قیامت ڈھا گئی تیری ہنسی کیا

افتخار راغبؔ

 قیامت ڈھا گئی تیری ہنسی کیا

لبوں کو آ گئی جادو گری کیا

 ترے ابرِ وفا سے جو کِھلی ہے

کلی رہ جائے گی وہ اَدھ کِھلی کیا

دلوں میں بو رہا ہے تخمِ نفرت

یہی ہے تیرا فرضِ منصبی کیا

تری خوش بو کے جھونکے آرہے ہیں

کسی نے بند کھڑکی کھول دی کیا

سہولت سے محبت کرنے والو

سمجھ پاؤ گے میری بے کلی کیا

چہکتے چہچہاتے پھر رہے ہو

کسی چڑیا سے کر لی دوستی کیا

ڈرانا چھوڑ بھی دو بے کسوں کو

دِکھاتے ہی رہو گے بز دلی کیا

بتا دیتے تو کچھ مل جاتی راحت

تمھیں مجھ سے کوئی تکلیف تھی کیا

کبھی دیکھا ہے تیرے جی میں کیا ہے

بیاں کرتی ہے تیری ڈائری کیا

بتانا بھی نہیں ممکن کسی کو

تماشا کر رہی ہے زندگی کیا

فریبِ شوق تھا پر کیف راغبؔ

بھلا چشمِ محبت دیکھتی کیا

تبصرے بند ہیں۔