قلم سے آگ بجھاو کہ جل رہا ہے چمن

تسنیم کوثر

حالیہ دنوں میں فلسطین پر اسرائیلی جبر میںبے انتہا  اضافہ ہوا ہے، امریکہ کی دیدہ دلیری یہ ہے کہ وہ اب  پہلے کی طرح ڈھکے چھپے نہیں بلکہ کھلم کھلا اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں میں اسکا معاون بنا ہوا ہے۔ سعودی عرب  سے التفات کو بھی اب اسکو چھپانے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان میں  اسکی اکھڑتی سانسوں  نے  اسکو بوکھلا دیا ہے، سیریا  میں مہنہ کی کھا کر  تلملا رہا ہے، پاکستان پر سے پھسلتا تسلط، چین  کے بڑھتے تجارتی دائرے اور روس کا ایشییائی ممالک  کے تئیں  بڑے بھائی والا سلوک  اسکی نیند اڑانے کو کافی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزرے ماہ و سال میں متعد د رپورٹ اور شواہد سامنے آچکے ہیں کہ داعش کی پشت پناہی امریکہ کر تا رہا ہے بلکہ  اس  دہشت گرد تنظیم کو دنیا میں دہشت و خوف کا صیغہ بنا کر مسلمانوں بالخصوص خلافت  لفظ کو داغدار کرنے کی منظم سازش کو انجام دینے میں پیش پیش رہا ہے۔ افغانستان امریکی ہتھیاروں کا ٹیسٹ لیب ہے۔

 افغانستان پر  مدر آف آل بم گرانے والے  امریکہ کی نیت کیا ہے اسکا اندازہ  خود افغانیوں کو بھی ہے  جو واضح طور پرکئی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ امریکہ سیدھے طور پر اپنی ہار تسلیم نہ کرتے ہوئے  طالبان  کے مد مقابل داعش کو کھڑا کر رہا ہے۔ طالبان کٹر ضرور ہیں لیکن شیعہ مخالف نہیں رہے ہیں جبکہ داعش کو کٹر سنی اور کٹر شیعہ مخالف پروپیگیٹ کیا گیا ہے، ایک تیر اور نشانے ہزار امریکہ کا ہدف ہے جو وہ داعش کے زریعے حاصل کرنے کی جُگت میں ہے۔ ایک طرف  امریکی صدر ٹرمپ نے آٹھ مئی 2018 کو ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کا اعلان کیا تھا  دوسری طرف امریکہ کی سرکردگی میں عالمی سامراج، ایران کے حالات کو بحرانی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ نفسیاتی جنگ کے ذریعے اور لوگوں میں ناراضگی کا پروپگنڈہ کرکے حکومت اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کرے۔

 امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کی خود امریکہ میں نیز عالمی سطح پر وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی ٹرمپ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، چین اور یورپی یونین نے اس بین الاقوامی معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے اسے باقی رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ٹرمپ کی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے ردعمل میں یورپی ممالک نے کہا ہے کہ وہ ایران کے جوہری معاہدے پر قائم رہیں گے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ ایران کے جوہری معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی کے باوجود، اس ملک کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی گہرے تعلقات جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور چین عالمی قوانین کے فریم ورک کے تحت دوطرفہ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو جاری رکھیں گے۔ جہاں ایک طرف چین نے کہا ہے کہ وہ ایران سے خام تیل کی درآمدات میں مزید اضافہ کرے گا، تودوسری جانب ہندوستان کے پٹرولیم کے وزیر دھرمیندر پردھان نے بھی کہا ہے کہ نئی دہلی ایران سے تیل کی خریداری  کا فیصلہ کسی دباؤ یا کسی سے مرعوب ہو کر نہیں کرے گا بلکہ اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر کرے گا۔ ہندوستان کے پٹرولیم کے وزیر دھرمیندر پردھان نے کہا کہ  ہندوستان ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے کیونکہ ایران کے ساتھ نئی دہلی کے اسٹریٹیجک تعلقات ہیں۔

چین اور ہندوستان کے علاوہ ترکی نے بھی جو ایران کے تیل کا بڑا خریدار ملک ہے اعلان کیا ہے کہ ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات میں کمی نہیں لائے گا – ترکی نے گذشتہ مہینوں میں  ایران کے خام تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے اور یومیہ دولاکھ تیس ہزار بیرل کردیا ہے – اسکا کہناہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے سے ایران اور ترکی کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ پاکستان نے بدھ  یعنی 11 جولائی 2018 کو خفیہ اداروں کے سربراہوں کے ایک ایسی کانفرنس کی میزبانی کی جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر موجود نہیں اس کانفرنس میں روس، چین اور ایران کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدے داروں نے شرکت کی۔ شرکا نے مشرقی افغانستان میں سرگرم جنگجوؤں کی سرگرمیاں روکنے سے متعلق مشترکہ اقدامات پر تبادلہ خيال کیا۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اب داعش کی آمجگاہ افغانستان ہے اور اس بات کے ثبوت بھی ہیں کہ  افغانستان میں موجود داعش کے عسکریت پسندوں کی وفاداریاں مشرق وسطی ٰ کے دہشت گرد گروپ سے ہیںتو افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے یہ چاروں ملک اپنے پڑوس میں داعش کے اجتماع کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس اجلاس کا ایک اور غیر معمولی پہلو یہ ہے کہ جو ملک داعش کی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، وہ اس کانفرنس میں شامل نہیں تھا، یعنی افغانستان۔

اب آئیے  جائزہ لیں کہ گزشتہ روز جو پاکستان میں خود کُش دھماکہ ہوا  وہ کس طرف اشارہ کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 25 جولائی کو عام انتخابات ہونے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ  اپنے قیام کے بعد سے ہی سربراہان پاکستان کے برے حشر سے  مزین ہے تازہ واقعہ  نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کا ہے جو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں بالترتیب  11 اور 8 برس کی سزا سنائے جانے کے بعد جمعرات کی شب براستہ ابوظہبی پاکستان واپس روانہ ہوئے تھے، لاہور پہنچے تو انھیں جہاز سے ہی سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی تحویل میں لے کر ایک خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد روانہ کر دیا۔ یعنی جمعے کی شب وہ جیل پہنچا دئے گئے۔ اس بیچ بلوچستان  کے کئی علاقے بم دھماکوں سے لرز  چکے تھے۔ منگل کے روز پیشاور میں  اے  این پی  کے لیڈر ہارون  بلور اپنے 21 حامیوں  کے ساتھ  مار دئے گئے۔ اور جمعے کو  مستونگ  کے دارن گڑھ میں  انتخابی ریلی میں خود کُش بم دھماکے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے لیڈر اور انتخابی امیدوار

نوابزادہ سراج رئیسانی  سمیت  128 لوگ مارے گئے۔ اس خود کش دھماکے نے آرمی اسکول  اٹیک کی یاد دلا دی جب  150 بچے مارے گئے تھے جسنے پوری دنیا کو  دھشت زدہ کر دیا تھا۔ سراج رئیسانی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے۔ نوابزادہ سراج رئیسانی کو حکومت کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے حال ہی میں تشکیل دی گئی بلوچستان عوامی پارٹی میں اپنی تنظیم بلوچستان متحدہ محاذ کو ضم کردیا تھا۔ سراج رئیسانی پر نواب اسلم رئیسانی کے دور حکومت میں جلسہ کے دوران بم حملہ ہوا تھا جس میں وہ بچ گئے تھے۔ تاہم اُن کے بیٹے اکمل رئیسانی اس دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ان سب کے بیچ وہ اہم میٹنگ  نظر انداز نہیںکی جا سکتی  کیونکہ برصغیر میں اسطرح کی کسی بھی میٹینگ کے چوطرفہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اور ہم بھی اچھوتے نہیں رہ سکتے جبکہ  ہماری حالیہ خارجہ پالیسی امریکہ و  اسرائیل نواز ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اس نادیدہ دائش سے لرنے کے نام پر پورے ملک میں ہتھاروں کی ٹریننگ شاکھاوں میں دی جا رہی ہے۔ اور نفرتی سیاست  کا ماحول گرم ہے جسمیں  راشٹرواد  کا سیسہ پگھلا کر مسلمان مخالفگروہوں کے کانوں میں انڈیلا جا رہا ہے تاکہ وہ کچھ اور سننے کے لائق نہ بچیں۔

اب اس تناظر میں بلوچستان کے ضلع مستونگ میں سیاسی پارٹی کے جلسے میں ہونے والے خودکش حملے پہ غور کیجئے جس میں 128افراد ہلاک اور150 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اب یہ بھی خبر عام کر دی گئی کہ دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ یہاں سے بیدار ذہن سوال کرتا ہے کہ اس کانفرنس کے ہوتے ہی داعش کی موجودگی ثابت کرنے کے لئے 130  جانوں کا تلف کرنا ضروری تھا ؟ جبکہ اس سے قبل ضلع مستونگ کے علاقے میں ہونے والے خودکش حملوں اور شیعہ زائرین پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔ پاکستان میں روس  چین اور ایران کے خفیہ اداروں کے عہدے داروں کے اجتماع سے کسکو سب سے زیادہ متوحش ہونا چاہئے؟ خطرہ تو اسکو ہوگا  جو خود کو کاونٹر ٹیررازم کا دادا سمجھ رہا ہے۔ جسکی پوری  طاقت اس ملک میں مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ہمدرد کے طور پر مشتہر کرنے میں لگی ہے  اور اسی کو اس قابل نہ سمجھا گیا کہ اس میٹنگ میں بلایا جائے  گویا چار سال سے کی گئی محنت پانی میں؟

 کون ہے جو داعش کو  اس خطے میں  اسٹیبلش کرنا چاہتا ہے  ہم خود بھی دیکھ رہے ہیں کہ 2014 سے ہمارے یہاں  انڈین مجاہدین  کی جگہ داعش  کے خوف کی برانڈنگ میں نیشنل میڈیا  پھلجڑیاں چھوڑتا رہتا ہے لیکن  اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ امریکہ اور اسکے حامی ممالک مسلم مخالف گلوبل ایجنڈے کو نافذ کرنے پر زور شور سے عمل پیرا ہیں  خاص طور پر سنُی مسلمان بنام ایکس وائی زیڈ  ۔ آپ  یکم جولائی  2018 کو جلال آباد  میں مارے گئے سکھوں اور ہندووں  کو یاد کیجئے  اس حملے میں  ایک سینئر سکھ لیڈر اوتار سنگھ خالصہ سمیت  کل 20 افراد ہلاک ہوئے تھے اوتار سنگھ خالصہ افغانستان میں 20 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں واحد سکھ امیدوار تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔ کون ہے جو داعش کے تار ہندوستان سے جوڑنے کے لئے اور اسکو سنی مسلمانوں کی دہشت گرد تنظیم ثابت کرتے ہوئے ہمارے وطن میں ایک مخصوص کمیونٹیکے خلاف ماحول تیار کر رہا ہے؟  جبکہ ہم یہ جملہ ڈائس سے سن چکے ہیں  ـتم ادھر کشمیر  میں گھسو گے ادھر بلوچستان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ دوسرے مہان  سپوت سبرامنیم  سوامی پچھلے سال کہہ چکے ہیں کہ ہندووں کو متحد کرو اور مسلمانوں میں شیعہ سنی تفرقہ پیدا کر  دو۔ اب ایسا لگ رہا ہے پہلے داعش کو لاو۔ پھر تو شیعہ سنی خود ہی لڑ پڑیں گے۔ بابری مسجد کا جن بھی اب بوتل سے باہر ہے جسمیں شیعہ سنی کا  الگ  الگ  اسٹینڈ سامنے ہے۔ ہمارے یہاں بی جے پی خود کو پرو شیعہ کہتی ہے اسکو تمام شکایتیں سنیوں سے ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔