قربانی کا سماجی پہلو

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

   قربانی کا زمانہ آتے ہی اسلام اور مسلمانوں کے بہت سے ہمدرد اور بہی خواہ نکل آتے ہیں۔ وہ بغیر مانگے ایسے مشورے دینے لگتے ہیں جن سے بہ ظاہر انسانی غم خواری، ہمدردی اور محبت کا اظہار ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ان کے مشورے اسلامی تعلیمات پر خط نسخ پھیرنے والے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ قربانی کی رسم پوری دنیا کے مسلمان انجام دیتے ہیں۔ حج پر جانے والے بہت بڑی تعداد میں جانور قربان کرتے ہیں، افرا تفری میں ان کا گوشت صحیح مصرف میں استعمال نہیں ہوپاتا اور ضائع ہوجاتا ہے۔ جو لوگ حج پر نہیں جاتے وہ بھی عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے ہیں۔ اس طرح کروڑوں مسلمانوں کا اربوں کھربوں روپیہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر اس خطیر رقم کی منصوبہ بندی کرکے اسے رفاہی کاموں میں لگادیا جائے، بہت سی ڈسپنسریاں اور اسپتال کھول دیے جائیں، مکاتب و مدارس، اسکول، کالج اور یونی ورسٹیاں قائم کر دی جائیں اور اسے ایسے کاموں میں صرف کیا جائے جن سے غریب مسلمان فائدہ اٹھاسکیں تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

      یہ باتیں ایسے معصومانہ انداز میں کہی جاتی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے، خدمت خلق کے تمام کام صرف قربانی کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ قربانی کا عمل ترک کرتے ہی یہ سارے کام ہونے لگیں گے اور غریب مسلمانوں کی تمام مشکلات اور پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ حالاں کہ سوچنے کا یہ انداز درست نہیں ہے۔ اگر مال دار مسلمانوں میں خدمتِ خلق اور انفاق کا جذبہ پیدا کیا جائے تو قربانی پر عمل کے ساتھ رفاہی اور سماجی خدمات بھی انجام دی جاتی رہیں گی اور مال دار مسلمان صرف غریب مسلمانوں، بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے غریب انسانوں کی بھی ضروریات پوری کرنے کی طرف توجہ کریں گے۔

  قربانی ایک خالص دینی عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور اسے اطاعت الٰہی کا ایک نشان(Symbol)قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے خود قربانی کی ہے اور مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب دی ہے، چنانچہ مسلمان اسے سنت مؤکدہ سمجھتے ہیں اور ہر صاحبِ حیثیت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قربانی کی دینی حیثیت کے ساتھ اس کا سماجی پہلو بھی ہے۔ اس سے نہ صرف قربانی کرنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے، بلکہ دیگر بے شمار انسان بھی اس سے فیض اٹھاتے ہیں۔ آئندہ سطور میں اس پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔

   قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ‘‘ (الحج: ۲۸،۳۶) احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں جب صحابۂ کرام تنگی اور فقر کا شکار تھے، اللہ کے رسول ﷺ نے تین دن سے زیادہ گوشت استعمال کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ اس حکم کا منشا یہ تھا کہ قربانی کرنے والے اس کا گوشت اپنے پاس ذخیرہ کرکے نہ رکھ لیں، بلکہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کریں۔ بعد میں جب تنگی دور ہو گئی اور صحابہ مال دار ہوگئے تو یہ پابندی ختم کر دی گئی اور آپ ؐ نے عام اجازت دے دی۔ فرمایا: ’’قربانی کا گوشت جب تک چاہو کھاؤ، جتنا چاہو ذخیرہ کرو اور دوسروں کو بھی کھلاؤ‘‘۔ (بخاری: ۵۵۶۹، مسلم: ۱۹۷۴)

  رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے: ایک حصہ گھر والوں کے لیے رکھتے تھے، دوسرا حصہ پڑوس کے ضروت مندوں کو بھجواتے تھے اور تیسرا حصہ مسکینوں اور مانگنے والوں کو دیتے تھے۔ حج کے موقع پر آپؐ نے سو (۱۰۰) اونٹوں کی قربانی کی۔ اپنے کھانے کے لیے چند بوٹیاں نکال کر باقی سارا گوشت تقسیم کر دیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے بھی مروی ہے کہ قربانی کے گوشت کا ایک حصہ وہ اپنے لیے رکھ لیتے تھے، دوسرا حصہ فقراء و مساکین میں صدقہ کر دیتے تھے اور تیسرا حصہ رشتے داروں اور اہل تعلق کو بھیجتے تھے۔ دنیا میں کروڑوں انسان خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ انھیں مہینوں اچھی قوت بخش غذا نہیں مل پاتی۔ قربانی کے نتیجے میں انھیں کچھ اوقات کے لیے گوشت کھانے کو مل جاتا ہے۔

    قربانی چھوٹے جانوروں (بکرا، بھیڑ، دنبہ وغیرہ) کی بھی کی جاتی ہے اور بڑے جانوروں (اونٹ، بھینس وغیرہ) کی بھی۔ چھوٹے جانوروں کی قربانی صرف ایک فرد(مرد یا عورت) کی طرف سے ہوتی ہے اور بڑے جانور میں سات حصے ہو سکتے ہیں۔ بعض لوگ چھوٹے اور بڑے دونوں طرح کے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ لیکن یہ رویہ بالکل نامناسب ہے کہ چھوٹے جانور کا پورا گوشت اپنے لیے رکھ لیا جائے اور بڑے جانور کا گوشت غریبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ قربانی گوشت کھانے کا تہوار نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے انجام دیا جانے والا ایک عمل ہے، اس لیے چھوٹے جانوروں کے گوشت کا کچھ حصہ بھی لازماً غریبوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔

   قربانی کرنے والا جانور کی کھال اپنے استعمال میں لا سکتا ہے اور کسی غریب کو بھی دے سکتا ہے، لیکن اسے بیچ کر اس کی رقم اپنے کام میں لانا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ اسے فقراء و مساکین میں صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اس طرح بڑی تعداد میں قربانی کی کھالیں یا ان کی رقمیں غریبوں کو مل جاتی ہیں اور وہ ان کے ذریعہ اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔

     ہر سال ہزاروں قصاب قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے اور اس کی اجرت پاتے ہیں۔ اجرت میں قربانی کا گوشت یا اس کی کھال دینا جائز نہیں ہے۔ ہاں اجرت کے علاوہ بہ طور صدقہ انھیں گوشت دیا جا سکتا ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ’’ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپؐ کے جانوروں کی قربانی کے وقت ان کی نگرانی کروں، ان کی کھالوں اور جھول کو صدقہ کردوں اور قصاب کو ان میں سے کوئی چیز بہ طور اجرت نہ دوں ‘‘۔ (بخاری و مسلم)

   قربانی سے ان لاکھوں گلہ بانوں کا فائدہ ہوتا ہے جو سال بھر جانوروں کو پالتے ہیں اور عید الاضحی کے موقع پر انھیں اچھے داموں میں فروخت کرتے ہیں۔ سال کے عام دنوں میں جانوروں کی جو قیمتیں ہوتی ہیں، عید الاضحی کے دنوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایک مخصوص زمانے میں جانوروں کو فروخت کرنے سے گلہ بانوں کا فائدہ ہوتا ہے۔

 قربانی ایک مخصوص دینی عمل ہے۔ اسے ریاکاری سے پاک رہنا چاہیے۔ ہر سال قربانی کے زمانے میں ایسی خبریں اخباروں کی زینت بنتی ہیں کہ فلاں صاحب نے ایک بکرا دولاکھ روپے میں خریدا۔ فلاں صاحب نے تین لاکھ روپے کی بولی لگائی۔ ابھی چند ایام قبل قربانی کے ایک جانور کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زائد لگائی گئی تھی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صراحت سے فرمایا ہے کہ اس کے پاس قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، بلکہ صرف تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اور اخلاص کے ساتھ انجام دیا جانے والا عمل ہی پہنچتا ہے۔ (الحج: ۳۷)

  خلاصہ یہ کہ قربانی کے بغیر ہی سماجی اور رفاہی اعمال انجام نہیں دیے جاسکتے، بلکہ ان کی انجام دہی قربانی کے ساتھ بھی ممکن ہے۔ کسی ایک کو نہ دوسرے پر قربان کیا جا سکتا ہے نہ کسی کو دوسرے پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔