قیامت ڈھا گئی تیری ہنسی کیا
افتخار راغبؔ
قیامت ڈھا گئی تیری ہنسی کیا
لبوں کو آ گئی جادو گری کیا
…
ترے ابرِ وفا سے جو کِھلی ہے
کلی رہ جائے گی وہ اَدھ کِھلی کیا
…
دلوں میں بو رہا ہے تخمِ نفرت
یہی ہے تیرا فرضِ منصبی کیا
…
تری خوش بو کے جھونکے آرہے ہیں
کسی نے بند کھڑکی کھول دی کیا
…
سہولت سے محبت کرنے والو
سمجھ پاؤ گے میری بے کلی کیا
…
چہکتے چہچہاتے پھر رہے ہو
کسی چڑیا سے کر لی دوستی کیا
…
ڈرانا چھوڑ بھی دو بے کسوں کو
دِکھاتے ہی رہو گے بز دلی کیا
…
بتا دیتے تو کچھ مل جاتی راحت
تمھیں مجھ سے کوئی تکلیف تھی کیا
…
کبھی دیکھا ہے تیرے جی میں کیا ہے
بیاں کرتی ہے تیری ڈائری کیا
…
بتانا بھی نہیں ممکن کسی کو
تماشا کر رہی ہے زندگی کیا
…
فریبِ شوق تھا پر کیف راغبؔ
بھلا چشمِ محبت دیکھتی کیا
تبصرے بند ہیں۔