لاتور زلزلہ کے 25 سال

خالد سیف الدین

(اورنگ آباد) 

تبدیلی قدرت کا قانون  اور فطرت کا دستور ہے جو لگاتار چلنے والا ایک ایسا عمل ہے جس میں  چھوٹے، بڑے، مادی اور غیر مادی مظاہر ہماری طبعی، سماجی اور تہذیبی ماحول کی تعمیر کرتے ہیں یہ ایک ایسا عمل ہے جو اپنی جسامت، شدت اور پیمانے میں تبدیلی کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے۔ تبدیلی بتدریج اور آہستہ آہستہ ہو سکتی ہے۔ آتش فشاں کا پھٹنا، زلزلے، بجلی کا گرنا، اور سونامی وغیرہ عالمی حرارت میں اضافہ اور اوزون تہوں  کی کمی کی وجہ سے بھی واقع پذیر ہو سکتے ہیں۔ اور یہی تبدیلی قدرتی آفات کہلاتی ہیں۔ قدرتی آفات کو ٹالنا کبھی بھی حضرت انسان کے بس کی بات نہ تھی اور نہ کبھی ہو سکے گی۔ آ فت ایک نا پسندیدہ واقعہ ہے جو کہ انسان کے قابو کے باہر اور قدرتی قوتوں کی وجہ سے اچانک یا بغیر انتباہ کے رونما ہوتاہے۔ جو انسانوں میں خوف و ہراس  پیدا کردیتاہے۔ جس سے زندگی اور املاک درہم برہم ہوجاتی ہیں اور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے۔ ان میں سے بعض قدرتی آفتوں نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹاکر رکھ دیا۔ ان قدرتی آفات میں زلزلے سے بڑ ھکر کوئی آفت دہشت ناک نہیں۔ اس لیئے کہ زلزلہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر  ایکدم نازل ہوتا ہے  اور  یو ں ذہنی طور پر اسکا سامنا کرنے کی تیاری کا کسی کو بھی وقت نہیں ملتا   اور اس کے اثرات زیادہ گہرے اور دیر پا ہوتے ہیں۔ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن وملال، پثر مردگی، اور خوف مسلط رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک دنیا میں آنے والے زلزلوں میں آٹھ کروڑ انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔  مالی نقصانات کا تو شاید کوئی حساب ہی نہیں لگا  یا جاسکتا۔

لاتور زلزلہ سانحہ گزرے ۲۵  سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس آفتِ ناگہانی کا خوف، درد  و الم  آ ج بھی دل و دماغ پر اثر انداز ہے۔ زلزلے کا  قہر ۳۰  ستمبر ۱۹۹۳ ء کو علی الصباح ۳ بجکر ۵۶ منٹ پر برپا ہوا۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ لاتور ضلع کے علاوہ دیگر ۱۳  اضلاع میں بھی اس کے اثرات پائے گئے تھے او ر ان ۱۳  اضلاع کی تقریباً ۲ لاکھ  ۱۱  ہزار عمارتوں میں گہری دراڑیں پڑ گئی تھیں۔  سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ریکڑر اسکیل ( زلزلے کی شدت ناپنے کا طریقہ کار) پر اس زلزلے کی شدت 6.04 تھی۔ اس زلزلے میں 7928 اموات واقع ہوئی تھیں۔ 16000افراد  زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ 15854جانور ہلاک گئے تھے۔ اس زلزلے کی شدت کا مرکز ((Epicentre لاتو ر کا موضع کلاری تھا۔ جہاں زیرِ زمیں ایک بڑا سا گڑھا ((Crater بن گیا تھا جس کی وجہ سے زمین میں پوشیدہ گرم گیسیس اور لاوا نکلنا شروع ہو گیا جس نے زلزلے کا روپ اختیار کر لیا۔ لاتور کا  اوسہ بلاک اور عثمان آباد کا عمرگہ تعلقہ چونکہ کلاّری سے سٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے بہت ذیادہ متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ   Epicentre  سے  متصل دیگر  ۵۲ دیہات پوری طرح سے تہس نہس ہو گئے تھے  اور یوں انسانی ذات کی بے سباتی ایک بار پھر کھل کر عیاں ہو گئی تھی۔

لوگ اس وقت گہری نیند میں سو رہے تھے کہ اچانک دھول، مٹی میں لپٹی ہوئی اندھیروں میں ڈوبی ہوئی فضاء میں چیخ و پکار کی آوازیں گونج اٹھی  ان آوازوں کو سننے والا کوئی نہیں تھا۔ایک ہو کا عالم برپا تھا چاروں طرف افرا  تفری پھیل گئی تھی عمارتیں زمین پر تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکی تھیں اور کچھ عمارتیں زمین میں دھنس چکی تھیں۔ عمارتوں کے ملبے میں پھنسنے اور دم گھٹنے کی وجہ سے کئی زندگیاں ختم ہو چکی تھیں۔ بجز اس ننھنی سی بچی کے جسے ایک  فوجی نے  اپنی جان پر کھیل کر ملبے سے نکال لیا تھا  اور اس بچی کا نام Miracle babyــ  رکھ دیا تھا جو آج 25 سال کی ہو چکی ہے اور درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہے۔ ہندوستان کے دیگر اخبارات کی طرح روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز بھی چھپ چکا تھا لیکن جیسے ہی علی الصباح لاتور زلزلے کی خبر پہونچی آناً فاناً اورنگ آباد ٹائمزکے ذمہ دارجناب شعیب خسرو اور جناب شکیب خسرو نے چھپے ہوئے اخبار کو تبدیل کردیا  اور ان تک لاتور زلزے کی جتنی بھی خبریں  پہونچی تھی ان تمام کو اخبار کے صفحات میں شامل کر لیا۔

اسطرح سارے ہندوستان کے پرنٹ میڈ یا میں اورنگ آباد ٹائمز نے سب سے پہلے لاتور زلزے کی خبروں کو شائع کیا۔صحافی قاضی مخدوم (بیڑ) وہ پہلے صحافی تھے جو  علی الصباح کوریج کے لئے لاتور پہنچے تھے۔ اسی طرح ڈاکڑ محمد جاوید اطہر مکمل سرکاری میڈیکل ٹیم لیکر پہنچنے والے سرکاری دواخانہ جالنہ سے وہ  پہلے میڈیکل آفیسر تھے جنہوں نے سب سے پہلے اپنا میڈیکل  کیمپ لگا کر متاثرین کا علاج شروع کر دیا تھا(آج ڈاکڑ جاوید اطہرسیول ہاسپیٹل پربھنی میں سویل سرجن کے عہدے پر فائز ہیں )۔جبکہ اس وقت عمر گہ  کے ایم ایل اے  جناب قاضی عبدالخالق صاحب نے جیسے ہی زلزلے کی خبر سنی ان کو دل کاشدید  دورہ پڑا  اور وہ مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ شاید دل کے دورہ کی شدّت بھی اتنی ہی ہوگی جتنی زلزلے کی شدّت تھی۔ آپ قارئین کو  میں یہ بات بھی  بتاتا چلوں کہ اُپر جن افراد کا ذکر ہوا ہے اتفاق سے  وہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں۔

انسانی معاشرہ  ایک دوسرے سے مل کر بنتا ہے اور کوئی فرد  اکیلے مکمل نہیں ہوتا اسے زندگی کے کسی نا کسی موڑ پر دوسرے انسانوں کی مدد لینا ہی پڑتی ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ یہیں سے جنم لیتا ہے۔ خوشی کے دنوں میں تو لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہی ہیں اصل امتحان مشکلات و مصایئب میں ہوتا ہے کہ کون کس کے کتنے دکھ بانٹتا ہے  اس لئے ایسے حالات میں سرکاری ہنگامی خدمت( Disaster Management) کے ذریعہ فرا  ہم کردہ خدمات کے علاوہ بھی دیگرکوششوں کو متحرک ہوجانا پڑتا ہے۔ لاتور زلزلے کے رونماء ہوتے ہی ایسی تمام تر کوششیں متحرک ہو گیں، لوگ مصیبت زدہ افراد کی امداد کو نکل پڑے۔ لیکن ان کو یہ سمجھ نہیں پڑرہاتھا کہ ان مصیبت زدہ افراد کی مدد کیسے کی جائے ملبہ کس طرح ہٹایا جائے محدود  وسائل اور غیر تربیت یافتہ نیم سرکاری تنظیموں (NGO) کی ترکیبیں زیادہ کار آمد نہ ہوسکی۔ جب فوج پہنچی تب صحیح معنوں میں ــــ’راحت رسانی‘  کے  کام میں تیزی آئی۔ جو کام  اکیلی حکومت کے بس کا نہ تھا وہ  افراد،  نجی  اداروں  اور تنظیمیوں نے کر  دکھا یا  اور بڑی حد تک متاثرین کے دکھ درد بانٹ لئے۔

آج بھی کلّاری میں ۳۰ ستمبر کو کالا دن منایا جاتا ہے آج بھی وہ لوگ زلزلے کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے محسوس کرتے ہیں زلزلے کہ وقت جو بچے چھوٹے تھے آج وہ جوان ہو چکے ہیں اس نئی پیڑھی نے اپنے دکھ درد بازو رکھ کر زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس طرح کے حادثات کا وقت ہی بہترین مرہم ہوتا ہے۔ تا ہم زلزلے کہ ۲۵  سال گزر جانے کے باوجود متاثرین اس حادثہ کو بھول  نہیں پائے۔اس حادثے میں جو لوگ فوت ہو گئے انکی یادیں مرحومین کے رشتہ داروں کے دلوں میں  ابھی بھی تازہ ہے اور جو زخمی ہوئے تھے وہ ابھی تک حالات کے رحم و کرم پر زندہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔