لائف اسٹائل ڈزآرڈر سے لاحق بیماریا ں اور چیلنجز

ڈاکٹرنازش احتشام اعظمی

دور حاضر میں مغربی طرز معاشرت کی نقالی اور خورد نوش میں چائینز فوڈکے علاوہ فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بظاہر ہینڈسم اور صحتمند دکھائی دینے والے انسان کو اندر سے یکسر کھوکھلا بناکر رکھ دیا ہے۔انہیں عادتوں کی وجہ سے ہمارا جسم پیچیدہ اور سنگین امراض کا خزانہ بن چکا ہے ۔علاوہ ازیں زیادہ سے کمانے اور اقتصادی مقابلہ آرائی کے ماحول نے ہمار ی زندگی کے سارے نظام کو تہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے۔نہ وقت سے کھانے پینے کاکوئی سسٹم ہماے پاس باقی رہا اور نہ سونے جاگنے کے فطرت اصو لو ں کو بنی نوع انسان اپنی زندگی میں برقرار رکھ سکا۔نتیجہ کار آج ایسی ایسی بیماریاں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جس کا ہم اپنی زندگی میں کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔

زندگی کی بھاگ دوڑ اور مغربی طرز معاشرت میں خود کو ڈھالنے کی تگ ودو سے ہمیں کبھی فرصت ملے تواس بات پر ضرور توجہ کیجئے گا کہ بیمار ہونا کس کو پسند ہے اور انسان صحت مند رہنے کیلئے ہر جتن کرتا ہے مگر ہم اپنی غلط عادتوں،فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر ہم مضرصحت عادتوں سے کیسے بچیں جو ہمیں ہمیشہ کیلئے بیمار کرسکتی ہیں؟ جی ہاں چند بظاہر سادہ اور بے ضرر نظر آنے والی عادتیں آپ کو امراض کیلئے کمزور بنا رہی ہوتی ہیں اور ان سے بچنا بھیہمارے اپنے ہاتھ میں ہی ہے۔لیکن اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے بے اصولی فطرت سے باغی ہوچکی عادتوں اور طرز معاشرت سے خود کو بچانا ہوگا جوموجودہ نام ونمود اور دکھاوے کے معاشرے میں کسی چیلنج سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہے۔بے تحاشہ کمانے اور پرتعیش زندگی کیلئے دولت جمع کرنے کی ہوس انسان کو پوپھٹتے ہی اپنے آشیانوں سے باہر کردیتی ہے،نتیجہ کار گھر کا بناہوا تازہ اور آلودگی سے پاک فطری غذا تصور کی جانے والی خوراک کے چند نوالے بھی اپنے حلق اتار نے کا موقع ہمارے ہاتھوں میں نہیں رہتا۔مجبوراً آج کے انسان کو ناشتہ سے لے کر رات کے کھانے تک باہری آلودہ اور سرے گلے تیل میں تیار کئے ہوئے چائنیز کھانے اور فاسٹ فوڈ کے ذریعہ اپنی بھوک مٹانا ہماری مجبوری بن جاتی ہے۔یہ غذ ہم ہندوستانی آب و ہوا میں جینے اور سانس لینے والوں کیلئے کس قدر تباہ کن بیمار کرنے والی ہے اس کے متعلق فرصت ملے تو کسی ڈائٹیشین سے ضرور پوچھئے۔اسی تام جھام بھرے اور دکھاوے کی حرص نے راتوں کی نیند بھی ہم سے چھین لی ہے۔

حفظان صحت کے اصول بتاتے ہیں کہ دن بھر کے کام کاج سے چور ہوچکے انسان کی صحت کیلئے رات کی پرسکون نیند انتہائی ضروری ہے۔مگروہی زیادہ سے زیادہ کمانے اور اپنی شہوت پرست فکر وذہن کو آسود گی بخشنے کیلئے بستر پر لیٹ کر بھی جلد نیند کی آغوش میں چلے جانے ضرورت کو بھی تہ و بالا کردیتے ہیں۔کبھی بستر پر ہی لیٹے لیٹے تجارتی اور ملازمت سے متعلق باتوں ،اور کسی معشوقہ یا گرل فرینڈ سے چٹنگ کرنے میں سونے کا سونے جیسا وقت بھی بے خوابی رت جگا میں گزاردیتے ہیں۔بالآخر ایک یہی عادت ہمیں بے خوابی اورنیند کی کمی کے خطرناک مرض کا شکار بنادیتی ہے۔ناکافی نیند یا بے خوابی کس درجہ سنگین ہے اسے ہم تھوڑی تفصیل سے بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

ناکافی نیند:

نیند کے دوران جسم دفاعی نظام کو نئے بیکٹریا، وائرس اور دیگر کے خلاف لڑنے کے بہتر طریقے سکھاتا ہے، اگر نیند پوری نہ ہو تو جسم کیلئے امراض سے مؤثر طریقے سے لڑنا ممکن نہیں رہتا، ایک تحقیق کے مطابق صرف چھ دن کی کم نیند بھی جسم کو صفائی کے عمل سے روکنے کیلئے کافی ثابت ہوتی ہے، جبکہ اس کی وجہ سے نزلہ زکام، ذیابیطس، الزائمر اور کینسر سمیت متعدد امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ سارا دن بیٹھ کر گزارنا ورزش نہ کرنا آپ کی بیماری کا دورانیہ بڑھانے کا باعث بنتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر سرگرم رہنے والے افراد دیگر کے مقابلے میں کسی مرض کا کم شکار ہو تے ہیں اور کوئی بیماری لاحق ہو تو بھی اس کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سست طرز زندگی کے عادی افراد میں امراض کی شدت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ہر وقت تناؤ ،دفتری تناؤ ویسے تو بڑے نقصان کا باعث نہیں بنتا، مگر دفتری تناؤ گھر میں بھی آپ کو اپنی زد میں رکھتا ہو تو بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، در حقیقت تناؤ جسمانی دفاعی نظام کو کمزور کرتا ہے اور وہ انفیکشن کے خلاف مؤثر دفاع نہیں کرپاتا، جبکہ بہت زیادہ تناؤ تباہ کن ثابت ہوتا ہے، کیونکہ ان میں نزلہ زکام سمیت متعدد امراض کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

جنک فوڈ جنک فوڈ جسمانی دفاعی نظام کو زیادہ کام کرنے پر مجبور کردیتا ہے، جبکہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز ورک کش ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ پروٹین کو کنٹرول بھی کرتے ہیں جو جسم کو نقصان دہ اجزاء کی شناخت میں مدد دیتے ہیں۔ تو جنک فوڈ کی جگہ مچھلی، اخروٹ یا ایسے ہی غذا کو دینا فائدہ مند ہوتا ہے۔ گلے کے درد پر اینٹی بایوٹیکس کا استعمال اینٹی بایوٹیکس ادویات کا استعمال جسمانی دفاعی نظام پر ملے جلے اثرات مرتب کرتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق یہ ادویات مخصوص امراض کے خلاف لڑنے والے خون کے سفید خلیات اور مالیکیولز کی مقدار کو کم کردیتی ہیں، جس کے نتیجے میں جسمانی دفاعی نظام کمزور ہوکر امراض کا زیادہ شکار ہونے لگتا ہے۔ ہمیشہ ان ادویات کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہ کریں۔میرے ذاتی اندازہ کے مطابق اس وقت سوٹیڈ بوٹیڈ اور تعلیم نوجوان جو ہائی فائی دفاتر میں کام کرتے ہیں ،ان کی اکثریت نزلہ زکام کی شکار ہے ۔بعض لوگ معالجین کے پاس جاکر عموماً کہاکرتے ہیں کہ ’’ڈاکٹرصاحب ہمیں کرانک نزلہ لاحق ہے،ہمیشہ دوا کھانے کے باوجود یہ ظالم نزلہ وزکام ہمارا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ،خداکے واسطے ہمیں اس مصیبت مکمل نجات دلادیجئے‘‘۔ معا لجین بھی نزلہ کی اس سنگین کیفیت کو دیکھنے اور سننے کے بعد مریض سے یہ کہہ کر نجات حاصل کرلیتے ہیں کہ آپ کا نزلہ کوئی بیماری ہے ،بلکہ یہ ایک الرجی ہے ،جس کا اب تک کوئی علاج دستیاب نہیں ہوسکا ہے۔میرا مشورہ ہے کہ ان معالجین اور مریضوں کو نزلہ کی شدت کو سمجھنے کیلئے مندرجہ بالا تحقیق کو غور پڑھ کر اپنی عادتوں تبدیلی لاکر فطرت کے اصولوں سے بغاوت کی اپنی ضد چھوڑ دینی چاہئے۔امید ہے کہ اس کے بعد انہیں دائمی نزلہ کی یہ شکایت لے کر دواخانوں کے چکر لگانے کی پریشانی ہمیشہ کیلئے فرصت مل جائے گی۔

بے تحاشہ بھاگ دوڑ:

مغربی طرز زندگی اور گھر کی بنی ہوئی صحتمند غذا سے محرومی اور فاسٹ فوڈ کے بے تحاشہ استعمال نے ہمیں تحفے کے طور جوبیماریا ں دی ہیں ،اس میں ایک پیچیدہ مرض عام ہوتا ہو ا موٹا پابھی ہے۔جس پر ہم درج ذیل سطور میں تھوڑی تفصیلی روشنی ڈال رہے ہیں۔

جسمانی وزن زیادہ ہونا :

صحت مند وزن نہ صرف فٹ نظر آنے کا باعث بنتا ہے بلکہ امراض سے تحفظ بھی دیتا ہے، اس کے مقابلے میں موٹاپا جسم میں خون کے سفید خلیات کی تعداد کو کم کرتا ہے، پیٹ میں چربی اور اعضاء کے گرد چربی کے نتیجے میں جسماین دفاعی نظام متاثر ہوتا ہے، جس سے میٹابولزم امراض، ذیابیطس،بلڈپریشر اورامراض قلب وغیرہ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں ۔ آج کے دور میں اکثر لوگ تھکے ہوئے، اداس اور مایوس نظر آتے ہیں۔بہت سے لوگ روزمرہ کے کام کرنے میں ہی تھک جاتے ہیں، کچھ بھی کرنے کا دل نہیں کرتا۔چھوٹے موٹے کام بھی تھکا دینے والے اور بورنگ لگتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جسم میں جان ہی نہ ہو ایک بوجھ محسوس ہوتا رہتا ہے۔

برطانیہ کی اینا کیتھرینا شوفنر ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرتی تھیں، یوں لگتا تھا کہ جیسے جسم میں طاقت ہی نہ ہو۔اینا گھریلو کام میں ہی اتنا تھک جاتی تھیں کہ ان کے لیے دفتر کا کام نمٹانا بہت بھاری پڑتا تھا۔آج دنیا میں بیشمار لوگوں کی حالت اینا جیسی ہے ان میں سے کئی تو مشہور شخصتات ہیں۔ جیسا کہ گلوکارہ ماریا کیرے یا پھر پوپ بینڈکٹ سولہویں۔ان لوگوں کو بھی تھکاوٹ کی یہ بیماری ہوئی ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بیماری اسی دور کی پیدائش ہے۔کیا یہ واقعی سچ ہے؟ یا سستی کسی کایہ دور عارضی ہے؟ یا پھر یہ انسان کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔

اینا شوفنر برطانیہ کی کینٹ یونیورسٹی میں میڈیکل کی مؤرخ ہیں اسی لیے انہوں نے خود ہی اس تھکاوٹ کی وجہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کا نتیجہ ایک کتاب کی شکل میں سامنے آیا۔جس کا نام ہے (exhaustion a history)۔یہ کتاب انتہائی دلچسپ ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی تھکاوٹ، جسم میں طاقت کی کمی اور دماغی تھکاوٹ کو ڈاکٹروں یا ماہرین نفسیات نے کس طرح سمجھنے کی کوشش کی ہے۔کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر فطری نظام زندگی ،سونے ،جاگنے اور کھانے پینے میں بے اعتدالی کے علاوہ فاسٹ فوڈ اور چائنیز فوڈ نے جسم کو ان تمام خلیات مردہ جان کردیا ہے جو ہمیں چست درست اور فعال وسرگرم رکھتے ہیں۔اسی وجہ سے دائمی تھکاوٹ کام میں جی نہ لگنا اور محنت کے تصور ہی سے کانپ جانے جیسے مسائل ہمیں گھیر چکے ہیں ،نتیجہ موٹاپا بڑھتا جارہا ہے اور زندہ انسان بظاہر صحتمند نظرآتے بھی کاہل اور سست بن چکا ہے،حتی کہ وہ کسی بھی کام کے لائق نہیں بچا.

اس سب کا واحد علاج فطرت کی جانب لوٹنا اور اپنی طرز معاشرت میں حفظان صحت کے اصولوں کی زندگی کے سبھی لمحات میں پابندی کرنا،یہی چند تبدیلیاں ہمیں درجنوں بیماریوں سے محفوظ رکھیں گی اور ہم اپنی زندگی کو پھرسے طاقتور اور توانا بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔