قربانی کا گوشت تقسیم کریں، فریز نہیں!

احساس نایاب

بقرعید کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں میں قربانی کے جانوروں کو لیکر افرتفری مچی ہے، ہر کسی کی یہی چاہت ہے کہ ان کی قربانی کا جانور سب سے مہنگا اور شاندار ہو اور ان کی اس چاہت کو پورا کرنے کی خاطر بازاروں و منڈیوں میں جانوروں کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں اور گاہک بھی اپنی اس چاہت کو پورا کرنے کی خاطر منہ مانگی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں، تو وہیں دوسری جانب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اتنی خستہ حالت میں ہے کہ وہ اس عظیم فریضہ سے محروم ہیں، یہاں تک کہ انکے گھروں میں کئی کئی دنوں تک فاقے ہوتے ہیں، دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے اور پورا سال گذر جانے پر بھی انہیں گوشت کا ایک ٹکڑا میسر نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کے بچے سال بھر اسی انتظار میں گذارتے ہیں کہ جب بقرعید آئیگی تو گھر میں بہت سارا گوشت بھی آئیگا اور یہ جی بھر کے کھائینگے ، اپنے معصوم بچوں کی اس خواہش کو دیکھ کر بے بس مائیں بھی یہی امید لگائے رہتی ہیں کہ قربانی کا بچا ہوا گوشت سکھا کر چند دنوں کے لئے محفوظ کرلیں گی تو ان کے بچوں کی خوراک میں مزید کچھ اور دن گوشت شامل رہیگا۔

مگر افسوس عید کے دن ان کے گھر کی ہانڈیاں گوشت کے انتظار میں ٹھنڈے چولہے سے اتر ہی نہیں پاتی، پکوان کے لئے تیار کئے گئے مصالحے راہ تکتے تکتے دم توڑ رہے ہوتے ہیں ، ان کے بچوں کا انتظار ایک مذاق بن کے رہ جاتا ہے اور اسی خواہش میں عید کے مبارک دن بھی ان کے بچے بھوکے رہ جاتے ہیں ، اپنے بچوں کے بھوکے اداس چہروں کو نہ دیکھتے ہوئے مجبوراً یہ اپنی خودداری اور عزت نفس کا گلا گھونٹ کر گھر گھر گوشت مانگنے کے لئے نکل پڑتے ہیں، جہاں انہیں چند بوٹیوں کے بدلے ذلت رسوائی و دھتکار ملتی ہے۔

دراصل ان کی اس حالت کے ذمہ دار ہم ہی ہیں، کیونکہ بقرعید کی آمد کے ساتھ ہم میں گوشت کی حرص و ہوس اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ ہماری تیاریوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے، گوشت کو زیادہ دنوں تک محفوظ رکھنے کی تمنا لئے ہم نت نئے طریقے ایجاد کرنے لگ جاتے ہیں، گھر میں موجود فریج کو پوری طرح سے خالی کردیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ گوشت کو فریز کرکے کئی دنوں تک رکھ سکیں، آج ہم مسلمانوں کے لئے قربانی کا مقصد گوشت کی تقسیم سے بڑھ کر محض سیخ کباب اور گوشت سے بنے ذائقہ دار پکوانوں کے مزے زیادہ دنوں تک لینا رہ گیا ہے ۔ اور ہم اس خواہش اور ان تمام تیاریوں کو پوری طرح سے غلط تو نہیں کہہ سکتے بلکہ اس بات کا احساس دلانا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی تمام تیاریوں کے دوران اُن غریبوں کا بھی خیال رکھنا چاہئیے جو عید کے دن بھوکے پیاسے در در کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود بھی چہرے پہ مایوسی لئے لوٹتے ہیں ۔ کیونکہ اکثر گھروں میں قربانی کے بعد جیسے ہی گوشت کو تقسیم کرنا ہوتا ہے تو بناہڈی والا گوشت اور کچھ خاص قسم کا گوشت اپنے لئے اور اپنے عزیز دوست و احباب کے لئے نکال لیا جاتا ہے اور ایک طرح سے گوشت کا لین دین شروع ہوجاتا ہے جس کے گھر سے جیسا گوشت آئے گا بدلے میں انہیں ویسا ہی گوشت دیا جائیگا، یعنی کسی نے ران بھیجی ہو تو اسکے حصے میں ران ہی دی جائیگی جس میں ثواب کی نیت نہیں بلکہ واہ واہی کی چاہ ہوتی ہے اور تو اور اسی نیت سے کئی مسلم گھرانوں میں غیر مذاہب کے لوگوں کو قربانی کا گوشت استعمال کرکے دعوتیں بھی کی جاتی ہیں جو کہ سراسر غلط ہے، کیونکہ قربانی کا گوشت صرف مسلمانوں میں تقسیم کرنے کی اجازت ہے لیکن افسوس آج ہم نے اپنے مفاد کے لئے اس کو اپنا شیوہ بنالیا ہے، حقیقی حقدار کو محروم رکھ کے اوروں کو خوش کرنے میں لگے ہیں اور جب کچھ بچا کھچا بے کار گوشت ، ہڈیاں اور چربی کے لوتھڑے ہوتے ہیں وہ بڑی شان سے غریبوں کے حصے میں ملا کر تقسیم کرتے ہیں، جبکہ ہم یہ سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے کہ جو گوشت ہم نے خود کے لئے نکالا اور جھوٹی شان واہ واہی کے لئے استعمال کیا وہ تو صرف ہمارا ہے اور جو غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے وہ اللہ کو راضی کرنے کے لئے ہوتا ہے اور اللہ کی راہ میں قربانی دیکر کیا اسطرح کا گوشت دینا مناسب ہے ؟ اور جو گوشت فریز کرکے یا سکھا کے رکھا جاتا ہے وہ کیا ہم ساری زندگی کھا سکتے ہیں ؟

بالکل نہیں بھلے ہم پورا جانور اپنے حصے میں رکھ لیں ، اگر ایک دن کے لئے بجلی چلی گئی تو سارا گوشت بے کار ہوجائیگا اور کچھ دیر کے لئے اگر سورج نے منہ پھیر لیا تو سکھانے کے لئے رکھے گئے گوشت سے بھی بدبو آنے لگے گی ، پھر نہ اس سے ہمیں فائدہ پہنچے گا نہ ہی کسی غریب کا پیٹ بھریگا، نہ ہی ہماری قربانی کا مقصد پورا ہوگا ۔آج سال کے بارہ ماہ گوشت کھانے کے باوجود ہم گوشت کے اتنے طلبگار ہیں تو ذرا سوچیں اُن غریبوں کے بارے میں جنہیں گوشت کو دیکھے بھی ایک عرصہ گذر جاتا ہے، جس کی وجہ سے عید کی پرواہ کئے بغیر ان کے معصوم بچے اور عورتیں دور دراز علاقوں سے اپنے ہاتھوں میں خالی تھیلیاں پکڑے مسلم آبادی والے محلوں میں گوشت مانگتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں، جبکہ موجودہ حالات میں یہ کتنا خطرناک ہے، اس بات سے تو ہر عام وخاص انسان واقف ہے کیونکہ انکے ہاتھوں میں جو گوشت کی تھیلیاں ہوتی ہیں اسے سونگھ کر گلی کے کتے انہیں جھپٹ سکتے ہیں یا آج کے بھگوادھاری درندہ صفت انسان جھنڈ کی شکل میں آکر انہیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچاسکتے ہیں اور یہ خطرہ کسی ایک ریاست میں نہیں بلکہ ہندوستان کے ہر ریاست، ہر شہر، ہرخطہ کی ہر گلی میں خوفناک سائے کی طرح منڈرارہا ہے جو کبھی بھی گائے کے نام پہ جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے جنگلی کتوں کی طرح کسی پہ بھی حملہ آور ہوسکتا ہے اور ان حالات میں یہ بیچارے محض چند ہڈیوں ، چربی اور چھیچھڑوں کا بوجھ لادے اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہیں ، اس لئے ایسے مجبور محتاج بھائی بہنوں کے ساتھ اخلاص سے پیش آئیں اور انہیں بھی اپنی طرح انسان سمجھ کر وقت پہ انکا حق ادا کریں، عید کے دن انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور نہ کریں اور نہ ہی انکی خودداری کو ٹھیس پہنچائیں۔

اگر ہم ان کا خیال رکھیں گے تو انشاءاللہ یہ مظلوم کسی کا شکار بننے سے بچ جائیں گے ۔ ویسے بھی کئی ریاستوں میں بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی لگائی جاچکی ہے جس میں مہاراشٹرا،یوپی،گجرات اور مدھیہ پردیش شامل ہے اور سننے میں یہاں تک آیا ہے کہ یوپی کے ضلع سنت کبیر نگر کے مسہرا نامی گاؤں میں تقریباً دس سالوں سے عید الاضحی میں بکرے کی قربانی پہ بھی پابندی ہے اور ان حالات کے مدِنظر ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ احتیاط برتیں ، گلی محلوں میں قربانی کے جانوروں کی نمائش کرنے سے پرہیز کریں اور ذبح کی ہوئی تصاویر اور ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کرنے سے بھی گریز کریں۔

ہندوستاں میں آج مسلمانوں کے لئے حالات اتنے نازک ہیں کہ چھاچھ کو بھی پھونک پھوک کر پینا پڑرہا ہے ،ایسے میں ہماری چھوٹی سے چھوٹی غلطی ناسمجھی بھی ہم پہ یا ہمارے مجبور مسلم بھائی بہنوں پہ بھاری پڑسکتی ہے اور اللہ نہ کریں مسہرا گاؤں جیسے حالات ہر شہر ہر گاؤں میں نہ ہوجائیں ،اور آج جو کچھ بھی ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، کیونکہ موجودہ سرکار انہیں تعصبی شرپسند آقاؤں کے ہاتھ میں ہے اور قانون ان فسادیوں کی باندی بنا ہوا ہے جہاں مسلمانوں کے قتل پہ واہ واہی اور اعزاز ملتے ہیں تو وہیں جانور کو مچھر بھی کاٹ لے تو یہ مسلمانوں کا خون بہانے کے لئے نکل پڑتے ہیں ، انہیں تو بس ایک موقعہ ایک بہانے کی تلاش ہوتی ہے،اس لئے سمجھداری اسی میں ہے کہ ہم احتیاط برتتے ہوئے اپنے فرائض ادا کریں ،غریب مسلمانوں کا خیال رکھیں، اور خاص طور سے اس بات کو ذہن نشیں کرلیں کہ قربانی کا گوشت تقسیم کے لئے ہوتا ہے ،سکھانے یا فریز کرنے کے لئے نہیں، آج ہمارے گھروں میں شاندارجانوروں کی قربانی دینےکےباوجود ہمارے گلی محلوں میں غریب مسلمان گوشت سے محروم رہ گئے تو ہماری ایسی قربانی بیکار ہے.

تبصرے بند ہیں۔