قیادت کی ضرورت و اہمیت

سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی

(پرنسپل،  دارالعوام محبوب سبحانی کرلا ممبئی ) 

ہمارے پیارے نبی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اللہ عز وجل کی سب سے عظیم نعمت ہیں۔ خدائے پاک نے آپ کی آمد کو اپنا احسانِ عظیم قرار دیا ہے۔ اللہ عز وجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات کے لیے رحمت بھی بنایا ہے اور آپ کی سیرتِ پاک کو ہمارے لیے سب سے بہترین رول ماڈل بھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ترپن سالہ مکی اوردس سالہ مدنی زندگی میں اپنی تعلیمات و ارشادات اور کردار و عمل سے ایسا پاکیزہ معاشرہ تشکیل فرمایا ہے جس میں ایک طرف طہارت، امانت، صداقت، دیانت، عفو و در گزر، حلم و بردباری، حسنِ سلوک اور جذبۂ محنت و لگن کے جلوے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب قومی و ملی رہ نمائی کے ایسے شاندار اصول نظر آتے ہیں جن کی نظیر کسی بھی معاشرے میں نظر نہیں آتی۔

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیش کردہ نمونۂ عمل میں انسانوں کی کامیاب ترین زندگی کے تمام اصول و ضابطے بھر ہور طریقے سے جلوہ بار ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہکتی زندگی صرف مسلمانوں اور عام انسانوں ہی کے لیے بہترین نمونہ نہیں بلکہ اُن تمام انسانوں کے لیے شاندار رول ماڈل ہے جو زندگی کے کسی بھی شعبے میں رہ نمائی اور قیادت کا فریضہ انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اِس لیے ہم پورے اذعان و ایقان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں علما وقائدین کی طرح، سیاست دانوں اور سماجی رہ نماؤں کے لیے بھی اصول و ضوابط اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اپنے افعال و اقوال کے ذریعے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نمونے ہمیں عطا فرمائے ہیں اُن کی روشن کرنوں سے جس طرح ہم اپنے مخلص دینی رہ نماؤں کی پہچان کر سکتے ہیں، ٹھیک اُسی طرح اپنے سیاسی دنیوی لیڈروں کو بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ اب ہم سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض لے کر قومی و ملی قیادت کے چند رہ نما اصول پیش کر رہے ہیں۔ اُن کے انوار سے مستنیر ہو کر ہم اپنا سیاسی رہ نما منتخب کر سکتے ہیں۔

نیت کا خلوص:

حضور رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بے مثال اوصاف و کمالات کے ساتھ حُسْنِ نیت اور جذبۂ صادق میں بھی بے نظیر تھے۔ اِس کا اندازہ صرف اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے سنگین سے سنگین حالات میں بھی اپنی ذمے داریوں کو بحسن و خوبی نبھایا ہے اور کبھی بھی کسی سے بھی اپنی ذات کے لیے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا ہے۔ بے شمار حدیثوں میں بھی آپ نے اخلاص و حسنِ نیت کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ ایک متفق علیہ حدیثِ پاک میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَّا نَوٰی۔کاموں کا مدار نیتوں پر ہے اورہر شخص کے لئے وہی ہے جو اُس نے نیت کی [رواہ البخاری فی صحیحہ: رقم الحدیث: ۱]اِس حدیثِ پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزہ نیت اور حُسْنِ خلوص کی قدر و قیمت بیان فرمائی ہے۔ اِس کا صاف و واضح مفہوم یہی ہے کہ کسی کام کے اچھے یا برے نتائج کا انحصار کام کرنے والے کی اچھی یا بُری نیت پر ہوتا ہے۔ یعنی کام کرنے والے کی نیت میں جس قدر خلوص ہوگا اُس کا کام بھی اُسی قدر نفع بخش ہوگا اور اگر خلوص نہ ہو تو وہ کام اچھا ہونے کے باوجودنقصان دِہ ثابت ہوگا۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپناسیاسی لیڈر اُسے منتخب کریں جس کے عزائم و مقاصد خلوص سے لبریز ہوں۔ حِرْص و طمع اور مطلب پرستی کے اِس دور میں ایسا قائد ملنا کافی حد تک مشکل ضرور ہے مگرنا ممکن نہیں۔ یا پھر متعدد سیاسی قائدین میں خلوصِ نیت اور جزبۂ خدمتِ خلق کا تناسب جس کے اندر زیادہ ہو اُسے اپنا قائد و رہ نما منتخب کریں۔

احترامِ انسانیت:

آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں دوسرا اہم اصول یہ عطا فرمایا ہے کہ قوم کے رہ نما کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس کے اندر اپنی قوم کی عزت اور اُن کی خدمت کا جذبۂ صادق موجود ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ۔قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے [رواہ الخطیب فی التاریخ ج : ۱۰ ص: ۱۸۷]لہذا جس قائد و رہ نما اور امید وار کے اندر خادمانہ جذبات دوسروں کی بنسبت زیادہ ہوں اُسے موقع دیں اور جو مخدوم بننا چاہے یا سابقہ تجربات سے جس کی فرعونیت وشیطانیت ثابت ہو چکی ہو اُسے اپنی جوتیوں کی نوک سے اڑا دیں خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ ایسے نالائق کو اپنا قیمتی ووٹ دینا اپنے ساتھ اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں لے جانے کے مترادف ہے۔ اِس اصول کو اپنانے میں عوام کے ساتھ قائد کا بھی فائدہ ہے۔ قائد کا فائدہ یہ ہوگا کہ اُس کی عوام و خواص میں پزیرائی ہو گی، لوگوں کے دلوں میں اُس کی محبت بڑھے گی، قوم اُس پر اعتماد کرے گی اور آئندہ بھی اُسے اپنی قیادت کا موقع دیگی۔ عوام الناس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اُس کا قائد اُن کے معاملات پر بھر پور توجہ دے گا۔ اُن کے مسائل حل کرنے کی بھر پور کوشش کریگا۔ اُن کی عزت و خدمت اپنے لیے باعثِ فخر سمجھے گا اور دونوں کے باہمی تال میل اور ہم آہنگی سے ایک خوش گوار فضا قائم ہوگی اور ہر طرف امن و شانتی کے دیے روشن ہوتے نظر آئیں گے .

قُوَّتِ برداشت:

ملت کے اچھے قائد و رہ نما کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صبر و تحمل کی صفت سے متصف ہو۔ ہر ایک کی بات کا جواب دینا، ذاتی معاملات میں غیض و غضب میں آ جانا اورعوام کی تنقیدوں کا سخت نوٹس لینا، اصولِ قیادت کے سراسر خلاف ہے۔ جن کے اندر صالح قیادت کا جوہر ہوتا ہے وہ اِن باتوں سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ قوتِ برداشت رکھنے والے قائد ین ہی در حقیقت قوم وملت کی صحیح خدمت اور اُن کے دلوں پر طویل مدت تک راج کر پاتے ہیں۔ مگر صد بار افسوس ! کہ انتخابات میں جن مسلمانوں کو قائد و رہ نما منتخب کیا جاتا ہے اُن کا صبر و تحمل کسی مکر و فریب سے کم نہیں ہوتا، وہ قبلِ انتخاب تو بڑے شیریں مقال، منکسر المزاج اور صاحبِ اخلاق و کردار بنتے ہیں، عوام الناس کی ترش روئی اور بد اخلاقی کو بخندہ پیشانی برداشت کر تے ہیں، مگر کرسیِّ اقتدار پر جیسے ہی براجمان ہوتے ہیں، اچانک اُن کے تیور بدل جاتے ہیں، وہ اچانک انسان سے اچھے خاصے شیطان بن جاتے ہیں، اپنے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کر پاتے، اپنے اقتدار کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اپنے ناقدین سے کسی نہ کسی بہانے انتقام لے ہی لیتے ہیں۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صبر و تحمل کی جو روشن مثالیں قائم فرمائی ہیں، تاریخِ عالَم اُن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ غور فرمائیں ! کہ حضور ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر کیسے بے مثال صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا۔ انتقام پر قدرت رکھنے کے باوجود اُن تمام مجرموں کو معاف فرما دیا جنہوں نے مکی زندگی میں آپ اور آپ کے صحابہ پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے تھے، حتی کہ عکرمہ بن ابو جہل، ہندہ، ابو سفیان، صفوان بن امیہ، وحشی اور دیگر دشمنانِ دین کو نہ صرف یہ کہ معاف فرمایا بلکہ اُن سے اُن کے جرم کا ذکر تک نہ فرمایا۔ اِسی لیے آپ ﷺ کی حکمرانی اُن کے دلوں پر قائم ہوئی اور اُنہوں نے برضا و رغبت دامنِ اسلام میں پناہ لینے میں فخر محسوس کیا۔ آج کے مسلم ملی رہ نما اگر عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو حضور  ﷺ کی سیرتِ انور کے اِس حصے کو اپنانا ہوگا۔

بے غرضی:

حضورِ اکرم ﷺ کی سیرتِ پاک کے مطالعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ امت اور ملت کے حق میں بے نفس و بے غرض تھے۔ آپ اپنے ہر کام میں اپنی قوم کی منفعت مد نظر رکھا کرتے تھے اور آقا و مولی ہونے کے باوجود اُن کی بے لوث خدمت کیا کرتے تھے۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے سبب دشمنانِ دین نے آپ کی ذاتِ مبارکہ کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا، راہوں میں کانٹے بچھایے، جسمِ اقدس پر نجاست ڈالی، بد زبانی کی، حتی کہ شہید کرنے کی بھی کوشش کی، آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام پر ایسے مظالم کیے جنہیں زبان و قلم سے کما حقہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔مگر آپ نے بخندہ پیشانی اُن کے جملہ مظالم برداشت کیے، نہ کسی سے انتقام لیا، نہ کسی کی ہلاکت کی دعا مانگی، بلکہ اپنی قوم کی اصلاح کے لیے جہدِ مسلسل اور سعیِ پیہم کرتے رہے، لوگوں کے قلوب کا تزکیہ فرماتے رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ دشمنوں کے دل نرم پڑ گیے، اُنہوں نے بطیبِ خاطر کلمۂ حق کی تصدیق کی اور زبان سے اقرار بھی کیا اور ہمیشہ کے لیے حضور ﷺ کی غلامی میں داخل ہوگئے اور آناً فآناً محض چند سالوں میں اہلِ اسلام کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور جزیرۃ العرب کے گوشے گوشے انوارِ اسلام سے چمک اٹھے اور ہر طرف ایمان کی شعائیں پھیل گئی۔ آج کے دنیاوی و سیاسی مسلم لیڈروں کے لیے بھی یہ طرزِقیادت بہت عظیم رول ماڈل ہے، کوئی بھی صالح قائد اِس سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ حضور ﷺ کے سیرتِ پاک کے اِس حصے کو اپنی قیادت کا جزأِ لا ینفک بنا لینا کامیابی کی ضمانت ہے۔

تفتیشِ احوال :

رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک سے مسلم قیادت کویہ اصول بھی ملتا ہے کہ دورانِ قیادت قوم کو کسی بھی حالت میں بے یار و مدد گار نہ چھوڑا جائے، اُن کے احوال و کوائف کی جستجو کرکے اُن کی حاجتیں پوری کی جائیں، اُن کی تمام ضروریات کا اہتمام کیا جائے۔قائدین پر لازم ہے کہ بہر حال اپنی قوم کی ہر ممکن معاونت کریں۔ اُن سے بنفسِ نفیس ملاقات کرکے حالات دریافت کریں اور اپنے خصوصی اثر و رسوخ سے اُن کے گھروں میں خوشیوں کے دیے روشن کریں۔ صرف اپنی ہی تجوری نہ بھریں بلکہ عوام الناس سے بھی غربت و افلاس ختم کرنے کی سعی کریں۔ اُن کی بنیادی ضرورتیں پوری کریں۔ اُن کی تعلیم کا بہترین انتظام کریں۔ اُن کے ژولیدہ مسائل حل کریں۔ مصائب و آلام کے وقت صورتِ حال کا صحیح ادراک کرکے پیش آمدہ مسائل کے حل کی مناسب تدبیر یں کریں۔

مگر افسوس ! کہ ہمارے لیڈر علی العموم اِن تمام اوصاف سے عاری ہوتے ہیں۔ اُنہیں صرف اپنے اہل و عیال اور دوست و احباب یا چاپلوسوں کی ہی فکر رہتی ہے۔ اُن کی مداہنت کرنے والے ہی اُن کے اثر و رسوخ سے متمتع ہو پاتے ہیں۔ از خود کسی شخص کے گھر جا کر حالات دریافت کرنا تو دور، اگر کوئی پریشاں حال ملنا بھی چاہے تو اسے ہفتوں بلکہ مہینوں چکر لگانے پڑتے ہیں، بلکہ دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنہیں قوم نے نہیں بلکہ اُن کے خاندان والوں نے منتخب کیا ہے یا یہ کہ وہ اپنی قوم کے نہیں بلکہ صرف اپنے گھر والوں کے لیڈر ہیں۔ آج امت مسلمہ کو ایسے صالح قائدین کی حاجت ہے جو مذکورہ اوصاف کے حامل ہوں اور جن کے اندر اپنی قوم کا درد ہو۔ اربابِ حل و عقد اور صاحبانِ دولت و ثروت بیٹھ کر غور و فکر کریں اور ہمارے با وقار علما اور معزز ائمۂ مساجد عوام الناس کی درست رہ نمائی فرمائیں تو قومِ مسلم کو اچھے قائدین و رہ نما مل سکتے ہیں اور ہم شدید بحران سے نکل سکتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہم پر فضل فرمائے اور ہم میں چھے قائدین پیدا فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔