قمرسلیم کے افسانوں میں زندگی کےمختلف رنگ 

تعارف و تبصرہ  :  وصیل خان  

نام کتاب  :  کچھ درد سوا ہوتا ہے (افسانوں کا مجموعہ )

افسانہ نگار  :  محمدقمر سلیم (موبائل  : 9322645061)

قیمت    :  200/- روپئے ۔ صفحات :  176

پبلشر     :  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۳۱۹۱،وکیل اسٹریٹ کوچہ پنڈت لال کنواں دہلی ۔فون : ۲۳۲۱۶۱۶۲

صورت حصول  : کتاب داربک سیلرممبئی موبائل : 9869321477۔

مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ممبئی فون : 022-23774857 امرین بک ایجنسی احمد آباد۔

موبائل : 08401010786۔انجمن ترقی   اردو حیدرآباد، موبائل :  9247841254۔

دانش محل لکھنؤ فون :  0522-2626724۔راعی بکڈپوالہ آباد موبائل : 9889742811۔

 قمر سلیم ایک سلجھےہوئے سنجیدہ افسانہ نگارہیں۔ ان کے بیشتر افسانےروایتی طرز کے ہیں۔ تخلیقی اعتبار سے وہ ایک مشاق اور وسیع الفکر کہانی نویس ہیں۔اظہار جذبات کیلئے چونکہ انہوں نے بیانیہ اسلوب کا انتخاب کیا ہے اس لئے ان کے افسانوں میںترسیل کا کوئی مسئلہ ہی نہیںہے ، ان کےیہاں فکری تسلسل کے ساتھ واقعات کا جماؤاور باہمی ارتباط کہانی کو منتشرنہیں ہونے دیتا، یہی وجہ ہے کہ قار ی استغراق کے ساتھ اول تا آخرکہانی سے جڑا رہتا ہے، کوئی بھی فنکار اپنی حساسیت اور فکری تفوق کی بنیاد پرہی آرٹ یا تخلیق کو قابل ذکر بناتا ہے جس کے لئے اسے ڈھیروں خون جلانا پڑتا ہے، فکر واحساس کے سمندر میں غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے تب ہی یہ ممکن ہوپاتا ہے کہ کچھ ڈلکتے موتی اس کے ہاتھ آجائیں جن کی خیرہ کن چمک سماج کےجسم پر جمی میل کچیل کو واضح کردے۔ قمرسلیم کے بیشتر افسانے گردو پیش کے مسائل پر محیط ہیں، انہوں نے سماجی معاشرتی، اقتصادی اور کہیں کہیں نفسیاتی اور جنسی مسائل کو بھی بحث کا  موضوع  بنایا ہے۔ ۱۹؍افسانوں پر مشتمل ان کا اولین مجموعہ ’ کچھ درد سوا ہوتا ہے ‘اس وقت ہمارےسامنےہے جس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلوب اور بیانیئےپر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ ’’ آتش فشاں‘‘ اور ’’پردہ اٹھادو‘‘ دو افسانے کشمیر کے تناظر میں تحریر کئے گئے ہیں جن میں کشمیریوں کے حالات اور ان کے ساتھ ہونے والےناروا سلوک کا  موثرتجزیہ کرتے ہوئے ا ندرون قلب کے ان رستے زخموں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہےجس پر عام لوگوںکی نگاہیں کم پہنچ پاتی ہیں،جہاںانتظامیہ اور مقتدرہ قصدا ً چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ’’ اینا ‘‘ مغربی تہذیب کے تناظر میںتحریر کردہ ایسا افسانہ ہے جوبے خبری، خود غرضی، حیوانی جبلت اورخونی رشتوں کو تار تار کرنے والے معاشرے کا ایسا خبرنامہ ہےجسے سن کر زبان دانتوں تلے آ جائے اور آسمان خون کی بارش کردے ۔ لیکن کہانی کی ساخت میںکچھ کمزوریوں کے سبب افسانے کا کھرا پن مجروح ہورہا ہے اور کہانی فطری نہیں مصنوعی لگنے لگتی ہے اور یہ سوا ل کھڑاہوجاتا ہے کہ جہاں قدم قدم پر باخبری کے امکانات موجود تھے اس کے باوجود اتنا بڑا سانحہ کیسے ہوگیا۔

 ’’ فرًو‘‘فسادات کے پس منظر کی کہانی ہےجہاںسفاکیت، درندگی اور حیوانیت کا برہنہ رقص توہوتا ہے لیکن وہیں کہیں سے کچھ خوش کن کیفیات بھی ابھرتی ہیں جس سے انسانیت خود کو پھر سے تازہ دم محسوس کرنے لگتی ہے، اسی کا نام فطرت ہے جو بہر صورت دوبارہ لوٹ آتی ہے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے افراد ایک بار پھر باہم شیر و شکر ہوجاتے ہیں۔ ’’جڑواں ‘‘ ایک ایسی کہانی ہے جس میں موجودہ سماج اور اس کی صورتحال کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے کہ لو گ کس طرح سے اپنے مقصد کے حصول میں سب کچھ بھلادیتے ہیں یہاں تک کہ انسانیت کی اس حد کو بھی پار کرجاتے ہیں جہاںصرف اور صرف اندھیروں کا راج ہوتا ہے۔ مجموعے کے سبھی افسانے کوئی نہ کوئی پیغام دیتے ہیں۔ جزئیات نگاری کا وصف ان کی کہانیوں کو مزید پرکشش اور بصیرت افروز بنادیتا ہے وہ کہانی کو کہانی ہی رہنےدینا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ علامات اور تجریدیت کے زور پر کہانی کو چیستاں نہیں بننے دیتےبلکہ ان کی پوری توجہ مقصد پر مرکوز ہوتی ہے تاکہ سماجی خرابیوں کو زیادہ سے زیادہ طشت از بام کیا جاسکے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی کہانیوں میں انسانی نفسیات، جبلت اور ہوسناکیوں کے مختلف مظاہر سامنے آتے ہیں اور یہ عوامل ہر لمحہ ایک مستحکم اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کا پیغام دیتے ہیں،فی زمانہ جس کی ضرورت پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہم ایوان ادب میں قمر سلیم کے اس تازہ اور اولین افسانوی مجموعے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔