمازی پرہیز گار ہو:

فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْ لِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (النساء:89)

تم ان کو ہر گز دوست نہ بنانا جب تک کہ وہ خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔

اگر کسی وقت دشمنانِ سلام کے خلاف جنگ کی ضرورت پیش آجائے تو مسلمان وہی ہے جو سر ہتھیلی پر لے کر مرنے اور مرنے کیلئے نکل آئے۔

تبصرے بند ہیں۔