قیس و فرہاد سا نام کر جائیں گے 

عبدالکریم شاد

قیس و فرہاد سا نام کر جائیں گے

عشق میں ہم بھی حد سے گزر جائیں گے

گھر سے نکلے تو ہم اتنی دور آ گئے

سوچتے ہیں کہ اب کیسے گھر جائیں گے

طے کرے گا یہ حالات کا سنگ میل

ہم ادھر جائیں گے یا ادھر جائیں گے

اس لیے دل کو رکھتے ہیں محفل سے دور

آئینہ دیکھ کر لوگ ڈر جائیں گے

ہم پریشان زلفیں سنواریں گے کیا

اس کی خوشبو میں خود ہی بکھر جائیں گے

اپنی ہستی کا احساس بھی چاہیے

"صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے”

کوئی منزل ہماری معین نہیں

چلتے چلتے کہیں بھی ٹھہر جائیں گے

لاکھ ہم کو دبائے گی موجِ بلا

بلبلے کی طرح ہم ابھر جائیں گے

کیسے دعووں سے قائل کریں گے اسے

جب ہمارے ہی اعضا مکر جائیں گے

محو گردش ہیں شمس و قمر مستقل

راہ سے اپنی ہٹ کر بکھر جائیں گے

ایک مدت کے بگڑے ہوئے ہیں جو ہم

کس طرح ایک پل میں سدھر جائیں گے

دیکھیں اک دوسرے کی نظر میں اگر

شاد جی! سب کے چہرے نکھر جائیں گے

تبصرے بند ہیں۔